Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

اردو کی لسانیاتی ساخت

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 15, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
15 Min Read
SHARE
الفِ مکسورہ و ممدودہ : اُردو میں ہر ایک الف (ا) چاہئے ساکن ہو یا متحرک، شروع میں ہو یا بیچ میں یا آخر میں الفِ مقصورہ ہی ہوتاہے۔ اس الف کو الف ممدودہ کے برعکس کھنچ کر نہیں پڑھاجاتا۔ جیسے اَب، اندر، احسان کا الف۔ الف ممدودہ وہ الف ہے جس پر مد (    ٓ  ) ہو۔ یہ الف دو الف کے برابر ہوتا ہے۔ اور عروض میں اسی لئے الف ممدودہ کو بڑی آواز اور الف مقصورہ کو چھوٹی آواز کے برابر مانا جاتا ہے۔ جیسے آ، بروزِن فاع اور اب، بروزنِ فا۔ عربی میں الف کی متحرک صورت کو ہمزہ کہا جاتا ہے۔ اسی لئے ’’تامل‘‘ لفظ کو عربی میں ’’تأَمل‘‘ لکھا گیا ہے۔ متعدد پُرانی مطبو عہ کتابوں میں الف ممدودہ کو مد کے بغیر دو الف سے لکھا گیا ہے۔ جیسے ااب، ااتش وغیرہ۔ شیرانی صاحب نے بھی اپنی مشہور تحقیقی کتاب ’’پنجاب میں اُردو‘ میں لکھا ہے۔ کہ گجرات میں بارھویں صدی ہجری کی ابتداء میں ’’الف ممدودہ‘‘ دو الف کی شکل میں لکھا جاتا تھا۔
نونِ غنہ : جس نون کی آواز بھنبھنا کر ناک سے ادا کی جائے اُسے نونِ غنہ کہتے ہیں۔ اس کی شکل ن کی ہی طرح ہوتی ہے البتہ لفظ کے آخر میں استعمال ہوتے وقت اس پر نقطہ نہیں ڈالا جاتا جیسے جہاں، کہاں، سماں وغیرہ۔ اس صورت میں یعنی جب نون غنہ لفظ کا آخری حرف ہو تو اُس سے پہلا حرف ضرور حرفِ علت ہو گا۔ مگر جب نون غنہ لفظ کا آخری حرف نہ ہو تو اس کے پہلے حرف علت کا ہونا ضروری نہیں آتا بھی ہے نہیں بھی آتا جیسے رانڈ، رنگ وغیرہ۔ (قواعد اُردو، از پروفیسر فدا علی خان مرحوم)اور جب لفظ کے درمیان میں استعمال ہوتی ہے۔ تو اس کی ٹوٹی ہوئی شکل پر یہ علامت (v) ڈالی جاتی ہے۔ مثلاً بنگلور، سانپ، پونچھ وغیرہ۔ بعض اوقات کسی لفظ میں ’نون‘ کے بعد ’’ب‘‘ آئے نون کی آواز م میں بدل جاتی ہے۔ لکھنے میں تو ’نون‘ ہی آتا ہے۔ البتہ پڑھا م جاتا ہے۔ جیسے ۔ گنبد، جنبش، دُنبہ وغیرہ۔ کہیں یہ قاعدہ بقول ’’اُردو املا‘‘ کے مصنف رشید حسن خان عربی و فارسی الفاظ تک ہی محدود ہے دوسری زبانوں کے لفظوں میں میم ہی لکھا جائے گا۔ مثلاً کھمبا، اچمبھا وغیرہ (اُردو املا حصہ ۱۷۹)۔
ہ  : اس کی تین قسمیں ہیں، ہائے ملفوظ، ہائے مخلوط، ہائے مختفی۔
ہائے ملفوظی یا اصلی : وہ ہے (ہ) جوخوب کھل کر آواز دے اور واضع تلفظ میں آئے۔ تحریر میں اس کی چار شکلیں ہیں جب لفظ کے شروع میں آئے گی۔ مثلا ۔ہاں، ہادی وغیرہ تو اس کی شکل اس طرح (   ) ہو گی۔ یعنی ب کا شوشہ اور اس کے نیچے لٹکن۔
جب یہ لفظ کے بیچ میں آئے گی۔ مثلاً، بہت، بہو، بہن وغیرہ تو اس کی شکل کہنی دار ہو گی (    ) او ر جب یہ آخر میں آئے گی اور ا س سے پہلے ایسا حرف ہو گا جو اس سے جُڑا ہو اہو تو اس کی صورت ہائے مختفی کی طرح ہوتی ہے مگر یہاں ضرور اس کے نیچے شوشہ ڈالا جاتا ہے۔ جیسے جگہ، کہ، مُنہ وغیرہ۔
اور جب لفظ کے آخر میں مفرد صورت میں استعمال ہوتی ہے تو اس کی شکل اپنی اصل شکل (ہ) کی طرح ہوتی ہے۔ مثلاً راہ، چاہ، غبارہ وغیرہ۔
ہائے مختفی : ہائے مختفی ایک طرح کی علامت ہے جس کا کام لفظ کے آخر میں حرف مقابل کی حرکت کو ظاہر کرنا ہے۔ عربی اور فارسی کا کام لفظ کے آخر میں حرف ماقبل کی حرکت کو ظاہر کرنا ہے۔ عربی اور فارسی الفاظ میں اس کا بہت زیادہ استعمال ہے۔ جیسے ، غنچہ، درجہ، کشتہ وغیرہ البتہ دیسی الفاظ میں اب اس کو الف سے لکھنے کی تجویز پیش کی جاتی ہے جیسے بھروسا، اڈا ، دھوکا، گھونسلا، بنجارا وغیرہ شہروں ، ملکوں اور جگہوں کو بھی اُسی طرح لکھنے کی تجاویز پیش کی گئیں ہیں جس طرح وہ رائج ہیں۔ مثلاً، کلکتہ، پٹنہ، انبالہ، امروہہ، افریقہ، امریکہ وغیرہ۔
ہائے مخلوط : اسے ہائے دو چشمی (ھ) بھی کہتے ہیں۔ یہ دوسرے حروف سے مل کر آواز دیتی ہے۔ انہیں مرکب حروفِ تہجی بھی کہا جا تا ہے۔ ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ کے نزدیک یہ محض ایک علامت  ہے، حرف نہیں۔ (آئے اُردو سیکھیں صفحہ ۵۳) ’املا نامہ‘ میں رشید حسن خان صاحب نے ان کی تعداد سولہ (۱۶) بتائی ہیں۔(صفحہ ۳۲۳) ہائے مخلوط اور ہائے ملفوضی کو خلط ملط کرنے سے ایک طرح کی بے راہ روی پھیلی ہے۔ اس پر قابو پانے کے لئے انجمن ترقی کی کمیٹی اصلاح رسم الخط پر ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی سفارشات کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔
ہمزہ (ء): اُردو کے حروف ہجا میں سب سے بحثیں ہمزہ (ء) پر ہوتی ہیں۔ رشید حسن خان نے ہی ’’املانامہ‘‘  میں اس کی بحث پر (۹۸) صفحات سیاہ کیے ہیں۔ عربی میں الف ساکن یعنی اُس الف کو جو اعراب کا محل نہ ہو الف کہتے ہیں اور متحرک کو جو مثلِ اور سب حرفوں کے بغیر اعراب کے آواز نہیں دینا ہمزہ کہتے ہیں۔ عربی میں ہمزہ کی دو شکلیں ہیں۔ ۱۔  عین بلا دائرہ (ء) اور (۲) الف منحنی یعنی    (    ٔ  )۔ قواعد اُردو از پروفیسر فدا علی خان صاحب میں ہمزہ کی شکل پر ایک لطیفہ لکھا گیا ہے کہ ایک بادشاہ کو خالصہ نامی ایک لڑکی سے سخت محبت تھی۔ ایک دفعہ ابو نواس جو بادشاہ کا درباری شاعر تھا خلیفہ کے مدح میں قصیدہ لے کر پہنچا مگر بادشاہ اس وقت اختلاط میں مشغول تھا اور شاعر کی طرف کوئی خاص دھیان نہ دیا۔ شاعر کو یہ ناگوار گذار اور وہاں سے نکلتے وقت کمرہ کے دروازے پر یہ شعر لکھا ؎
لقد ضاع شعری علی با بکم
کما ضاع عقد علی خالصہ
(ترجمہ) آپ کے دردولت پر میرا شعر ضائع ہوا۔ اُسی طرح جس طرح آپ خالصہ پر ضائع ہوئے۔ 
خلیفہ کے ملازموں میں سے کسی کی اس پر نظر پڑ گئی اور جھٹ چغلی کھائی۔ بارگاہ خلافت سے شاعر کی طلبی ہوئی۔ وہ تاڑ گیا اور جب باب عالی پر پہنچا تو دونوں مصرعوں میں ضاع کے عین کے دائرے کو مٹا کر داخل ہوا۔ بادشاہ نے غصے سے پوچھا کہ دروازے پر کیاشعر لکھ گئے ہوتو شاعر نے کہا ؎
لقد ضا ء شعری علیٰ بابکم
کما ضاء عقد علی خالصہ
(ترجمہ)  آپ کے در دولت پر میرا شعر یوں چمکا۔ جس طرح آپ خالصہ پر چمکے۔ 
ماہرین اُردو لسانیات میں سے چند نے اسے حرف میں شمار کیا ہے اور چند نے صرف علامت۔ جبکہ بعض جگہ یہ بطور حرف استعمال ہوتا ہے اور بعض جگہ بطور علامت ۔ مثلاً۔ آئینہ، سائل، بائبل، مسئلہ وغیرہ الفاظ میں یہ حرف استعمال ہوا ہے اور جلوہ ٔ، نغمۂ وغیرہ الفاظ میں یہ بطور علامت استعمال ہوا ہے۔ تفصیلات جاننے کے لئے اُرود کی اصلاحِ رسم الخط کی کمیٹی کے سفارشات اور دوسرے کُتبِ اُردو لسانیات کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ 
بنائو بگاڑ کے لحاظ سے حروف کی دو قسمیں بتائی گئی ہیں۔ حروف علت اور حروف صحیح۔ حروفِ علت وہ حروف کہلاتے ہیں ۔ جو دوسرے حروف کو ملا کر آواز قائم کرنے کے لئے آتے ہیں جوبغیر ان حروف کے آپس میں مل کر آواز پیدا نہیں کر سکتا وہ حروف صحیح کہلاتے ہیں۔ (قواعد اُردو، مولوی عبدالحق صفحہ ۲۳)۔
فدا علی خان صاحب حروف علت اور صحیح کی تعریف یوں کرتے ہیں :-
’’ اُردو کے حروف تہجی سوائے تین چار کے ہمیشہ اچھے ہٹے کٹے رہتے ہیں۔ نہ کبھی لڑکھڑائیں نہ ٹھوکر کھائیں، نہ گریں نہ پڑیں برابر جوں کے توںحی و قائم رہتے ہیں ان کو حروف صحیح کہتے ہیں۔ صرف تین چار حروف برابر لتاڑاور اکھاڑ پچھاڑ میں رہتے ہیں۔ کہیں گرے، کہیں اُٹھے، کہیں ڈولے ، کہیں اچھلے، کہیں مرے، کہیں جئے، ہمیشہ تناسخ میں پڑے جُونیں بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی گہنگاروں کی روحوں کی طرح نروان کے درجہ تک نہیں پہنچتے۔ ان کو حروفِ علت کہتے ہیں۔ (قواعد اُردو صفحہ ۶۱)
عربوں کے نزدیک حروف علت تین ہیں (ا۔و۔ی) ۔عبرانیوں نے ہمزہ کو بھی حروف علت میں شمار کیا ہے۔ فدا علی کے نزدیک ہائے ہوز بھی حروف علت میں شمار ہونے کے لائق و مستحق ہے۔
اُردو کے حروف علت دو قسم کے ہیں ایک محض علامات (اعراب) دوسرے اصل حروف (یعنی ا۔و۔ی) اعرابی علامات بھی دراصل اپنی حروف کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس طرح اُردو میں مُصوتوں ( حروفِ علت و حرکات) کی مکمل تعداد دس ہیں۔ تین مصوتی اعراب، تین آوازیں ’’واو‘‘ کی، تین آوازیں ’’ے‘‘ کی اور ’’الف‘‘۔
مصوتی اعراب : زبر (   َ  ) زبر کے معنی اوپر کے ہیں چونکہ یہ علامت حروف کے اوپر ہوتی ہے اس لئے اسے زبر کہتے ہیں۔
عربی میں اس کو فتح کہتے ہیں۔فتح کے معنی کھولنے کے ہیں۔ یعنی آواز کھل کر نکلتی ہے۔ اور جس حرف پر یہ حرکت ہواس کو مفتوح کہتے ہیں۔ اگر زبر کی آواز بڑھا دیا جائے تو یہ الف کی آوازدیتی ہے۔ عربی میں اس کو فتح اشباعی اور اُردو میں کھڑی زبر کہتے ہیں۔
۲۔ زیر  (   ِ  ) زیر کے معنی نیچے کے ہیں۔ چونکہ یہ حرکت حرف کے نیچے لگائی جاتی ہے ا س لئے اسے زیر کہتے ہیں۔ عربی میں اسے کسرہ کہتے ہیں۔ جس کے معنی توڑنے کے ہیں۔ جس حرف کے نیچے یہ نشانی ہو اُسے مکسور  کہتے ہیں۔ اگر زیر کی آواز لمبی کرنی مقصود ہو تو اس کی شکل (ا) ہو جاتی ہے۔ اس کو عربی میں کسر اشباعی اور اُردو میں کھڑی زیر کہتے ہیں۔
۳۔ پیش (   ُ  ) :  پیش کے معنی سامنے یا آگے کے ہیں۔ عربی میں اس کو ضُمہ کہتے ہیں اور جس حرف پر یہ حرکت ہو اُس کو مضموم کہتے ہیں۔ عربی میں ضُمہ کے معنی ملانے کے ہیں۔ اگر پیش کی آواز کو لمبا کرنا مقصود ہو تو اس کی علامت (  ٗ  ) ہو جاتی ہے۔ اس کو عربی میں ضم اثباعی کہتے ہیں اور اُردو میں اُلٹا پیش۔ (اس کے پہلے والے حرف پر ہمیشہ پیش ہوتی ہے)۔ اس واو پر اُلٹا پیش (  ٗ  ) لکھا جاتاہے۔ مثلاً۔ دوٗر، چوٗر، پھوٗل، دھوٗل وغیرہ۔
واو کی تین آوازیں 
۱۔ وائو معروف:  (وٗ) یہ وہ واو ہوتا ہے۔ جو پوری اور بھری ہوئی آواز دیتا ہے۔
۲۔ واو مجہول (و) : اس کی آواز ہلکی اور کھلی ہوتی ہے۔ یہ ساکن ہوتا ہے اور اس سے پہلے والے حرف پر بھی حرکت نہیں ہوتی (اس کی کوئی علامت نہیں ہوتی)  مثلاً : مول، چور، بول وغیرہ۔
۳۔ وائو ماقبل مفتوح : (   َ  و  ) وہ واو جس کے پہلے والے حرف پر زیر ہوتی ہے جیسے (دَود، طَور، جَور وغیرہ)۔
ے کی تین آوازیں
ا۔ یائے معروف :  (ي) یہ وہ ’’ے‘‘ ہے جو کھل کر آواز دیتی ہے۔ یہ ہمیشہ زیر کے بعد آتی ہے۔ یائے معروف گول (ی) لکھی جاتی ہے۔ یائے مجہول سے امتیاز کرنے کے لئے اس کے نیچے زیر ڈالی جاتی ہے۔ مثلاً (دیٖن، تیٖر،میٖل وغیرہ)
۲۔ یائے مجہول :  وہ ’’ ے‘‘جو کھل کر آواز دے۔ اس سے پہلے ہمیشہ غیر متحرک حرف آتا ہے۔ یائے مجہول لمبی اور پڑی ہوئی صورت (ے) میں لکھی جاتی ہے۔ اس کی کوئی علامت نہیں مثلا دین، دیر، میرا وغیرہ۔
۳۔ یائے ماقبل مفتوح : (يٖ) اس ’’ے‘‘ سے پہلے حرف پر ’زبر ‘  ہوتی ہے۔ جیسے۔ بَین، دَیر، پَیر وغیرہ۔
گوپی چند نارنگ نے ’’املا نامہ‘‘ میں زیر، زبر اور پیش کو چھوٹے یا خفی مصوتوں اور واو معروف اور ہائے معروف کو طویل مصوتوں کا نام دیا ہے۔ (صفحہ نمبر ۹۹)
ماقبل مفتوح آوازوں کو واو لین اوریائے لین بھی کہتے ہیں۔
یائے مجہول اور واو مجہول کی آوازعربی میں نہیں آتی اس لئے عربوں نے اس کا نام مجہول یا عجمی رکھا۔ مجہول نا معلوم کو کہتے ہیں۔ اُردو میں اس ’’ے‘ اور ’و‘ کو دوسرا نام دینا چاہئے کیونکہ اُردو میں ان کی آوازیں معروف ہیں۔
………………………
فون نمبر9622706839 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لورن میں آسمانی بجلی گرنے سے 10بھیڑیں ہلاک
پیر پنچال
بغیر اجازت انشورنس کٹوتی و صارفین کیساتھ مبینہ غیر اخلاقی رویہ بدھل میں جموں و کشمیر بینک برانچ ہیڈ کے خلاف لوگوں کاشدیداحتجاج
پیر پنچال
انڈر 17کھیل مقابلوں میں شاندار کارکردگی | ہائرسیکنڈری اسکول منڈی نے کامیاب کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی
پیر پنچال
نوشہرہ سب ڈویژن میں پانی کی شدید قلت،لوگ محکمہ کیخلاف سراپا احتجاج شیر مکڑی کے لوگوں نے ایگزیکٹیو انجینئر کے سامنے شکایت درج کروائی
پیر پنچال

Related

کالممضامین

سیدالسّادات حضرت میرسید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 2, 2025
کالممضامین

شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کا عرسِ مبارک | الہامی نگرانی اور احتساب کی ایک روحانی یاد دہانی عرس امیر کبیرؒ

June 2, 2025
کالممضامین

شام میں ایک نئی صبح ندائے حق

June 1, 2025
کالممضامین

تمباکو نوشی مضرِ صحت ،آگہی کے ساتھ قانونی کاروائی کی ضرورت سالانہ ایک کروڑافراد لقمۂ اجل اوربے شمار مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں

June 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?