دن کی روشنی رات کے اندھیرے میں ڈھل چکی تھی،شور و غل اب مکمل سکوت میں بدل چکا تھا۔طارق اپنے نیم روشن کمرے میں بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔بیڈ پر اُس کی دائیں جانب اُس کا چھ سالہ بیٹا فرقان لیٹا تھا، جو اب گہری نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔اُس کے ہاتھ میں شراب کی ایک بڑی بوتل تھی۔کمرے کی چھت کو گھورتے ہوئے وہ مسلسل شراب کے گھونٹ پی رہا تھا۔شائد وہ وقت کے دئے ہوئے زخموں سے پر شراب کا مرہم لگا رہا تھا۔اُس نے غنودگی کے عالم میں چھت سے نظریں ہٹا کر اپنے بیٹے کی جانب دیکھا،جو اب گہری نیند میں جاچکا تھا۔اُس نے بیٹے کے رخساروں پر نرمی سے اپنا ہاتھ پھیرا،ایک بار پھر فرقان کی کئی گھنٹے پہلے کہی بات اُس کے ذہن میں گونجنے لگی۔
طارق جب دفتر سے لوٹا تھا تو اُس کا چھ سالہ بیٹا فرقان الماری سے اُس کی ڈائری لے آیا اور اُس پر انگریزی میں لکھی ایک مختصر عبارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے والد سے پوچھنے لگا،’’پاپا!اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘۔طارق نے مسکراتے ہوئے ڈائری پر لکھی مختصر عبارت کی جانب دیکھا ،’We are shaped and fashioned by what we love(ہم اُسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں جس سے ہم محبت کرتے ہیں)۔ان انگریزی الفاظ نے نہ جانے اُس پر کیا اثر کردیا کہ یکدم اُس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی اور اُس کے ہاتھ خودبخود کانپنے لگیں۔وہ یادوں کے گہرے سمندر میں ڈوب کر کہیں دور چلا گیا،بہت دور۔۔۔۔۔۔۔
طارق ایک اعلیٰ درجے کے سرکاری عہدے پر فائز تھا۔وہ بچپن سے ہی کافی ذہین تھا۔اُس کا والد ایک بہت بڑا بزنس مین تھا، اس لئے طارق نے بچپن سے ہی عیش و عشرت کی زندگی گزاری تھی۔اس وجہ سے وہ جیسے فیشن پرستی کے قالب میں ڈھل چکا تھا۔
۔قمیص کے بٹن کھلے رکھنا،گلے میں ایک بڑی مالا پہننا اور دونوں ہاتھوں کی کلائیوں پر بریس لیٹ باندھنا، بچپن سے ہی اُس کا معمول تھا۔ یونیورسٹی پہنچتے پہنچتے اُس کے دل، جو اب تک اسکے قابو میں تھا، نے کروٹ بدلی اور وہ اپنی ہی ایک ہم جماعت لڑکی، جو نہایت ہی دیندار تھی، کے عشق میں مبتلا ہوگیا۔وہ لڑکی اگرچہ سرتاپا مکمل پردہ کرتی تھی لیکن اُس کے باوجود بھی نہ جانے اُس کے دل کو کیا ہوا اور وہ اُس کے عشق میں مبتلا ہوگیا۔کبھی کبھار وہ خود اس بات پر حیران ہوتا تھا کہ کیسے ایک انسان بنا دیکھے ہی کسی سے محبت کر سکتا ہے لیکن گزرتے وقت نے اُسے سمجھا دیا کہ محبت کس کھیت کی مولی کا نام ہے۔اُس لڑکی کی جانب دیکھتے ہی اُس کا دل بے قابو ہوجاتا تھااور اُس کی آنکھوں پر جیسے دھند چھا جاتی تھی۔تقریباً ایک ماہ تک اضطرابی حالت میں مبتلا رہنے کے بعد اُس نے آخرکار اُس لڑکی کے سامنے اپنے دل کی بات کہہ ہی ڈالی۔یونیورسٹی کے طلباء لنچ ٹائم پرجونہی اپنے کلاسوں سے باہر آئے تو اُس نے بالکونی میں اُس لڑکی کو آواز دی،’’میڈم!وہ۔۔۔مجھ۔۔۔مجھے۔۔۔آپ ۔۔۔سے ایک بات کہنی تھی‘‘۔
’’جی کہیے‘‘۔لڑکی نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔
’’میڈم!وہ۔۔۔وہ۔۔۔دراصل۔۔۔میں۔۔۔آپ سے محب۔۔۔محبت ۔۔۔کرتا ہوں‘‘۔
پردے کے اندرسے جھانکتی ہوئی لڑکی کی آنکھوں میں جیسے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ کئی منٹوں تک بالکونی میں مکمل خاموشی چھائی رہی پھر اُس لڑکی نے نظریں جھکاتے ہوئے قدرے توقف سے اُس کی بات کا جواب دیا،’’دیکھئے پہلی بات تویہ ہے کہ میرا نام میڈم نہیں بلکہ عائشہ ہے اور دوسری بات یہ کہ میں ہر گز اُس لڑکے سے محبت کی مرتکب نہیں ہوسکتی جس کا حلیہ مسلمانوں جیسانہ ہو۔اور اگر آپ کا چہرہ مومنوں جیسا بھی ہوتا تو تب بھی میں محبت اور عشق جیسی فضولیات میں اپنا وقت برباد نہیں کرتی‘‘۔
وہ گھر پہنچا تو عائشہ کی باتیں گھنٹی کی طرح اُس کے سر کے اندر بج رہی تھیں۔اُس نے ٹی وی آن کیا اور بلاوجہ چینلیں بدلنے لگا،جبھی اُس کی نظر ایک اسلامی چینل پر پڑی۔اسکرین پر مولانا صاحب خطاب فرما رہے تھے اور اسکرین کے نیچے والے حصے پہ یہ حدیث پاک لکھی تھی’ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ اُس کے نیک اعمال کی وجہ سے محبت رکھتا ہے اگرچہ وہ خود اس جیسا عمل نہیں کرتا۔اس پر آپؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک شخص کو اُسی کے ساتھ اُٹھایا جائے گا جس سے دُنیا میں محبت کرتا تھا(ابوداؤد)‘۔آج مدتوں بعد اُس کی سمجھ میں یہ بات آچکی تھی کہ وہ دراصل عائشہ سے اُس کے نیک اعمال کی وجہ سے ہی محبت کرتا تھا۔اگلے دن اُس نے عائشہ کو یہ حدیث سُنائی اور کہنے لگا،’’عائشہ میں دراصل تمہاری شکل و صورت سے نہیں بلکہ تمہارے کردار اور اعمال سے محبت کرتا ہوں۔کیا تم پھر بھی فضول سمجھ کر اس محبت کو ٹھکرا دو گی‘‘۔عائشہ اب لاجواب ہوچکی تھی۔۔۔اُسے بالآخر طارق کی محبت کو قبول کرنا ہی پڑا۔
عائشہ کی صحبت نے آہستہ آہستہ طارق کو مذہبی رنگ میں رنگ دیا۔اُس کا اسٹائل تبدیل ہوتا گیا۔وہ اب باقاعدہ ٹوپی پہنتا تھا،چہرے پر فرنچ کٹ کی جگہ اب لمبی داڑھی تھی۔پھر ایک دن جب وہ یونیورسٹی کے صحن میں بیٹھے تھے تو عائشہ طارق سے کہنے لگی،’’طارق !تم نے انپے اندر جو یہ تبدیلی لائی ہے نا،پتا ہے اس کی اصل وجہ کیا ہے؟‘‘۔طارق نے نفی میں سر ہلایا تو عائشہ نے اُس کے ہاتھ سے ڈائری لے لی اور اُس پر یہ عبارت لکھ دی کہ،’We are shaped and fashioned by what we love(ہم اُسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں جس سے ہم محبت کرتے ہیں)‘۔یہ عبارت لکھنے کے بعد اُس نے ڈائری طارق کی جانب بڑھائی اور کہنے لگی،’’یہ ہے تمہاری تبدیلی کی اصل وجہ‘‘۔طارق کی سمجھ میں اب یہ بات آچکی تھی کہ انسان واقعی اُسی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ اُس نے مسکراتے ہوئے عائشہ کے ہاتھ سے ڈائری لے لی اور وہاں سے چل دیا۔۔۔۔۔۔۔
طارق نے عائشہ سے شادی کرلی تو اُس کے گھر میں جیسے زلزلہ آگیا،وجہ صرف یہ تھی کہ عائشہ کے اجداد نیچی ذات سے تعلق رکھتے تھے اور طارق کے والدین ’نیچی‘ذات کی لڑکی کو بہو بنانا اپنی شان کے خلاف تصور کرتے تھے۔عائشہ کو کئی ماہ تک طارق کے والدین کے غیض وغضب اور طعن تشنیع کا شکار ہونا پڑا۔کبھی وہ اُس سے کہتے تھے کہ تم طوائفوں کے ٹولے سے ہو،جس سے چاہو پیسوں کے عوض بھاگ سکتی ہو۔کبھی وہ اُس پر طارق کی دولت ہڑپنے کے طعنے کستے تھے اور اس پر بھی جب اُن کا جی نہیں بھرتا تھاتو وہ اُس پر ہاتھ اُٹھاتے تھے۔کئی ماہ تک وہ یہ سب کچھ سہتی رہی اور بالآخر جب اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اُسے مجبوراً طارق سے طلاق لینا پڑی۔طلاق کے بعد اُس نے ایک بیٹے کو جنم دیا،جسے کورٹ نے بعد میں طارق کے سپرد کردیا۔طلاق کے بعد طارق کے والدین نے اُس پر دوسری شادی کرنے کیلئے زبردست دباؤ ڈالا لیکن اُس نے صریحاً انکار کردیا۔جس شراب کا نام طارق نے عمر بھر اپنی زبان تک پر نہیں لایا وہی آج اُس کا اوڑھنا بچھونا بن چکی تھی۔طارق کی حالت دیکھ کر آج اُس کے والدین کواپنی حرکت پر زبردست پچھتاوا ہوتا ہے لیکن اب کیا ہی کیا جا سکتا ہے۔اُس کے سینے میں موجود دل ٹوٹ چکا ہے، ایسا کہ کافی کوشش کے باوجود دوبارہ جُڑ نہ سکا۔پتا نہیں کب وہ اس جنونی حالت سے باہر آئے۔۔۔یہ بھی ہوسکتا ہے وہ عمر بھر ایسا ہی رہے۔۔۔جنونی۔۔۔دُنیا و مافیا سے بے نیاز۔اُس کی ادھوری زندگی کو صرف عائشہ ہی مکمل کرسکتی ہے۔۔۔لیکن، کیا اُس کو عائشہ دوبارہ مل سکتی ہے۔ یہ سوچتے ہی اُس کے جذبات پر جیسے ہیجان برپا ہوا، اُس نے شراب کی بوتل کا ڈھکن کھول کر غٹاغت حلق پر انڈیل کر بوتل خالی کردی۔
رابطہ؛برپورہ پلوامہ کشمیر
Twitter@SahilAhmadlone2