سرینگر کے صدر ہسپتال میں زائد المعیاد ادویات کی فراہمی کا سکینڈل طشت از بام ہونے کے بعد ہر ایک شخص کے ذہن میں یہ سوالات اٹھنےلگے ہیں کہ اگر سرینگر، جو ریاست کا دارالحکومت ہے،جیسے شہر میں ادویات کے کاروبار کا یہ حال ہے تو پھر ریاست کے دور دراز خطوں کا کیا عالم ہوگاجہاں تک حکام کی نظریں بھی نہیں پہنچ پاتیں اور نہ ہی معیاری ادویات کی فروخت کے معائنے کا کوئی مناسب انتظام موجود ہے۔تحقیقات کےبعد جس طرح کے نتائج برآمد ہوئے ہیں،اگر دور دراز علاقوں میں بھی اسی طرز سے تحقیقات عمل میں لائی جائے تویقینی طور پر اس سے بھی بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں، کیونکہ ماضی میں متعدد مقامات پرادویات کی جانچ کی گئی تووہاں شکایات کو درست پایاگیاہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں عوامی شکایات پر ڈپٹی کمشنر پونچھ نے ضلع بھر میں سرسری طور پر ادویات کی دکانوں کی چیکنگ کروائی جس دوران کچھ دکانوں سے زائد المعیاد ادویات برآمد ہوئی تھیں جس کے بعد حفظان صحت سے جڑے کئی طرح کے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔معیار اور شفافیت کے لحاظ سے محکمہ صحت کا پہلے سے ہی نام کچھ اچھا نہیں اور اسی برس جنوری کے مہینے میں ریاستی ویجی لینس کی طرف سے جاری ہوئی رپورٹ میں ریاست کے محکمہ جات میں محکمہ صحت و طبی تعلیم کو بدعنوانی میں چھٹے درجہ پر رکھاگیاتھا۔یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اس محکمہ میں ایک مافیا سرگرم ہے جو مریضوں کی طبی تشخیص سے لیکر ادویات کی فروخت تک کے عمل میں اثرانداز رہتاہے اور اسی کی وجہ سے یہ شعبہ کاروباری شکل اختیا کرگیاہے ، جس میں ادویات فروخت کرنے والے حلقوں اور شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے کچھ بے ضمیر لوگوں کی ملی بھگت ہوتی ہے، لہٰذااُسی کمپنی کی ادویات تجویز کی جاتی ہیں جس میں دونوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے طبی مراکز میں یہ تک بتایا جاتا ہے کہ تجویز کردہ ادویات کن میڈیکل سٹوروں پرمل سکتی ہیں۔ شعبہ طب جو کبھی خدمت انسانیت کی علامت تصور کیا جاتا تھا، آہستہ آہستہ ایک کاروبار بن رہا ہے اور وہ بھی ایسا کاروبار جس میں بھونڈے طریقے آزماء کر مریضوں کو لوٹ کر مالی فوائید حاصل کرنے میں کوئی پس پیش نہیں کیا جاتا۔ اس صورتحال میںزیادہ متاثر غریب عوام کو ہوناپڑتاہے اور انہیں ہی محکمہ میں پائی جارہی تمام تر خرابیوں کا خمیازہ بھگتناپڑرہاہے۔خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب جیسے دور دراز علاقوں میں جہاں طبی نگہداشت کا کوئی خاص انتظام نہیں،مریضوں کے علاج اور ان کی صحت کا انحصار ادویہ فروشوں پر ہی منحصر ہوتاہے لیکن اگر زائد المعیاد اور غیر معیاری ادویات کاکا روبار ہونے لگے تو پھر علاج کیسے ممکن ہوگا اور کیسے صحت یابی ہوسکے گی۔غیر معیاری اورزائد المعیاد ادویات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دوائی کاکوئی اثر ہی نہیں رہ گیا اور دور دراز علاقوں کے لوگ معمولی سے علاج کیلئے بھی سرینگر یا جموں کے ہسپتالو ں کارخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،جنہیں اس کیلئے نہ صرف طویل ترین سفر کے دوران ذہنی پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیںبلکہ ہزاروں روپے بھی صرف کرنے پڑتے ہیں جو محکمہ صحت کی طرف سے ان لوگوں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہےکیونکہ محکمہ کا یہ فرض بنتاہے کہ وہ عوام کو مقامی سطح پر ہی طبی سہولیات فراہم کرے جس کا حکام کی طرف سے بارباردعویٰ بھی کیاجاتاہے۔جب تک نظام کو سدھارنے کیلئے سنجیدگی سے اعلیٰ سطح پر اقدامات نہیں کئے جائیں گے تب تک طبی نگہداشت کے شعبے میں بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ شعبہ دن بدن بدنام ہوتاجارہاہے اور کہیں نہ کہیں انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیاجارہاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں بڑے شہروں میں ادویات کے معیاراور اس کی معیا د مدت پر کڑی نظر رکھی جائے وہیں دور دراز علاقوں میں بھی چیکنگ کا عمل شروع کرکے اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ لوگوں کو بنیادی سطح پر ہی طبی سہولیات میسر ہوں اور کسی بھی ادویہ فروش یا طبی عملہ کے رکن کی طرف سے ان کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ نہ ہونے پائے۔یہ سکینڈل ریاست کے ایک ایسے ہسپتال میں پیش آیا ہے، جو اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے کیونکہ یہ اسپتال ریاست کے شعبہ طب کےلئے رہنمائی کا نشان رہا ہے اور ایسے ادارے میں اس نوعیت کی بدعنوانی نہ صرف ہماری انتظامیہ بلکہ ہمارے سماج کے ماتھے پر کلنک ہے۔