سید مصطفیٰ احمد
حال ہی میںیہاں کی گورنمنٹ کی طرف سے ایک کمیٹی اس مقصد سے تشکیل دی گئی ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں جماعت اول سے لے کر دسویں تک ہندی بولنے اور پڑھانے کے لئے ماحول سازگار کرے۔ یہ فیصلہ اچانک اُس وقت ہوا، جب اردو دان گہری نیند میں محو تھے۔ اُردو کے علاوہ جموں و کشمیر میں اور پانچ زبانوں سمیت سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ مگر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ جموں و کشمیر میں عموماً اور کشمیر میں خصوصاً اردو زبان بولنے، لکھنے اور سمجھنے والوں کی ہی اکثریت ہے۔ ہاں! ایک حقیقت برحق ہے کہ مختلف زبانوں کی جانکاری ، چلن اور استعمال کسی بھی ملک یا سماج کے لئے سودمند ہے۔ اس سے تہذیبی رنگارنگی میں اضافہ ہوتا ہے اور زندگی متنوع لگتی ہے۔جس کے باوصف جمود سے چھٹکارا مل جاتا ہے اور لوگوں کے ذہنی دریچے کھل جاتے ہیں۔ مگر مصیبتوں کی گھنٹیاں تب بجنی شروع ہوجاتی ہے جب ایک زبان کو نظر انداز کر کے اُس پر دوسری زبان کو فوقیت دی جاتی ہے۔
یہاں کی گورنمنٹ کا فیصلہ SCERT کے مطابق اب یہاں کے اسکولوں میں کلاس اول سے کلاس دسویں تک ہندی زبان کو پڑھایاجائے گا، جوکہ اردو جاننے والےلوگوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ گورنمنٹ کےاس فیصلے سے ظاہر ہے کہ اردو زبان پر ہی کاری ضرب لگ سکتی ہے۔ اس بات سے سب بخوبی واقف ہیں کہ اُردو یہاں پر زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ایک ناخواندہ بھی اس کو سمجھ پاتا ہے اور ایک کم پڑھا لکھا انسان بھی اُردو اخبار کو دیکھ کر ایک دو سرخیاں آن کی آن میں پڑھ لیتا ہے۔ کوئی دینی کتاب،جو اردو زبان میں ہو، تو اُسے ہر کوئی پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ 1885 میں ریاست جموں وکشمیرمہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔ جس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اُردو زبان کشمیری عوام کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پورے برصغیر میں اُردو زبان کا ایک الگ مقام ہےاورہر معاملات کے متعلق اردو کتب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ بچوں سے لے کر معمر حضرات تک بغیر کسی مذہب و نسل یا فرقےاُردو زبان میں لکھی گئی کتابوں کو پڑھنے اور بولنے کا شغف رکھتے ہیں۔ اس صورت حال اور اس کی افادیت کو ذہن میں رکھ کر جب ہم حکومتی فیصلے کو دیکھتے ہیں، تو اس سےشک و شبہ کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔ گورنمنٹ کا یہ باور کرانا کہ ہندی زبان کو لاگو کر کے دوسری زبانوں کے ساتھ نہ چھیڑنا، عقل سے بعید ہے۔ NEP 2020 کے اکیسویں باب میں واضح طور پر زبان کی اہمیت کو تفصیل سے زیر بحث لایا گیا ہے۔ زبان قوموں کی پہچان ہی نہیں بلکہ جان ہوتی ہے۔ اس روئے زمین پر رہنے کے لئے ایک پہچان درکار ہے اور یہ پہچان زبان کی وجہ سے ممکن ہے۔ زبان تاریخ کی بنیاد ہے اور تاریخ جینے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔زندگی کے حقائق اور تاریخی واقعات،تو ایک زبان کے اندر ہی محفوظ ہوتا ہے، چاہیے وہ ادب ہو یا پھر اس کے دوسرے اشکال۔
جموں و کشمیر میں اُردو زبان کا حال اس فیصلے سے پہلے ہی بے حال تھا۔ اُردو کا گرتا ہوا معیار ہر جگہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ سرکاری سطح پر بھی کوئی قابل تحسین کام نہیں ہوتا تھا۔ ہاں، رسمی طور پر کچھ مشاعرے ہوتے رہتے تھے ، رسالے نکلتے تھے یا نکلتے ہیں، اس کے علاوہ اس ضمن میں زیادہ پیش رفت نہیں ہورہی تھی۔ اپنوں نے توزیادہ تر اس سے اپنے پیٹ ہی پالے ہیں۔ بڑے بڑے منصوبہ سازوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز اردو داں افسران نے اپنے اقربا کو فائدہ پہنچانےکے لئےہر وہ کام کرنے سے گریز نہیں ،جس سے اُردو زبان کو ویرانیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی زبان اپنی موت آپ نہیں مرتی،بلکہ اس کو مار دیا جاتا ہے۔ اپنے اس کشمیر میں بھی اُردو کو مارنے والے ہم خود ہیں۔ شکم پرور لکھاریوں نے اس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اور رہی سہی کسر اب حکومت پوری کررہی ہے۔ ہم احسان فراموش قوم ہیں، جس زبان نے ہمارے سر پر تاج رکھا تھا، اس کو ہم نے لالچ، تعصب اور منافقت کے حوالے کر دیا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اُردو کو زندہ رہنے دیا جائے کیونکہ اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس کے دن گنے چنے ہی ہیں۔ اس گھر کو آگ لگ گئی ہے اپنے ہی چراغ سے۔
(حاجی باغ، سرینگر ،رابطہ۔70060 31540 )
[email protected]
اردو کا حال، بے حال
