ار دوبان میں مذہبی فکرو احساس اور جذبات و خیالات کے اظہار کی ایک واضح صورت جو ابتداء سے نظر آتی ہے اس کا تعلق ان نثری تحریروں سے ہے جن کی وساطت سے صدیوں پر محیط علم دین کی روایت اور اسلامی تہذیبی اقدار کی مختلف طریقوں سے نشر و اشاعت کی جاتی رہی ہے۔ ان میں ہمارے علماء و مشائخ اور صوفیائے کرام کے قلم سے نکلی ہوئی تحریریں، ملفوظات اور تراجم سبھی کچھ شامل ہیں۔ چنانچہ شاہ رفیع الدینؒ اور شاہ عبدالقادرؒ نے قرآن حکیم کے تراجم سے اس کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کیا اور زبان و بیان کا ایک نیا اسلوب بھی پیدا کیا۔ شاہ اسمٰعیل شہیدؒ کی تصنیف ’تقویۃالایمان‘ اردو زبان اور دین و مذہب کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی اردو اور مذہب کا یہ رشتہ بدستور قائم رہا بلکہ کچھ اور استوار ہوا۔ اُردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مذہبی رہنماؤں اور پیشوأں کی خدمات کو کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اگر تاریخِ ادب اردو پر ایک محققانہ نظر دُوڑائی جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اس کی ابتداء میں ہی بزرگانِ دین اور اولیائے کا ملین نے ایسے اور اتنے کارنامے انجام دیے جو آگے چل کر اُردزبان و ادب کی ترقی اور توقیر کا باعث بنے ۔ میراں جی شمس العشاق ، بندہ نواز گیسو درازؒ اور اِس طرح کے سینکڑوں بزرگوں نے اشاعت ِدین اسلام کی خاطر اُردو زبان کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُردو کی ترقی میں ابتدائی زمانہ میں ہی نابغہ روزگار ہستیاں سامنے آئیں اور اس زبان کو ترسیل و تشہیر کا ذریعہ بنا کر اسے عوام و خواص دونوں میں مقبول اورمعروف بنایا۔مولانا شوکت علی تھانوی، مولانا ابولاکلام آزاد، مولانا الماجد دریابادی، مولانا ابوالاعلی مودودی، مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا اسلم جیراج پوری ، شاہ نورالحق تپاں،مولوی محمد ظہورالحق،مولوی غلا جیلانی رفعت،مولوی آدم مدراسی اور مولوی شاہ محمد اسماعیل دہلوی( رحہم اللہ) جیسی بیسیوں شخصیات نے اُردو زبان کے دامن کو اتنی اور ایسی وسعت بخشی کہ دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ زبان سے یہ ہم سری کا دعویٰ کر سکتی ہے ۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُردو میں مذہبی ادب کی اپنی ایک مضبوط اور مستحکم روایت ہے اور اس روایت کا تسلسل ہنوز جاری و ساری ہے ۔
اردو میں مذہبی ادب کی روایت کو وسعت دینے میں صوفیائے کرام اور علمائے دین نے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ علمائے دین نے ابتداء سے ہی اردو میں مذہبی روایت کو مضبوط کیاہے،جس میں مختلف مکتبہ ہائے فکر کے علماء نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔چاہے وہ علمائے اہلــ سنت والجماعت ہوں ،علمائے اہل حدیث ہوں ،دیوبندی علمائے کرام ہوں یا علمائے جماعت اسلامی،غرض ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما ئے کرام نے خون جگر سے اردو میں مذہبی ادب کی روایت کو پروان چڑھایا۔صوفیاء کرام اور علمائے دین کے علاوہ غیر مسلم ادیبوں نے بھی مذہبی ادب کے سر مایہ میں کافی اضافہ کیا۔
اردو زبان کے تشکیلی عہد میں صوفیاء کی جو لسانی خدمات رہی ہیں اس سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا ،اس ضمن میں جن صوفیاء کو سب سے زیادہ اعتبار حاصل ہے ان میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز:(متوفی1422ء)برہان الدین قطب عالم:(متوفی1453ء)سراج الدین ابوالبرکات شاہ عالم:(متوفی1475ء)شاہ صدرالدین:(متوفی1471ء)شاہ میراں جی شمس العشاق :(متوفی1496ء)شیخ بہاوالدین باجن:(متوفی1506ء)سید محمد جونپوری:(متوفی1504ء)قاضی محمود دریانی:(متوفی1534ء)شیخ عبدالقدوس گنگوہی:(متوفی1538ء)شاہ جیو گام دھنی:(متوفی1565ء)شیخ برہان الدین جانم: (متوفی1582ء)شیخ خوب محمد چستی:(متوفی1614ء) کبیر داس:(متوفی1518ء)گورو نانک:(متوفی1538ء)شاہ حسین: (متوفی1599ء)عبدالرحیم خان خاناں: (متوفی1626ء)سلطان باہو: (متوفی1690ء)بھلے شاہ:(متوفی1787ء)وارث علی شاہ: (متوفی1905ء)وغیرہ شامل ہیں ۔ان تمام اکابر صوفیاء نے اردو میں مذہبی ادب کی بے لوث خدمت کی۔بقول انورسدید:
’’یہ لوگ جب دنیا ،حب ِجاہ اور حب ِدولت سے آزاد تھے ۔دنیا پرستوں کو حق صداقت کی راہ دکھانا ان کا مقصد ِحیات تھا۔چناچہ درویشانِ ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیاجو مسلما ن بادشاہانِ ہند اپنی دولت وثروت کے باوجود پیدا نہ کرسکے۔‘‘
خواجہ معین الدین چستی:(متوفی1235ء)سلسلہ چشتیہ کے پیشوا خواجہ معین الدین چشتی پرتھوی پتھورا کے عہد میں تبلیغ حق کے لئے تشریف لائے۔ان کا کوئی معتبر قول زبان ِہندی میں دستیاب نہیں۔چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ جن صوفیاء نے ہم خیالی کے لئے ہم زبانی کا طریقہ اختیار کیاان میں خواجہ معین الدین چشتی کو اولیت حاصل ہے۔امیر خسروؒ:(متوفی1324ء)کو تیرھویں اور چودھویں صدی کے صوفیاء کرام میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے ہندوستانی تہذیب کے عرضی عناصر کو شاعری میں سمویااور اردو دانی کے ابتدائی دور میں اس زبان کو جذباتی گرمی ،داخلی توانائی اور نیا انداز ِاظہار عطا کیا۔دوہے ،کہہ مکرنیاں ،دوسخنے،پہیلیاں ،گیت ، کہاوت،ڈھکوسلے اور ریختہ وغیرہ اصناف میں خسرو کی تخلیقات بے حد معیاری ہیں۔ان کی کتاب ’’خالق باری‘‘ایک الگ نوعیت کی کتاب ہے۔
حضرت نور قطب عالم پنڈویؒ(متوفی1415ء)ہندی سے بھی واقف تھے اور عربی رسم الخط میں لکھتے بھی تھے۔ان کا ایک ہندی شعر جو ایک فارسی شعر کا ترجمہ ہے،یوں ہے:
رین سب آئی سویا سیج نلدھا تھا نوں
پیو نہ پوچھے پاتری مجھ سہاگن نوں
ڈاکٹر شہیداللہ نے لکھا ہے:
’’اس مسلمان بھاشا سے پوتھی ادب پیدا ہوا تھ‘‘ حاجی رومی(متوفی555ھ)سید شاہ مومن عارف اللہ(متوفی597ھ)بابا مظہر طبل عالم(متوفی662ھ)شاہ جلال الدین گنج رواں(متوفی644ھ)سید احمد اکبر جہاں قلندر(متوفی659ھ)شاہ علی پہلوان(متوفی672ھ)شاہ حسام الدین (680ھ)صوفی سرمست(متوفی 680ھ)بابا شرف الدین (متوفی 687ھ)بابا شہاب الدین (متوفی691ھ)بابا فخر الدین (متوفی694ھ)سید اعذالدین حسینی (متوفی 699ھ)وغیرہ صوفیا ء کے علاوہ اور بیسیوں صوفیاء کے نام ہمدست ہوتے ہیں جنھوں نے دکن کے مختلف حصوں میں سکونت کرلی تھی اور وہیں انتقال فرمایا۔
ہاشمی صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو،فرماتے ہیں:
’’ایک یہ امر خاص طور سے غور طلب ہے کہ جب مسلمانوں نے مدتوں دکن میں بو دو باش کی اور حکومت قائم کی ،تجارت کی،مذہب کی اشاعت کی تعلیم دی۔ان کا اٹھنا بیٹھنا یہاں کے ملکی اور دیسی باشندوں کے ساتھ ساتھ ،ہر وقت کام کاج،خریدوفروخت میں ان سے سابقہ رہتا تھا تو ظاہر ہے کہ ایک خاص زبان کا پیدا ہونا ضروری تھا،دونوں غیر قوموں کے لئے تبادلہ خیالات کا ذریعہ ہوتی۔اس لحاظ سے جو دعویٰ اردو کے دکن سے پیدا ہونے کا کیا جاتا ہے وہ بہت حدتک صحیح ہوسکتا ہے۔
شاہ غزنی(وفات 922ھ)کے اقوال جو ہندی آمیز اردو میں اب تک موجودہیں ۔ان کے علاوہ شاہ علی جیو گام دھنی(وفات 972ھ)کا پورا دیوان موسم بہ جواہر الاسرار ہندی زبان یعنی قدیم ہندی آمیز اردو میں اب بھی پایا جاتا ہے اور میاں خوب محمد چستی(وفات 1023ھ)کی کتاب خوب ترنگ قدیم گجراتی اردو میں ہے۔یہ حضرات اپنی زبان کو عربی ،عجمی آمیز گجراتی کہتے تھے،جس کے معنی قدیم گجراتی اردو کے ہیں۔اسی طرح شاہ وجیہہ الدین علوی(وفات998ء)اور ان کے بھتیجے سید شاہ ہاشم علوی(وفات 1059ھ)کے اقوال بھی اسی زبان میں ان کے ملفوظات میں پائے جاتے ہیں ۔
چونکہ مسلمانوں کی پہلی آمد سندھ اور ملتان کے علاقوں میں ہوئی،اس لئے نئی مشترک زبان (اردو)کا ہیولہ اسی علاقے میں تیار ہوا۔حسام الدین راشدی کے مطابق :’’یاد رہے کہ اردو ہندوستان کی وہ مشترکہ زبان ہے جو مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد اور حکومت اور تمدنی روابط کی بدولت اس طرح وجود میں آئی کہ اسلامی زبانوں کے ہزارہا الفاظ ہندی میں شامل ہوگئے اور اہلِ ہند ،ہندو ہوں یا مسلمان انہیں سمجھنے اور بولنے لگے۔وہ آگے چل کر لکھتے ہیں:جو حضرات سندھ کی اسلامی فتح اور بعد کی تاریخ سے واقف ہیں وہ مولاناسید سلیمان صاحب ندوی کے اس قول کو ماننے میں ذرا بھی تامل نہ کریں گے کہ ہندو مسلمانوں کی متحدہ زبان کا پہلا گہوارہ سندھ ہے‘‘۔
ریختہ کی طرز کی نظموں میں سب سے قدیم ریختہ شیخ فرید الدین گنج شکر (متوفی 664ھ)کی طرف منسوب ہے۔علاوہ بریں بعض اردو فقرے بھی ملتے ہیں ،ان کے بعد شیخ عثمان اور شیخ جنیدی اور منشی ولی رام کے ریختوں کی باری آتی ہے جو گیارہویں صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں ،بارہویں صدی ہجری کی متفرق نظموں میں زیادہ تر صوفیانہ نظمیں داخل ہیں ،جن میں سے اکثر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی شان میں ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان زیادہ تر خانقاہ نشینوں کی گود میں پلی ہے۔وجہ ظاہر ہے کہ ان بزرگوں کا تعلق زیادہ تر عوام سے تھا،دیسی اور پردیسی اس سے فیض کے طالب تھے۔لوگ دور دور سے اپنی مرادیں لے کر ان کے پاس آتے جاتے تھے،اس لئے ملکی زبان کا جاننا ،اس میں بات چیت کرنا ان کے لئے ضروری تھا،دوسرے صوفی پیشہ لوگ سیاح اور جہاں گرد ہوا کرتے ہیں اور اردو ان ایام میں ہندوستان کے گوشے گوشے میں بولی جاتی تھی،اس لئے سیاحوں ،صوفیوں اور سپاہیوں کے لئے اس زبان کا جاننا از بس ضروری تھا۔
خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ(متوفی1422ء)حضرت یوسف راجو قتال بخاری کے فرزند تھے ۔ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:’’خواجہ بندہ نواز کا حلقہ اثر بہت وسیع تھا۔انھوں نے رشدوہدایت کے لئے تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر کو بھی استعمال میں لایا۔دکنی زبان میں متعدد رسائل تالیف کئے۔ان کی کتاب’’ معراج العاشقین ‘‘ بہت معروف اور ممتاز ہے۔‘‘ حضرت خواجہ بندہ نواز جب اہل ِ ہند کو خود شناسی کا سبق دے رہے تھے تو بالواسطہ طور پر اردو کے مذہبی ادب کی گرانقدر خدمت بھی سر انجام دے رہے تھے۔ روایت ہے کہ شاہ میراں جی شمس العشاق ؒ(متوفی1494ء)کو رسولِ اکرم ﷺ کی طرف سے خواب میں ہندوستان آنے کا حکم ملا تھا۔ انھوں نے نظم و نثر میں کئی رسالے تالیف کئے ۔’’خوش نامہ‘‘، ’’خوش نظر‘‘’’،شہادالحقیقت ‘‘اور ’’ شرح مرغوب القلوب‘‘ ان کی چند معروف کتابیں ہیں ۔ڈاکٹر انور سدید ر قم طراز ہیں :
’’حضرت شمس العشاقؒ کے ادبی اثرات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔چناچہ بے جا پور زبان وادب کا ایک بڑا مرکز بن گیا اور اس سر زمین سے کئی بے نظیر شعراء پیدا ہوئے۔‘‘ شیخ برہان الدین جانم(متوفی1582ء) شمس العشاق میراں جی کے فرزند اور خلیفہ تھے ۔ انھوں نے تصوف اور سلوک کے موضوعات پر متعدد منظوم رسائل تصنیف کئے۔نثر کا رسالہ ’’کلمتہ الحقائق ‘‘مکالمے کی صورت میں ہے۔ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں :
’’جانم شیریں اور لطیف زبان میں شعر کہنے والے تھے،ان کا خطاب عوام کی طرف تھا۔اس لئے انھوں نے مشکل موضوعات کو بھی آبِ رواں جیسے اسلوب میں پیش کیا۔دوہا،خیال اور مثنوی ان کی محبوب اصناف تھیں۔‘‘
بھگت کبیر(متوفی1518ء)۔ اردو زبان کے اچھے شاعر تھے۔ان کی شاعری دل کو چھوتی ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کبیر کی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں :’’آج بھی ان کا کلام دلوں کو گرما دیتا ہے۔صداقت کی لپک ، خلوص کی آنچ اور عشق کی گرمی نے ان کی شاعری میں اثر آفرینی کا جادو جگایا ہے۔‘‘ نیز ’’بیجک‘‘ اور ’’بانی ‘‘ کبیر کے کلام کے مجموعے ہیں ۔ گورونانک(متوفی 1538ء)کی تخلیقی زبان پنجابی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی گورونانک کی اردودانی کے متعلق رقمطراز ہیں:’’گوروگرنتھ میں اردو زبان کی جو شکل و صورت ملتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گورونانک نے اپنی تبلیغی کے لئے اردو زبان کا سہارا بھی لیا ہے۔‘‘
رابطہ :بلہ پورہ شوپیان، پی۔ایچ۔ڈی۔اسکالر شعبہ اردو ۔۔۔کشمیر یونیورسٹی سرینگر
فون نمبر۔9797037639