ایوب رضا انصاری
پچھلی دہائی میں مغربی بنگال کے ادبی افق پر جہاں ڈھیر ساری ادبی نگارشات منظرِ عام پر آرہی تھیں، اسی درمیان بغیر شور شرابے کے شعر و ادب کا ایک خادم ادبی دروازے پر ہلکے پھلکے انداز میں دستک دے رہا تھا۔ پھر یہ دستک بتدریج زور پکڑتی گئی۔ دستک کی اس آواز کا نام عظیم ؔ انصاری ہے۔
عظیمؔ انصاری کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ سید حسین اور رب النساء کے اس چشم و چراغ کی پیدائش گورکھپور میں ہوئی۔ انھوں نے جگتدل چشمہ ٔ رحمت ہائر سکنڈری اسکول سے ہائر سکنڈری، رشی بنکم چندر کالج، نئی ہٹی سے گریجویشن اور کلکتہ یونیورسٹی سے ایم۔اے اور بی۔ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ طالب علمی کے دور سے ہی ان کو ادب کی دلچسپی مختلف اصناف سے گہری تھی۔ پھر جب سنِ بلوغ کو پہنچے تو ان کے اندر کا شاعر و ادیب سر ابھارنے لگا۔جب تسلسل کے ساتھ لکھنے پڑھنے کی باری آئی تو سنجیدگی اور پابندی سے لکھنے لگے۔اور آج کی تاریخ میں ان کی شاعری کی گونج، ترجمے کی بازگشت، تحقیق و تنقید کی آواز نہ صرف مغربی بنگال بلکہ اس کے باہر بھی سنی جانے لگی ہے۔ موجودہ ادبی منظرنامے کے مدنظر میری ہی نظر میں نہیں بلکہ ادبی حلقے میں بھی عظیم ؔ انصاری ایک معتبر شاعر، کامیاب مبصر اور اعلیٰ درجے کے مترجم اور نثر نگار ہیں۔
عظیم ؔ انصاری کی ادب سے دلچسپی صرف تفنن طبع نہیں بلکہ ایک جنون (obsession) ہے۔ وہ نام و نمود کی پرواہ کیے بغیر خامشی سے ادب کی خدمت کررہے ہیں نیز ادبی سرمائے کو اپنی تخلیقات سے مالامال بھی کررہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ان کی تین کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں جو ان کی فعالیت کا پتہ دے رہی ہیں۔’’ دو گھنٹے کی محبت‘‘ موصوف کی پہلی کتاب ہے جو بنگلہ افسانوں کا اردو ترجمہ ہے۔دوسری کتاب ’’مدتوں بعد‘‘ غزلوں کا مجموعہ ہے۔ پیش ِ نظر تیسری کتاب ’’مٹھی میں دنیا‘‘ بھی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں تقریباً 120 غزلیں ہیں۔
دراز قد، سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، مسکراتا چہرہ اور ذہین آنکھیں عظیم ؔ انصاری کی شناخت ہیں۔ وہ ایک دردمند اور حساس دل کے مالک ہیں۔ اردو شعر و ادب سے وابستہ
قارئین اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ کسی بھی علاقائی گروہ بندی اور معاصرانہ چشمک اور رقابتوں سے پاک ہیں۔ وہ ان تمام سطحی چیزوں سے پے نیاز گیسوئے ادب کو سنوارنے میں میں سرگرم عمل ہیں۔ مغربی بنگال کے مستند ناقد کلیم حاذق عظیمؔ انصاری کے متعلق یوں رقمطراز ہیں: ‘’’ ان کے مجموعے کے مطالعے سے از خود احساس ہوتا ہے کہ شاعری سے بھی ان کا تعلق رسمی اور روایتی نہیں ہے۔ ‘‘‘
بلاشبہ عظیم ؔ انصاری ادب کے ایک سنجیدہ قلم کار و فن کار ہیں اور دلجمعی کے ساتھ لکھنے پڑھنے کے قائل ہیں۔ ان کی شاعری میں سادگی و سلاست ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ کسی بھی تخلیق سے ایک شاعر یا ادیب کی شخصیت جھلکتی ہے۔ شاعری احساسِ جمال کا نام ہے۔ ایک سچے فنکار اور تخلیق کار کے احساسات و جذبات کبھی جامد نہیں ہوتے۔ عظیم ؔ انصاری کے یہاں بھی احساسات و جذبات جامد نہیں ہیں۔ جہاں تک میں نے ذاتی طور پر عظیم ؔ انصاری کا مشاہدہ کیا ہے وہ حسنِ اخلاق کے پیکر ہیں اور سادہ زندگی گزارنے کے قائل ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری میں سنجیدگی، گہرائی اور سادگی پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار نہایت سلیس زبان میں ہوتے ہیں اور گنجلک الفاظ سے پاک ہوتے ہیں۔ قارئین کے لیے ترسیل کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آتا۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں تنوع ہے۔ عشق و رومانیت، زندگی کا فلسفہ، زمانے کی بے وفائی، اپنوں سے شکوہ، زندگی کی بے ثباتی، رشتے کی ناقدری اور رنج و غم ان کی شاعری کے خاص موضوعات ہیں۔ عظیم انصاری کا ہی ایک شعر دیکھیں:
رنج و خوشی کے میل سے بنتی ہے زندگی
ان کے بغیر زندگی پھر زندگی کہاں
مذکورہ شعر میں شاعر نے رنج کو بھی زندگی کا حصہ بنایا ہے۔ واقعی اگر زندگی سے رنج و ملال نکل جائے تو پھر زندگی بے معنی اور بے عمل بن جاتی ہے۔ خوشی اور غم لازم و ملزوم ہیں۔ عظیم ؔ انصاری گمنامی کی زندگی کے قائل نہیں، وہ ایک ایسی زندگی کے متمنی ہیں جو حرارت سے بھرپور ہو۔ ان کے لیے زندگی ایک مِشن ہے۔ تب ہی تو وہ یوں کہتے ہیں:
جیتے جی ویسے مرتے ہیں لاکھوں مگر
مر کے جینا جہاں میں ہنر ایک ہے
عظیم ؔ انصاری کی نظر دنیا کے ٹوٹتے بکھرتے رشتوں پر ہے۔ رشتوں میں اب پہلے جیسا خلوص باقی نہیں رہا۔ ہر کوئی ایک غرض کے تحت ملتا ہے۔ غیر تو غیر اپنے بھی پرا ئے ہونے لگے ہیں۔ آج انسان خود غرضی اور مکر و فریب کی زندگی گزار رہا ہے۔ عظیم انصاری کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں:
دل کے آنگن میں دیوار اٹھنے لگی
کس زباں سے کہوں میں کہ گھر ایک ہے
عظیم ؔ انصاری کو یقین ہے کہ ادب سماج کو بہتر بنانے کا آلہ کار ہوسکتا ہے۔ اس لیے موصوف یوں فرماتے ہیں ؎
چہرے کالے سہی پھر بھی یہ بھلے لگتے ہیں
دل کسی طور سے کالے نہیں اچھے لگتے
عظیم ؔ انصاری کی شاعری میں بلا کی سادگی و روانی ہے۔ کوئی بھی ایسا شعر نہیں جو ترسیل میں دقت پیدا کرے۔ وہ عشق میں درد، کسک اور زخم کے قائل ہیں۔ واقعی جب تک درد نہ ہو عشق میں مزہ نہیں ملتا۔ دیکھیں ان کا نداز بیاں ؎
دن گزر جاتا ہے زخموں کو رفو کرتے عظیمؔ
شب کو جب درد جواں ہو تو غزل کہتا ہوں
عظیم ؔ انصاری غزل کے مزاج داں ہیں۔ وہ چھوٹی اور بڑی بحر دونوں میں غزلیں کہتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں فکر کی تازگی بھی ہے اور رچاؤ بھی۔ اسلوب متاثر کن اور دلکش ہے۔ ان کی شاعری میں کہیں بھی ابہام نہیں ہے۔ تشبیہات، استعارے اور تلمیحات شاعری کے زیور ہوا کرتے ہیں۔ معمولی خیالات کو بھی ان زیوروں سے آراستہ کر کے غیر معمولی بنایا جاسکتا ہے۔عظیم انصاری شاعری کے ان رموز سے خوب واقف ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر:
ہجر میں درد کا مہتاب ادھورا نکلا
کیسی تعبیر کہ جب خواب ادھورا نکلا
عظیم ؔ انصاری کے یہاں موضوعات کی کشادگی ہے۔ان کی شاعری ان کے سکھ دکھ، ان کی جلوت و خلوت، ان کے سود و زیاں اور ان کے مزاج اور ماحول کا مظہر ہے۔ انھوں نے خود کو کسی اِزم سے نہیں جوڑا بس جو احساسات ذہن میں آتے ہیں انھیں من و عن بیان کردیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں خوف و تذبذب ہے تو اعتماد و حوصلہ کے ساتھ صبر و استقامت بھی ہے۔ ان کی شاعری بھلے ہی روایتی ہو لیکن پیش کرنے کا سلیقہ روایتی نہیں ہے۔ چھوٹی بحر کی شاعری کرنا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے۔ موصوف اس پل سے گزرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
نہیں تھی وہ گرمی تعلق میں لیکن
لہو آشنائی کا ٹھنڈا نہیں تھا
بہرحال کلام پیش کرنے کا انداز اگر نادر ہو تو پامال مضمون بھی متاثر کن ہو جاتا ہے اور خیال اگر نیا ہو تو شاعری رنگین و جدیدبن جاتی ہے۔ ایک اچھا شاعر اپنے نازک احساس اور لطیف وجدان کو زبان و بیان گا ،حسین جامہ پہنا کر اسے دلکش، دل نشیں اور موثر بنانے کے لیے تخیل کو رنگین بناتا ہے۔ خوبصورت زبان و بیان قلمکار کے وجدان کو اجاگر کرتا ہے اور قاری کے جمالیاتی حس کو متاثر کرتا ہے۔ عظیم ؔ انصاری کے یہاں کوئی ایک خاص رنگ نہیں بلکہ قوس قزح کی طرح سات رنگ ہیں۔ وہ عشق، اخلاقیات، سیاست، معاشی محرومی، اخلاقی اقدار کی پامالی اور سیاسی انتشار پر اشعار کہتے ہیں۔ دراصل جو زندگی ہم جی رہے ہیں، اس زندگی کے ارد گرد ہی یہ اشعار ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیںکہ عظیم ؔ انصاری میں کامیاب شاعر ہونے کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
اہل چراغ ہوتے ہیں غیرت سے آب آب
جب تیرگی سے آنکھ چراتی ہے روشنی
نیند آنکھوں کو بھی آجائے گی روتے روتے
میر کے جتنے ہیں اشعار سرہانے رکھ دے
عظیم ؔ انصاری کے دوسرے شعری مجموعے ’’مٹھی میں دنیا ‘‘ کی اشاعت پر خاکسار انھیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہے اور ان کے ہی زیر نظر شعر سے اپنی گفتگو کا اختتام کرتا ہے:
سنا تھا کہ یہ میرے دل سے بڑی ہے
جو دیکھا تو مٹھی میں دنیا پڑی ہے
رابطہ: 9903126404
[email protected]