ظاہر بانہالی
انسان اشرف المخلوقات ہے اور ساتھ ساتھ میں اللہ نے اِسے ایسی قدرت دی ہے کہ یہ ایسے کام بھی کرتا ہے جو مشکِل اورنا ممکن ہوتے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ ناممکن کا لفظ انسان کی ڈکشنری میں نہیں ہے۔بانہال کی تواریخ کا ایک اہم دن وہ تھا، جب پیر پنچال کے عظیم پہاڑ کو چیر کر ہمارے انجینئروں نے ریلوے کے لیے ٹنل تعمیر کر کے ساری دُنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا ۔ ۲۶ جون ۲۰۱۳ء کو ہندوستان کے وزیر اعظم نے اس کا باضابطہ افتتاح کیا تھا ۔
مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے وقت میں بانہال کاٹ روڈ بنا کر ایک چھوٹی سی سُرنگ بنائی گئی اور پہاڑ کا راستہ بنایا گیا تھا۔ یہ سڑک ۱۸۸۷ء میں شروع ہو کر ۱۹۲۱ء میں تیار ہو گئی تھی۔ پہلے پہل یہ سڑک صرف مہاراجہ کی تحویل میں تھی اور کوئی بھی اس سڑک پر گاڑی چلا نہیں سکتا تھا۔ پھر مہاراجہ نے اسکو عام لوگوں کے لیے وقف کر دیا اور اس پر گاڑیاں رواں دواں ہو گئیں۔ ۱۹۴۷ ء میں ملک کی سیاست بدل گئی اور مہاراجہ کو جموں و کشمیر ریاست چھوڑ دینا پڑی۔ عوامی حکومت وجود میں آ گئی اور باقی چیزوں کے علاوہ سڑکوں پر بھی دھیان دیا گیا۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر کی سڑک کے لیے ایک اور ٹنل بنائی گئی، جو جواہر لال ٹنل کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ۱۹۵۴ ء میں شروع ہو کر یہ ٹنل ۱۹۵۶ ءمیں مکمل کر دی گئی ۔ یہ ٹنل سی بارسِل(C. barsel ) اورالفڑڈ کنز(Alferd Kunz) کی نگرانی میں تیار کی گئی ۔ اس ٹنل کو ڈرل اور بلاسٹ کی ٹیکنیک سے تیا کیا گیا ۔ یہ ٹنل بننےسے لوگوں میں ایک آسائش پیدا ہوئی اور کشمیر کا راستہ نزدیک ہو گیا ۔
بھارت سرکار نے ۱۹۷۵ء میں جموں کو ملک کے باقی حصوں سے ریل کے ذریعہ ملا دیا جو ۱۹۴۷ ءمیں بٹوارہ کی وجہ سے منقطع ہو گئی تھی۔جموں کا ریلوے سٹیشن پہلے ۱۸۹۷ ء میں انگریزوں نے بنایا تھا۔ سیالکوٹ سے جموں ۴۳ کلو میٹر ریل لاین نیرو گیج(Narrow Gague )لاین تھی، جو شمال مغربی سٹیٹ ریلوے وزیر آباد سے پنجاب کے راستے سیال کوٹ جنکشن سے ہوتی ہوئی جموں توی آتی تھی۔ یہ ریلوے لاین مہاراجہ گلاب سنگھ کے زمانے میں۱۸۹۰ ءمیں تیار کی گئی تھی ۔ یہ ریلوے لاین بکرم چوک جموں تک آتی تھی۔۱۹۴۷ ءمیں تقسیم ملک کے وقت میں یہ ریل بند کر دی گئی۔ پٹھانکوٹ سے ایک نئی ریلوے لاین بچھا دی گئی۔مادھو پور تک یہ ریلوے ٹریک ۱۹۵۵ ء میں بنایا گیا ۔ مادھو پور سے کٹھوعہ تک ۱۹۶۵ ء میں تعمیر کی گئی اور جموں تک کا باقی حصہ ۱۹۷۵ ءمیں تیا رہو گیا اور ریل جموں تک آگئی۔ جموں کے ریلوے سٹیشن پر پھر سے رونق ہوگئی۔ یہ ریلوے سٹیشن سطح سمندر سے 343فٹ کی بلندی پر قائم ہے۔ ۲۰۰۲ء میں سرکار نے ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے کا پروگرام بنایا ۔ جموں سے بارہ مولہ تک لاین بچھانے کے لیے ایک قومی پروجیکٹ بنایا گیا۔ یہ پروجیکٹ 345کلو میٹر لمبا پروجیکٹ ہے ۔ اس پروجیکٹ پر زور و شور سے کام شروع کیا گیا ۔ عظیم پیر پنچال کے پہاڑ کو کاٹنے کے علاوہ اس پرو جیکٹ پر بہت سے پُل، بہت سی سرنگیں اور پہاڑ سامنے کھڑے چیلنج کے لیے تیار تھے ۔ مگر ہمارے جواں مرد انجینئروں اور کار کنوں نے اس چیلنج کو قبول کیا ۔ یہ پروجیکٹ جموں سے ادھم پور، کٹرہ، سنگلدان ، بانہال ،قاضی گنڈ، اننت ناگ ،سرینگر اور پھر بارہ مولہ تک جارہا ہے۔ جموں سے ادھم پور تک 53کلو میٹر کا راستہ یعنی ٹریک ۲۰۰۵ء میں تیا کیا گیا تھا ۔ ۲۰۰۸ء میں اننت ناگ سے سرینگر تک کا 66کلو میٹر کا ٹریک تعمیر کیا گیا ۔ ۱۱ ؍اکتوبر کو اس کو قوم کے نام وقف کیا گیا اور من موہن سنگھ نے وزیراعظم کی حیثیت سے اس کا افتتاح کیا تھا ۔
۲۰۰۹ ءمیں سرینگر سے بارہ مولہ تک کا راستہ بھی مکمل کیا گیا۔اس طرح بارہ مولہ سے سرینگر کا راستہ آمد و رفت کے قابل بنا دیا گیا۔ یہ کُل پروجیکٹ 119کلو میٹر پر محیط ہے ۔تعمیراتی کام کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے اس پروجیکٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ (۱)ادھم پور سے کٹرہ تک (۲) کٹرہ سے قاضی گنڈ تک(۳)قاضی گند سے بارہمولہ تک۔ اس تمام پروجیکٹ پر 911چھوٹے بڑے پُل، جبکہ ٹنلوں کی لمبائی113.90کلومیٹر ہے۔ اس پروجیکٹ کا سب سے دشوار گذار پُل چناب پر بنایا گیا ہے جو دنیا کا ریلوے میں سب سے اونچا پُل ہے۔ یہ پُل 359میٹر اونچا ہے اور 1.315میٹر لمبا ہے۔ اس ریلوے پروجیکٹ پر سب سے لمبا ٹنل بانہال ریلوے ٹنل ہے جو 11.25کلو میٹر لمبا ہے۔ اس ٹنل کی اونچائی 7.93میٹر اور چوڑائی 8.5میٹر ہے ۔ اس ٹنل کے ملحق ایک اور ٹنل بنایا گیا ہے جو ضرورت کے وقت کام میں لایا جاسکتاہے ۔ اس ٹنل میں آکسیجن لانے کے لیے ایک جدید سسٹم رکھا گیا ہے۔ جسکو سٹیٹ آف آرٹ مانیٹرنگ آیر سسٹم کہا جاتا ہے ۔ اس ٹنل کو سات سال کا وقت تیار ہونے میں لگا۔ اس ٹنل میں بیک وقت 15انجینئر1300ورکر اور ہزاروں کی تعداد میں باقی سٹاف کام میں لگا رہا ۔ اس ٹنل میں 1300 کروڑ روپے کا خرچ آیا ہے۔
ادھم پور سے بارہ مولہ تک اس پروجیکٹ پر پندرہ سٹیشن ہیں۔ اس پروجیکٹ پر تین بڑی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، جن میں ناردرن ریلوے ، کو کان ریلوے کارپوریشن لمٹیڈاور انڈین ریلوے کارپوریشن لمٹیڈ شامل ہیں۔ دیو ہیکل پہاڑوں اور مشکل ترین دریائوں کو پار کر کے اس ریلوے لاین کو بچھایا جا رہا ہے۔ اس پروجیکٹ کے لیے مزید 262کلو میٹر رابطہ سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں ۔ بانہال ٹنل کو کھودنے کے لیے نیو آسٹریلن ٹنلنگ میتھڈN A T M اپنایا گیا ہے۔ اس ریلوے لاین کی پٹری براڈ گیج ہے۔
اس تمام پروجیکٹ کا باقی حصہ بانہال سے کھڑی، کھڑی سے سنگلدان جو بالترتیب ۳۳ اور۱۳ ؍کلو میڑ لمبی ریل پٹری ہے، کو تیار کیا گیا ہے۔اس ٹریک پر سولہ چھوٹے بڑے پُل ،جسمیں گیارہ بڑے پُل اور چار چھوٹے پُل ایک روڈ کے اوپر پُل بنایا گیا ہے۔ اس ٹریک کا نوے فیصدی حصہ صرف ٹنلوں پر محیط ہے جن میں گیارہ ٹنلوں کے نیچے 43.37کلو میٹر جسمیں ملک کا سب سے بڑا ٹرانسپورٹیشن ٹنل T 50 ہے، جسکی لمبائی 12.77کلو میٹر ہے جو سمبڑ اور کھڑی کے درمیاں واقع ہے ۔ ٹنلوں میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگے ہوئے ہیں ۔ انکے علاوہ ان میں ونٹی لیشن کے لیے اچھا انتظام اور فایئر پروف بنایا گیا ہے ۔اس پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے کمشنر ریلویز نے کہا کہ ہمارے انجینئروں نے رات دن کام کرکے اس پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوے اس قومی پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہچانے میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہ ہمارے ورکروں کا ہی کام ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق یہ ٹریک 15,863کروڑ روپیہ کی لاگت سے معرض وجود میں آیا ۔ سنگلدان کا ریلوے سٹیشن بہت ہی خوبصورت بنایا گیا ہے۔ اس سٹیشن کا SNGDN کوڈ نام دیا گیا ہے اور اس سٹیشن کے چار ٹریک بنائے گئے ہیں ۔ ریلوے کمشنر دنیش چند دیش وال نے ۱۶ ؍فروری کو باقی آفیسروں کے ساتھ بانہال سے سنگلدان تک کے ریلوے ٹریک کا ریل کو چلا کر معاینہ کیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ریل الیکٹرانک آٹھ ڈبوں پر مشتمل ریل تھی جو اس ٹریک پر چلائی گئی۔ اس کے بجلی کا کام سایمن لمیٹیڈ نے انجام دی ہے۔ اس سنگلدان ٹنل میں اور بھی ٹنل جڑے ہیں، جن میں T47،T46، T45،T42،T43ریلوے ٹنل سات کلو میٹر لمبا ہے اور اسکو کوکان ریلوے نے تیار کیا ہے ۔اس ٹرین کو تمام راستہ طے کرنے کے لیے 28منٹ کا وقفہ لگ گیا ۔ اس کو اب عوام کے نام وقف کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی آج اس کو ورچول طور سے جھنڈی دکھا کر عوام کے نام وقف کر دیں گے۔
سنگلدان سے ریاسی ،ریاسی سے کٹڑہ کا علاقہ، اس سے اب جوڑنا مطلوب ہے جس پر کام جاری ہے۔ریلوے سٹاف کے لیے کوارٹروں اور باقی ضروریات کی فراہمی کو تیار کیا گیا ہے ۔اس عظیم ریلوے ٹریک کا باقی ماندہ حصہ جو 113کلومیٹر پر محیط ہے، جلد ہی تیا رہو کر ہندوستان کے باقی حصوں سے رابطہ کرکے ایک انوکھے کام کو سر انجام دے گا ۔ جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے ۔ ہم اُن عظیم ورکروں ، مزدوروں اور انجینئروں کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے نا مساعد حالات میں بھی اس کام کو نہیں چھوڑا اور آخر کار فتح حاصل کر کے جھنڈا گاڑ دیا۔
( مسرور پریمِسس محلہ عالم شاہ صاحب بانہال )
معرفت پیر پنچال ادبی فورم بانہال۔ 7889527398