’’۔۔۔۔ہر وہ ادب جس میں وحدانیت ‘کلیت پسندی ‘ادعائیت‘غیر فطری وابستگی یا عدم وابستگی اور
آمریت کے مقابلے میں تکثیریت ‘لا مرکزیت ‘آزاد تخلیقیت‘رنگانگی ‘بوقلمونی‘غیر یکسانیتاور مقامیت جسیے خصائص موجودہوں مابعدجدید ادب ہے۔۔۔۔‘‘
(پروفیسر قدوس جاوید)
درج بالا اقتباس میں مابعد جدید تھیوری کی جن اصطلاحات و موضوعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ ان کو سمجھنے اور برتنے کے لئے پیش نظر تصنیف’’اردو میں مابعد جدید تنقید‘‘ (مصنف۔ڈاکٹر الطاف انجم‘اسسٹنٹ پروفیسر۔ نظامت فاصلاتی تعلیم کشمیر یونیورسٹی)کے مشمٔولات بڑی حد تک کار آمد نظر آرہے ہیں‘کیونکہ اس میں اردو میں مستعمل تنقیدی نظریات و تصورات کی توضیح کے ساتھ ساتھ مابعد تنقیدکے اصول و ضوابط اور مناصب و مقاصد کے علاوہ اطلاقی امکانات و مسائل جیسے موضوعات پر معروضی انداز سے مفید روشنی ڈالی گئی ہے۔
ادب فہمی میں تنقیدی برتاؤ کی بڑی اہمیت ہے ‘کیونکہ باشعور ناقد فن پارے کے فکری ‘ موضوعاتی ‘نفسیاتی ‘لسانی ‘ تواریخی‘ثقافتی اور جمالیاتی وماحولیاتی، متنی وموضوعاتی پہلوؤںکی دانشورانہ توضیح اور تفہیم پیش کرتا ہے‘جس سے فن پارے کی قدر سنجی کی راہیں ہموار ہوجاتی ہیں۔تصنیف میںتنقید کے منصب و ماہیٔت پر اظہار خیال کرتے ہوئے تغیر پذیر سماجی و ثقافتی صورت حال میں تنقید کی اہمیت کو یوں اجاگر کیا ہے:
’’بدلتے ہوئے سماجی ‘سیاسی اور ثقافتی حالات میں نئے ادبی معیارات کی تشکیل و تعمیر میں تنقیدہی ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اگر تنقید نے اپنے اختیارات کو کم یا زیادہ عملایا تو دونوں صورتوں میں اس کے مناصب و مقاصد فوت ہو جائیں گے۔‘‘
(اردو میں مابعد جدید تنقید۔۔۔ص ۳۳)
اسی طرح نظری اور عملی تنقید پر فائز شرق وغرب کے مشہور ناقدین کے کام ونام پر بھی حسب مناسب روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ناقدین کی ذہنی زرخیزی و علمی بصیرت اور تجزیاتی کارگزاری کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ:
’’۔۔۔نظری نقاد کے لئے ادبی روایات واقدار پرمکمل نظر ہونا لازمی ہے ‘نیز معاصر ادبی رجحانات اور میلانات کے ساتھ ساتھ تنقیدی معیارات اور امتیازات کی روایات سے بھی گہری شناسائی ضروری ہے۔لیکن اس کے پہلو بہ پہلو اس کے اندر تجزیہ و تحلیل‘زرخیزی اور منطقی ذہن کا ہونا بھی ناگزیرہے ‘نیز تقابل وتطابق اور ترسیل و ابلاغ کے ہنر سے بھی متصف ہونا چاہئے ۔‘‘
(اردو میں مابعد جدید تنقید۔ص۳۵)
اس تصنیف میں کئی اہم تنقیدی نظریات و تصورات کا اجمالی جائزہ پیش ہوا ہے‘جن میں ہیتی تنقید‘مارکسی تنقید‘ساختیاتی و پس ساختیاتی تنقید‘نئی تاریخیت ‘قاری اساس تنقید‘تانیثی تنقید‘امتزاجی تنقید‘اکتشافی تنقید وغیرہ شامل ہیں۔اردو میں مابعد جدید تنقید کو متعارف کروانے کا سہرا پروفیسرگوپی چند نارنگ کے سر ہے ۔نارنگ صاحب کے بعد(میری معلومات کے مطابق)اس سلسلے کوٹھوس انداز سے آگے بڑھانے میں پروفیسر قدوس جاوید کی تنقیدی نگارشات کے علاوہ پروفیسر حامدی کاشمیری(چونکہ و ہ خود اکتشافی تنقیدکے نظریہ ساز ہیں)‘وہاب اشرفی ‘نظام صدیقی‘ضمیر علی بدایونی‘ اورڈاکٹرناصر عباس نیّر وغیرہ کی سنجیدہ کاوشیں بار آور ثابت ہوئیں۔
زیر نظر تصنیف میں مابعد جدید تنقید پر گفتگو کرنے سے پہلے مابعد جدیدیت کے تاریخی پس منظر کا مختصر جائزہ ‘جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی مماثلت و مغائرت کے علاوہ اس کے مفاہیم اور مبادیات پر بات کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ:
’’مابعد جدیدیت ‘ترقی پسندی کی طرح باضابطہ طور پر کوئی تحریک ہے اور نہ ہی جدیدیت کی طرح کوئی رجحان بلکہ یہ ایک ایسی ثقافتی صورت حال ہے جو بہ یک وقت مختلف ‘متنوع اور متضاد تصورات اور تفکرات کی متحمل ہے۔مابعد جدیدت کسی ایک نظریہ کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سارے تفکیری رویٔے عیاں اور نہاں ہیں جو سماج میں موجو دمختلف اذہان کی پیداوار ہیں اور جن کے پیدا ہونے کے اسباب کاتعلق براہ راست مقامی‘ قومی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی ‘سماجی ‘ثقافتی‘ معاشی اور سائنسی تبدیلیوں سے ہے۔‘‘
(اردو میںما بعد جدیدتنقید۔ص۱۷۳۔۱۷۲)
مابعد جدیدیت کے فکری و علمی مطالعہ کے تعلق سے آرنلڈ ٹو ائن بی (The Study in History )‘ چارلس جینکس(What is Post Modernism ) ‘جے۔ ایف ۔لیوٹارڈ‘فریڈرک جیمسن ‘ژان بودریلارد ‘پروفیسر گوپی چند نارنگ ‘وہاب اشرفی ‘ڈاکٹروزیرآغا‘ پروفیسر حامدی کاشمیری ‘پروفیسر جاوید قدوس‘ ڈاکٹرناصر عباس نیّر ‘ضمیر علی بدایونی وغیرہ ناقدین و مفکرین کے توضیحی و تشریحی خیالات و تاثرات سے استفادہ کرتے ہوئے مصنف نے مابعد جدید ادب کی نوعیت و ماۂیت اور اصطلاحات اور مابعد جدید تنقید کے تجزیاتی ‘تفہیمی و تعبیری لوازمات اور امکانات کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
۱۔ مابعد جدیدیت کسی بھی مہابیانہ یعنی فلسفیانہ روایت پر یقین نہیں رکھتی بلکہ چھوٹے بیانیہ کی حمایت کرتی ہے یعنی ضمنی اور مقامی روایات کو ترجیح دیتی ہے۔
۲۔ ادب میں مابعد جدید یت ‘تحریک نہیں ایک رویّہ ہے:
۱۔ تخلیقی آزادی کا‘ خودداری اور طبعی آمد کا
۲۔ اپنے ثقافتی تشخص پر اصرار کرنے کا
۳۔ معنی کو سکہ بند تعریفوں سے آزاد کرنے
۴۔ مسلمات کے بارے میں از سر نو غور کرنے اور سوال اٹھانے کا
۵۔ دی ہوئی ادبی تحریک کے جبر کو توڑنے کا ‘ادعایٔت(خواہ سیاسی ہو یا ادبی)کو رد کرنے کا
۶۔ زبان یا متن کی حقیقت عکس محض ہونے کا نہیں ‘بلکہ حقیقت کے خلق کرنے کا
۷۔ معنی کے معمولہ رخ کے ساتھ اس کے دبائے ہوئے یا چھپائے ہوئے رخ کو دکھانے کا
۹۔ قرأت کے تفاعل میں قاری کی کارکردگی کا مابعد جدیدیت کی فکری توضیحات اور اطلاقی امکانات کے تحفظات کا خاکہ کھینچتے ہوئے صاحب مقالہ لکھتے ہیں کہ :
’’مابعد جدیدیت کسی بھی آئیڈیالوجی کو حتمی یا آخری سچائی نہیں مانتی اور معنی کے’دوسرے پن‘ (the other)کی تعبیر پر اور اس تعبیر میں قاری کی شرکت پر اصرار کرتی ہے۔‘‘
مابعد جدیدیت یہ مانتی ہے کہ ہر تخلیق کار کو اپنے انفرادی نقطہ نظر اور تخلیقی مزاج کے مطابق راست ‘سیدھے اور استعاراتی یا علامتی کسی بھی اسلوب میں اظہار خیال کی پوری آزادی ہونی چاہئے۔
مابعد جدیدیت’’زبان‘‘کو مرکز و محور مان کر قاری اور قرأت کے حوالے سے زبان کی بنیاد پر ہی’’متن‘‘کے وحدانی اور کلیت پسندانہ رویٔے کی جگہ تکثیری اور بوقلمونیٔ معانی کی تشکیل پر زور دیتی ہے۔
مجموعی طور پر یہ تصنیف مابعد جدید تھیوری کی تواریخی‘ثقافتی اور ادبی صورت حال پر فیض بخش مطالعہ پیش کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے‘ جو نہ صرف شائقین علم و ادب بلکہ جامعاتی محققین کے لئے بھی فائیدہ مند ثابت ہوسکتی ہے‘کیونکہ ابھی تک بیشترلوگ مابعد جدید کے مکالمے کو صحیح تناظر میں سمجھ بھی نہیں پائے ہیںکہ ڈاکٹر الطاف انجم نے اس موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھ ڈالا جو کہ ایک قابل تحسین کام ہے۔ اس کتاب کو پروفیسر قدوس جاوید ‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیّراور ڈاکٹر محی الدّین زورؔکشمیری نے اپنے مفید تاثرات سے نوازا ہے۔باقی تصنیف کے موضوع کو ایک طرف رکھ کر اگر مابعد جدیدیت کے فکری مباحث اورعملی امکانات کو موضوع بحث بنایا جائے تو چندمفید پہلوؤں کو چھوڑکر کئی مفروضات کو علمی و منطقی بنیاد پر رد بھی کیا جاسکتا ہے۔بہرحال یہاں پر صرف پیش نظر کتاب کے موضوعات کا تعارفی مطالعہ زیر نظر ہے اس لئے بحث طلب امورات کو چھیڑنا مناسب نہیں رہے گا۔
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر193221
mob'9906834877