منظرؔر خیامی
اردو ادب کی پھلواری میں فرایضِ فکرکی آب یاری اور اس کی ارتقائی منزلوں کی تعمیرات میں اصحابِ عقل و خرد اور وسیع الفہم و اہل ادراک کی جدوجہد و مسلسل علمی، قلمی محنت ہی کی مرہونِ منّت ہے ۔انھیں راقم خیرِ خامہ اورزیبِ قرطاس کہتا ہے ۔ان کے لیل و نہار عشقِ علم و ہنر کی ترویج وترقی کے لیے حروف و الفاظ کے لیے وقف ہیںبلکہ ان کا یہ قابلِ سراہنا مستقل وطیرہ ہے۔ایسے صاحبان کی تصنیفات، تالیفات اور مقالات میں سامانِ استفادہ کی کمی نہیں ہوتی ۔بشر طے کہ طبقہ ٔجدید کتب و نگارش سے شغف بھی رکھتا ہو ۔آج کل ہم اور آپ دیکھتے ہیں ۔ادب میں زبردستی دخل رسائی بھی بے کمالی کے ساتھ حصولِ شہرت کی دھمالی میں مبتلا ہے ۔کچھ نو آورد تو جبراً لائی ہوئی یا اتفاقاً آئی ہوئی شے کی طرح ہوتے ہیں ۔جو اس علم و ادب کی پھلواری کو بھی فتنہ و فساد اور جبری مسائل کی ایجاد کے لیے میدانِ کار زار کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔علم و ادب ان کا نہ مزاج ہے نہ ہی رجحان اور جب بھی ان سے ہم کلامی کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے ہم تو بس شوقیہ قلم چلاتے ہیں ۔جب کہ خالص شوقیہ کے تقاضے اور ہو سکتے ہیں ۔اس طرح کے جواب کے پیچھے مقصد کچھ اور ہو سکتاہے ۔مگر اس جواب کا بھی جواب یہ ہے کہ ہرکام ابتدا میں شوقیہ ہی ہوتا ہے،مگر شوقیہ شغل کے اپنے بھی اصول ہوتے ہیں ۔
جب کہ اوائل مشق میں انھیں اپنے قدیم وجدید یا ہم عصر مصنفین کی تصنیفات و تالیفات اور مقالات کے مطالعہ پہ وقت صرف کرنا چاہیے ۔نہ کہ دوسروں کی واردات میں اپنے تعصبانہ مفادات کی تلاش ۔افسوس یہ ہے کہ ایسے نوآورد ادب کے مفہوم سے ہی کما حقہ واقفیت حاصل نہیں کرتے،بلکہ نابلد ہی رہتے ہیں ۔لہٰذا کونے کھدرے سے اچھے خاصے سفیرِ علم و ہنر پہ سنگ باری کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔حالانکہ اس میدان میں سنگ وہ اُٹھاتے ہیں جو علم کے نادار اور عقل کے تنگ ہوتے ہیں ۔فن کاری اخلاص، خلوص، لحاظ، تعظیم و تکریم اور شعور سے شناسائی تک نہیں رکھتے، نہ ہی ان الفاظ کا عمیق پن جانتے ہیں ۔سطح پہ شناوری کے بھی خوگر نہیں ہوتے۔لہٰذا ایسے نام نہاد وطیرے والے اپنا محاسبہ بھی نہیں کرتے ۔انھیں تو ڈھٹائی سے مخالفت کرنا بھی نہیں آتا مگر خوامخواہ کمر بستہ نظر آتے ہیں ۔
مشق و مزاولت کی بجائے اس کی اُس کی کم زوری کی تلاش میں رہتے ہیں ۔گروہ بندی سے تانا شاہی کرنا شان سمجھتے ہیں ۔نہ مطالعہ کی لت، نہ ہی گھر میں چند کتابیں نہ ہی ایک کوئی لغت، ایسے میں دیکھا جائے تو ایسوں کا احساس بھی عجیب المیاتی قسم کا ہےجو خود ان کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔
لہٰذا آج کے رہنماوں کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوا ہے کہ یہ معمّار ہے یا کوئی عجیب سا استعارہ کہ جس میں حقیقت کا کہیں عکس نہ مجاز کی کوئی چھاپ ہے ۔نقل کا عالم بھی یہ ہے کہ گویا مصوری خالص تشابہ ہے ۔اگر بدلتے ایّام کے ساتھ یہی اصول رائج رہیں گے تو بھلا ادب پنپنے کی بجائے زوال پذیر ہوگا یا نہیں، یہ سوال سب کا ہے اور ہر ایک کے لیے ہے ۔ہمارا خیال یہ ہے جب تک ہرعلاقائی معتبر و قدرتی عطا کے جیالے اپنے اپنے حلقے اور علاقے میں کوئی ٹھوس تحریک نہیں چلائیں گے، مستقبل قریب میں زبان کا معیار پست اور ادب مزید بے ڈھب ہوگااور اس رویے سے سیدھا سیدھا نقصان اردو کا ہی ہوگا ۔یہ مستقبل کے معمار اگر ادب کی عمارت کی مہارت سے نو خیزی یا نو تعمیری کا ہنر نہیں جانیں گے ہر فصیل کم زور ہوگی اورنفرتوں کی بڑھتی آندھیوں کے مقابل اپنا وجود قایم نہیں رکھ پائے گی ۔بہتر یہ ہے کہ اپنے شہر، قصبات کی تنظیمیں و مقامی ادارے اس تعلق سے کا م کریں گے تو ہی زبان و ادب کو فایدہ ہوگا ۔