’’چلوبیٹا ۔۔۔۔۔۔ سکول جانے کی تیاری کرو‘‘۔
’’با با ۔۔۔۔۔۔ آج بارش ہے میں نہیں جائونگا‘‘۔
’’بارش ہے تو کیا ہوا، پڑھائی تو کرنی ہے ۔یہ لے با دام کھائوعقل آئے گی‘‘۔
’’ قدوس نے بادام کی گریاں اس کی اور بڑھاتے ہوئے پیار سے کہا‘‘ ۔
’’با با ۔۔۔۔۔۔ با دام کھانے سے عقل نہیں آتی ہے‘‘۔
’’ تو پھر کیسے آتی ہے ؟‘‘
’’دھوکہ کھانے سے ‘‘۔
’’اس نے بگڑے بچے کی طرح قدوس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شرارتی انداز میں کہا‘‘۔
’’عاشق ۔۔۔۔۔۔ آج کئی دنوں بعد سکول کھلنے والے ہیں ،زیادہ بک بک مت کرو دیر ہوجائے گی ‘‘۔
قدوس نے اس کے مُنھ سے یہ عجیب الفاظ سن کر جھنجھلاتے ہوئے قدرے سخت لہجے میں کہا۔
’’ با با ۔۔۔۔۔۔ اس میں میرا کیا قصور ہے ،بارش میں بھی تو ۔۔۔۔۔۔ اُف تجھ سے کچھ کہنا ہی بے کار ہے ‘‘۔
اس نے دانت چیرتے ہوئے کہا اور بادل نا خواستہ ہی تیار ہو کر کتابوں کا بھاری بستہ لئے برستی بارش میں سکول کے لئے چل نکلا۔
’’ اللہ جانے اس کی عادتیں کیوں بگڑ گئی۔۔۔۔۔۔؟‘‘
عاشق کے جانے کے بعد قدوس خود سے بڑ بڑایا اور ایک سرد آہ کھینچتے ہوئے گہری سوچوں میں ڈوب گیا۔ساتویں جماعت میں زیر تعلیم قدوس کا اکلوتا بیٹا عاشق شروع سے ہی انتہائی ذہین ، محنتی ، قابل اور فرمانبردار لڑکا تھا۔اپنے جیسے دوسرے بچوں کی طفلانہ سرگرمیوں سے الگ اور بیگانہ ہر وقت کتابوں سے چپکا رہتا تھا ۔دل وجان سے پڑھائی کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے کاموں میں بھی قدوس کا ہاتھ بٹاتا تھا۔وقت پر تیار ہو کر سکول کے لئے نکلتا تھا اور واپس آتے ہی پڑھائی میں مشغول ہوجاتا تھا ۔ہر سال اچھے نمبرحاصل کرکے اپنی جماعت میں اول آتا تھا ۔لیکن چھٹی جماعت میں اچانک اس کی قابلیت میں اتنی گراوٹ آئی کہ بڑی مشکل سے کامیابی ملی تھی ،جس کا قدوس کو بہت دکھ ہوا تھا کیوںکہ وہ خود غربت کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکا تھا او ر اپنے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم سے نوازنا چاہتا تھا ۔ غربت کے با وجود اس کے تعلیمی اخراجات کو ہر ممکن پورا کرنے کی کوشش کرتا تھا ،لیکن اب اچانک اس کے عادات و اطوار بگڑنے کے سبب سخت پریشان تھا ۔ساتویں میں داخلہ لینے کے ساتھ ہی عاشق کے روئے میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی تھی ۔ وہ ہر وقت کھویا کھویا سا رہتا تھا اور پڑھائی میں بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا تھا ۔عذابوں کی خوبصورت بستی میں حالات کے بے رحم تھپیڑوں کی مار کے چلتے بار بار کی بندشوں ،ہڑتالوں اور کرفیو کے سبب اگر چہ اس کو اچھی خاصی بے وقت کی چھٹیاں ملتی تھیں ،لیکن جس دن بارشیں ہوتی تھی اس دن بھی وہ سکول جانے سے بالکل ہی انکار کرتا تھا، جب کہ وہ کئی بار قدوس سے بستی میں قائیم نجی سکول میں داخلے کی فرمائیش کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہہ چکا تھا کہ وہ اس سکول میںپڑھنا نہیں چاہتا ہے ۔ ان کے آس پڑوس کے کئی بچے اگر چہ اسی نجی سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ، لیکن غربت کا ماراقدوس اس سکول کی فیس کی موٹی رقم ادا کرنے کی بالکل طاقت نہیں رکھتا تھا۔
’’پتہ نہیں کن بگڑے لڑکوں کی بری صحبتوں کا شکار ہو گیا ہے،ورنہ اس اسکول میں کمی ہی کس بات کی ہے‘‘ ۔
فیس کی بات یاد آتے ہی قدوس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی اور وہ بے چین ہو کر چلم میں تمباکو ڈال کر لمبے لمبے کش لینے لگا ۔بچپن میں قدوس بھی اسی سکول میں گیا تھا۔ان دنوں یہاں صرف پانچویں جماعت تک تعلیم دی جا تی تھی اور طلباء کے لئے ایک چھوٹی سی پرانی عمارت موجود تھی ،لیکن اب نہ صرف نئی عمارت تعمیر ہو چکی ہے بلکہ اسکول کا درجہ بڑکر اب دسویں جماعت تک ہوگیا ۔بچوں کو دوپہر کا کھانا بھی دیا جاتا ہے اورغریب بچوں کو مفت کتابیں اور وردیاں بھی دی جاتی ہیں۔اس نے یہ بھی سنا تھاتعلیم کو فروغ دینے کے سرکاری پروگرام ’تعلیم سب کے لئے ‘کے چلتے تعلیمی شعبے کو تمام سہولیات فراہم کرنا سرکار کی اولین ترجیحات میں شامل ہے تاکہ کوئی بھی نو نہال تعلیم کے نور سے محروم نہ رہے ۔قدوس غربت کے سبب اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکا تھا لیکن اس کے وہ ہم جماعتی، جو اس سکول سے نکل کر تعلیم جاری رکھ پائے تھے، اچھے اچھے عہدوں پر فائیز ہوئے تھے ۔ان دنوں اس علاقے میں کوئی نجی سکول بھی نہیں تھا اس لئے بستی کے سارے بچے اسی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرتے تھے ۔قدوس کو اچھی طرح سے یاد تھا کہ اُن دنوں کس طرح اساتذہ صاحبان طالب علموں کو اپنے بچے سمجھ کر محنت ،لگن اور محبت سے نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم سے بھی روشناس کراتے تھے ،جس کے سبب سارے بچے خوشی خوشی سکول جاتے تھے ۔ سوچوں کی بھول بھلیوں میں گم قدوس عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے بہت دیرتک دل ہی دل میں یہ راز جاننے کی کوشش کر تارہا کہ آخر تمام سہولیات میسر ہونے کے باوجود عاشق اس اسکول میں پڑھائی کرنے میں کیوں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے ،لیکن جب اس کو کوئی خاص وجہ نظر نہیں آئی تو اس نے خود سکول جا کر اصلیت جاننے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔۔۔ بعد دو پہر وہ خراماں خراماںسکول پہنچا اور باہر ہی موجود ایک ملازم سے عاشق کی بابت پوچھا۔
’’ اندر کسی کمرے میں ہوگا‘‘۔
اس نے سکولی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ صاحب ۔۔۔۔۔۔ ساتویں جماعت کا کمرہ کونسا ہے‘‘ ؟
’’آج سب بچے اکٹھے مل بیٹھ کے پڑھتے ہیں ‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘
’’کیوںکہ دس جماعتوں کے قریباً آٹھ سو لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے صرف چھ کمرے ہیں۔اب بارش میں یہاںتو نہیں بیٹھ سکتے‘‘۔
اس نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے سکول کے صحن، جہاں جا بجا غلاظت کے ڈھیر تھے اور کئی کتے ڈھیرا جمائے بیٹھے تھے ،کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔قدوس حیرت زدہ ہو کر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے سکول کے اندر داخل ہوا اور ایک ایک کرکے کمروں میں عاشق کو ڈھونڈنے لگا۔سارے کمرے طالب علموں سے کچھا کچھ بھرے ہوئے تھے اور اتنا شور و غوغا تھا کہ جیسے کوئی مچھلی بازار ۔۔۔۔۔عاشق بھی افسردگی کی حالت ایک کمرے کے کونے میں دہک کے بیٹھا قلم مُنھ میں دبائے نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا ۔وہاں موجود تین چار اساتذہ صاحبان اپنا اپنا سر پکڑے باری باری کلاسوں میں جا کر بچوں کو تعلیم کے نور سے آراستہ کرنے کی کوشش میں مصروف تھے لیکن شور شرابے کے سبب ان کی یہ کوششیں رائیگاں نظر آرہیں تھی ۔وہ سب اتنے مصروف اور پریشان تھے کہ قدوس کو ان پر ترس آیا ۔ کچھ دیر تک سنجیدگی سے صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کا دم گھٹنے لگا اور وہ سخت مایوس ہو کر ان سے کچھ بات کئے بغیر اورعاشق سے بھی ملے بغیر ہی واپس نکلا اور باہر موجود ملازم سے پوچھا ۔
’’ اتنے سارے بچوں کے لئے صرف پانچ کمرے ؟اور باقی ماسٹر صاحبان کہاں ہیں‘‘؟
’’یہاں صرف چھہ ہی ماسٹر صاحبان تعینات ہیں ،جن میں سے دو کو سرکارنے دوسرے کاموں کے لئے دوسرے محکموں میں بھیجا ہے‘‘ ۔
’’دوسرے کام۔۔۔۔۔۔؟
بابا زیر لب بڑ بڑاکر اس کا مُنھ تکنے لگا۔ملازم جلد ہی بابا کی پریشانی کو سمجھ کو گویا ہوا ۔
’’پریشان نہ ہوبھائی ، سنومیںسمجھاتا ہوں ‘‘۔
الیکشن کارڈ بنانا ۔۔۔ ووٹر لسٹ ترتیب دینا ۔۔۔مردم شماری۔۔۔انسانوں، چوپائیوں اور مرغ مرغیوںکو شمار کرنا وغیرہ ۔۔۔یہ سارے ضروری سرکاری کام ماسٹر صاحبان ہی انجام دیتے ہیں۔
ملازم کا جواب سن کر قدوس،جس کو اپنے خواب ریت کے گھروندوں کی طرح بکھرتے نظر آرہے تھے، کو ایک زور دار جھٹکا سا لگا اور وہ کچھ پل سوچنے کے بعد عالم یاس و اضطراب میںبوجھل قدموں سے وہاں سے نکلا ۔عاشق کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ اس کے دماغ میں گونج رہے تھے ۔
’’ بابا۔۔۔۔عقل بادام کھانے سے نہیں دھوکہ کھانے سے آتی ہے‘‘ ۔
رابطہ؛ اجس بانڈی پورہ (193502 ) کشمیر
ای میل؛ [email protected]
موبائل نمبر؛9906526432