اردو کی حفاظت، اُس کے فروغ اور اس کی اشاعت کے سلسلے میں جو سنگین کو تاہی بلکہ مجرمانہ غفلت ہم میں سے تقریباِِ ہر طبقے سے یقینی طور پر سرزد ہورہی ہے اُس کی ایک ناقابل انکار ہماری یہ ورش بھی ہے کہ جہاں ہم خود اردو کے استعمال اور اُس کو اپنانے میں مکمل طور پر مختار و مجاز ہیں۔ وہاں بھی ہم اردو سے اعراض و احتراز کی نہ ٹوٹنے والی رسی سے اپنے آپ کو باندھ کر رکھتے ہیں اس کی ایک المناک مثال ہمارے سائن بورڈ ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے ، تجارتی فورم، ادبی مراکز، طبّی سہولیات مہیا کرنے والے سینٹراور عام دکاندار سائن بورڈ ضرور لگاتے ہیں مگر اکثریت بلکہ تقریباََ ننانوے فیصد بورڑ اردو کے بجائے انگریزی میں ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے بازاروں کی ہر دُکان پر ہمارے کام ، تعلیمی، طبی،تجاری مراکز اور دفاتر میں یقینا یہی محسوس ہوگا کہ اُردو رواں دواںہے۔ غرض کہ تعلیمی ادارے کے گیٹ پر اردو سائن بورڈ آویزاں ہوں تو کیا منظر ہوگا۔۔۔۔، ہر کلاس روم کے دروازے پر، ہردکان کے فرنٹ پر اور سڑکوں میں نصب ہونے والے مقامات محلوں اور علاقوں کے نام ظاہر کرنے والے سنگ میل پر اگر خوشخط اردو میں نام لکھے جائیں تو اردو کے مرجھائے ہوئے شاہ بلوط پر کچھ نہ کچھ ہریالی ضرور آجائے گی۔
ہماری غفلت، بے حسی اور تعمیری فکر و احساس کی قلت کی بنا پر یہ خدشہ ہے کہ اس طرح کی اپیل کتنے ہی درد اور اصرار سے کی جائے مگر وہ صدا بصحرا ہی ثابت ہوسکتی ہے۔ مگر پھر بھی کسی فقیر کا کام صدا لگانا ہے۔ اس لئے بڑی دردمندی، بہت دلسوزی اور نہایت لجاجت سے یہ استدعا ہے کہ اردو کے فروغ کے لئے ایک یہ کام ضرور بالضرور کیا جائے کہ ہر دکاندار جب بورڈ لکھوائے تو خوبصورت رسم خط کے ساتھ اردو میں لکھوائے۔ بے شک انگریزی میں بھی پہلی یا دوسری سطر لکھوانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
جموں کشمیر بینک تو یہاں ہی کے لوگوں کا ایک کامیاب اِدارہ ہے۔ اس کے ملازمین افسران سے لے کر نچلی سطح کے ملازمین سبھی کم و بیش اُردو خواندہ ہیں اور خریدار بھی اس سے مختلف نہیں۔ اس لئے بنک کی ہر شاخ پر جو سائن بورڑ لگائے جاتے ہیں اُن پر انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی لکھا جائے، اور اس کے لئے یہ بات بطور استدلال کے کافی ہے کہ ریاستی زبان اگر اردو رہے تو کسی کو اعتراض کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
اسی طرح تمام تعلیمی ادارے، چاہے وہ پرائیوٹ سکول ہوں ، کوچنگ سنٹر ہوں یا صبح و شام کے مکاتب ہوں یا دینی مدارس ہوں، اردو میں لکھے گئے بڑے سائن بورڑ اور جگہ جگہ اردو میں پر کشش رسم الخط میں لکھی گئی تختیاں آویزاں کریں تو احیاء کی یہ کوشش مثبت نتائج کی حامل ہوگی۔ اس لئے یقینا اردو کی اشاعت کا ایک ماحول بنے گا۔ اسی طرح ٹریڈ سے وابستہ ادارے، فیڈیشن اور ہر جگہ کا بیوپار منڈل ایک سرکیولر جاری کریں کہ تمام دکاندار اردو میں سائن بورڑ لگائیں۔ اگر اس مفیدو
مو ٔثر اور نتیجہ خیز تجویز پر عمل پا یا گیا، چاہے محدود سطح پر ہی سہی، تو اس کے اثرات و ثمرات ضرور روشنی کی ایک کرن بن سکیں گے۔
اردو کے صحیح املاء، درشت انشاء اور فصیح جملوں کے جاننے کے لئے آج ذیل کا جدول دوسری قسط کے طور پر پیش خدمت ہے۔
اس سے پہلی قسط پر بے شمال قارئین کے تاثرات اور استفادہ کرنے کے احساسات سے مزید حوصلہ اور ہمت پیدا ہوئی۔ اس لئے یہ سلسلہ جاری رکھنے کا اصرار بھی ہوا اور اس بنا پر ارادہ بھی ہے۔
غلط جملے
صحیح جملے
اُس نے سر خم تسلیم کیا
اُس نے سر تسلیم خم کیا
بے فضول باتیں کرنا وقت کا ضائع کرنا ہے
فضول باتیں کرنا وقت ضائع کرنا ہے
ہم سب بخیر و عافیت سے ہیں
ہم سب بخیر و عافیت ہیں
در حقیقت میں وہ بیمار ہے
درحقیقت وہ بیمار ہے
آج میں نے سکول جانا ہے
آج مجھے سکول جانا ہے
اُس نے میری خیر خیرت پوچھی
اُس نے میری خیر وعافیت پوچھی
اُس کی روح عنصری قفس سے پرواز کر گئی
اُس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی
رات میں دروازے کو بند کرنا چاہئے
رات کو دروازہ بند کرنا چاہئے
اُف موسم کتنا پُر کیف ہے
آہا موسم کتنا پُر کیف ہے
تم میرے بر خلاف زبان مت کھولو
تم میرے خلاف زبان مت کھولو
ماہ رمضان کا مہینہ عبادت کا مہینہ ہے
ماہ رمضان عبادت کا مہینہ ہے
میں ان دیکھے مکان کے بارے میں کیا کہوں
میں بن دیکھے مکان کے بارے میں کیا کہوں
وہ برلب سڑک کے کنارے رو رہا تھا
وہ برلب سڑک رو رہا تھا
اپنے والدین کو میرا سلام بولنا
اپنے والدین سے میرا سلام کہنا
آپ تشریف لائو