عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر// اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران یہاں حکومت کرنے والے ہر لیڈر نے ذاتی فوائد کے لئے عوام کے مفادات کا سودا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر نے اب تک جو کچھ بھی کھویا ہے، اسے راتوں رات واپس حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار الطاف بخاری نے اننت ناگ میں پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے 5 اگست 2019 کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، اس روز جو کچھ بھی ہوا، اس سے جموں و کشمیر کے عوام کی کمر دوہری ہوگئی۔ تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران اقتدار میں رہنے والے کشمیری لیڈران نہ صرف عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے بلکہ اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے کے لیے انہوں نے عوامی مفادات کا سودا کیا۔انہوں نے کہا، ہم نے 5 اگست 2019 کو ملک کے وزیر داخلہ کی طاقت کا مشاہدہ کیا، انہوں نے جموں و کشمیر سے اس کی خصوصی آئینی حیثیت اور ریاست کا درجہ چھین لیا، اور اسے دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے میں محض چند منٹ لگائے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک سیاسی شخصیت بھی کبھی وزیر داخلہ کی کرسی پر فائز رہی لیکن کیا انہوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دفعہ 370 اور 35 اے کو مستقل کرنے کیلئے کوئی اقدام کیا؟ انہیں کون روک سکتا تھا؟ اسی طرح، یہاں وزارت اعلی کے عہدے پر فائز رہنے والے سیاستدانوں نے بھی ہمیشہ اپنے مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دی۔ہم نے گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران ان سیاستدانوں کی وجہ سے جو کچھ کھویا ہے، وہ راتوں رات واپس نہیں آسکتا ہے۔ الطاف بخاری نے حکومت کو لتاڑتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کی ناقص کارکردگی دیکھ کر صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے۔
ایک بھاری مینڈیٹ کے باوجود یہ حکومت عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے سے بھی قاصر نظر آرہی ہے۔ حکمران جماعت اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں کو بھول چکی ہے۔ کہاں ہیں وہ دو لاکھ نوکریاں جنہیں فراہم کرنے کا عوام کو وعدہ کیا گیا تھا؟کنونشن کے بعد صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں بخاری نے کہا، جیلوں میں بند رہنماں کو انصاف فراہم کیا جانا چاہیے۔ شبیر احمد شاہ کو طبی امداد فراہم کی جانی چاہیے، کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں۔اسی طرح انجینئر رشید کو بھی انصاف فراہم کیا جائے، آخر اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ انہیں پانچ لاکھ لوگوں نے اپنا ووٹ دیا ہے۔محمد یاسین ملک کو بھی منصفانہ ٹرائل کا موقع دیا جائے، میں ان لیڈروں پر کوئی احسان کرنے کی بات نہیں کررہا ہوں، بلکہ ان کے لئے انصاف کی فراہمی بات کررہا ہوں۔ انہیں انصاف سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے۔جب ان سے عمر عبداللہ کے اس دعوے کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ حکومت سٹیٹ ہوڈ کے حصول کیلئے اپنی کرسی تک چھوڑنے کیلئے بھی تیار ہیں، سید محمد الطاف بخاری نیکہا، انہیں اپنی کرسی چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ سٹیٹ ہوڈ کے حصول کیلئے اپنی کرسی کی طاقت کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے جنرل سکریٹری رفیع احمد میر نے وزیر اعظم مودی کی طرف سے جموں و کشمیر کے عوام سے کئے گئے وعدوں کے پورا نہ ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا، وزیر اعظم نے جموں و کشمیر کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ انہیں خاندانی راج سے نجات دلائیں گے۔ انہوں نے دل کی دوریاں مٹانے کی بات بھی کہی تھی اور یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ جموں کشمیر کے نوجوانوں سے بات چیت کریں گے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔رفیع احمد میر نے منتخب حکومت کی ناقص کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، “میں یہ سمجھنے میں قاصر ہوں کہ یہ حکومت موثر طریقے سے کام کرنے اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ لیفٹیننٹ گورنر نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ صرف پولیس ان کے حد اختیارمیں ہے، جب کہ باقی تمام اختیارات عمر عبداللہ کی حکومت کے پاس ہیں، تو پھر یہ حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے میں کیوں ناکام ہو رہی ہے؟کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے ایڈیشنل جنرل سکریٹری ہلال احمد میر نے کہا کہ لوگوں نے اسمبلی انتخابات میں مختلف پارٹیوں کے منشور کی بنیاد پر ووٹ دیا لیکن انہیں پتا نہیں تھا کہ ان کے ساتھ جھوٹے وعدے کئے جارہے ہیں۔پارٹی کے چیف کوآرڈی نیٹر عبدالمجید پڈر نے پارٹی رہنمائوں اور سینئر کارکنوں پر زور دیا کہ وہ عوام کو اپنی پارٹی کے عوام دوست ایجنڈے اور پالیسیوں سے آگاہ کریں۔پارٹی کے صوبائی صدر محمد اشرف میر نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’عوامی رابطہ مہم میں سرعت لائیں اور زمینی سطح پر لوگوں سے جڑ جائیں۔ میں آپ سے پارٹی کو مضبوط کرنے کی گزارش کرتا ہوں۔ لوگوں کو یہ حقیقت بتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ایجنڈا اور پالیسیاں سچائی کی سیاست سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہمارے پاس جموں و کشمیر میں پائیدار امن، دیرپا خوشحالی اور مساوی ترقی کے لیے ایک وژن ہ