پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین
پچھلے دو برسوں سے “ادب لطیف” کی روایت بن چکی ہے کہ اس کے دونوں شمارے اکٹھے شایع کیے جاتے ہیں۔ اس بار بھی جنوری، فروری اور مارچ اپریل 2024 کے دونوں شمارے اکٹھے شایع ہوئے ہیں ۔ ایک بات کی خوشی ہے کہ “ادب لطیف ” تسلسل کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ایسے کاموں میں اندھیر سویر تو ہو جاتی ہے ۔بہ ہر حال “ادب لطیف”کی انتظامیہ اس کار دشوار کو اپنی محنت اور لگن سے آسان اور معیاری بنانے میں کوشاں رہتی ہے۔ مہنگائی ہے کہ روز بہ روز آسمان سے باتیں کرتی چلی جا رہی ہے، ایسے میں کسی سودوزیاں کا حساب رکھے بغیر ادب کی خدمت میں جتے رہنا اور گرمی سردی کی پرواہ کئے بغیر ادب کی ترویج اور اس کے فروغ کے لیے دن رات ایک کیے رکھنا یہ بھی ایک طرح کا عشق ہے۔ عشق کی کئی جہات ہیں، ہم نے اور ہمارے شعرا حضرات نے اسے ایک پہلو تک ہی محدود کر دیا ہے، ہر کوئی اس میں منفعت تلاش کرتا ہے۔ جناب اشرف جاوید کا ایک شعر یاد آرہا ہے،جسے پڑھ کر یقیناً آپ عشق کے روایتی حصار سے نکلنے کا راستہ بہ آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔ ( میں یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ میرا قاری شاید یہ سمجھتا ہو کہ میں اپنے کالم میں جناب اشرف جاوید کا یا ان کے اشعار کا اکثر ذکر کرتا رہتاہوں ۔ بات دراصل یہ نہیں ہے ، بل کہ حقیقت یہ ہے کہ جناب اشرف جاوید معروضی شعری منتظر نامے میں غزل کے حوالے سے اپنی منفرد اور الگ پہچان رکھتے ہیں اور انھیں اپنے ڈھنگ سے شعر کہنے کا سلیقہ بھی قدرت نے ودیعت کر رکھا ہے ، میں تو کیا ایک زمانہ ان کی غزل کا معترف ہے) اشرف جاوید کا یہ شعر نہ صرف عشق کی حقیقت تک رسائی کا ذریعہ ہے ، بل کہ اس میں منفعت تلاش کرنے والوں کے لیے ایک پیغام عام ِ بھی ہے۔ شعر کچھ اس طرح ہے :
نہیں ہے سودوزیاں کا معاملہ اس میں
یہ کار ِ عشق ہے سودوزیاں سے آگے ہے
سو جو لوگ ادب کی تخلیق میں سودوزیاں کی خواہش رکھتے ہیں ، یعنی صرف سود کی خواہش رکھتے ہیں ان کی راہ عشق سے الگ ہو جاتی ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے ، کیوں کہ حالات نے کھرا کھوٹا پہچان کے الگ کر دیا ہے ، سو، جو لوگ ادب سے عشق کرتےہیں وہ بھی زمانے پر ظاہر ہیں اور جو سود کا کام کرتے ہیں وہ بھی ادب میں ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
” ادب لطیف ” کے دونوں شماروں کا آغاز حسب روایت حمد باری تعالی اور نعت رسول مقبولؐ سے کیا گیا ہے۔ اس کے بعد “مشک حتن” کے عنوان سے غزلوں کا ایک بھر پور حصہ قاری کی توجہ کھینچتا ہے۔ غزل اردو شاعری میں مرکزی حیثیت کی حامل صنف سخن ہے اور جو حیثیت عشق میں محبوب کو حاصل ہے ، وہی حیثیت غزل کو اردو شاعری میں حاصل ہے ، لیکن یہ حسینہ کسی ایرے غیرے کے ہاتھ نہیں آتی ، اگرچہ ایک زمانہ پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے ، لیکن جس پر یہ مہربان ہوتی ہے ، اسے ہر طرح سے سیراب کرتی چلی جاتی ہے۔ غزل کا حصہ اگرچہ بڑا بھرپور ہے ، لیکن زیادہ تر غزلیں ایسی ہیں جنہیں غزل کی سان پر پرکھنا کار محال ہے، یہ کام دراصل “ادب لطیف” کی مجلس ادارت کا ہے کہ وہ کھوٹا کھرا چھان کر الگ کر دیں تاکہ “ادب لطیف”کا معیار بھی قدرے بلندی کی طرف نظر آئے۔ دونوں شماروں میں جناب سلیم کوثر، جناب سحر انصاری،جناب اشرف جاوید اور جناب مسعود احمد کی غزلیں دامن دل کھینچتی ہیں۔ جناب اشرف جاوید کی غزل ہر لحاظ سے ماحولیاتی غزل سے مختلف نظر آتی ہے، انہوں نے اپنا اسلوب بھی وضع کر لیا ہے، انہیں بات کرنے کی تہذیب بھی آتی ہے اور انہیں ہنرکاری کا سلیقہ بھی اللہ تعالی نے تفویض کر رکھا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ حالات کی نبض پر بھی ان کا ہاتھ ہے۔ نظموں کا حصہ نہایت مختصر ہے اور تمام نظمیں واجبی اظہار کا اشاریہ مرتب کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اردو نظم کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے یہ بات چلی آرہی ہے کہ اس کے لکھنے والے یا تو اس کی اہمیت کو اور اس کی ضروریات کو مد نظر رکھنے سے قاصر ہیں یا پھر نظم ان کی دسترس سے ماورا ہوتی چلی جا رہی ہے یا پھر نظم لکھنے والوں کی صلاحیت ہی ان کے آڑے آرہی ہے۔ اس بات کا فیصلہ نہ تو میں کر سکتا ہوں، نہ قاری اس منصب پر فائز ہے۔ یہ بھاری پتھر بھی خود نظم لکھنے والا ہی اٹھائے گا اور یہ پتھر کب ان سے اٹھ پاتا ہے یہ بات فی الحال وقت پر ہی چھوڑی جا سکتی ہے ۔
“فسوں کاری” کے عنوان کے تحت مختلف لکھنے والوں کے افسانے شامل کئے گئے ہیں۔ اردو افسانہ بھی حالات کے نشیب و فراز طے کرتا ہوا قاری تک پہنچا ہے۔ افسانہ لکھنے والوں کے اپنےموضوعات ہیں اور وہ اپنے ڈھنگ سے اور ضرورت کے تحت کردار تشکیل کرتے رہتے ہیں۔ رہی بات افسانہ بنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بھی آنے والا وقت ہی کرے گا ، کیوں کہ ہر دوسرا آدمی خود کو تیسرے آدمی سے بڑا افسانہ نگار قرار دینے میں لگا ہوا ہے۔ جب مسابقت کی دوڑ میں لوبھ اور لالچ شامل ہو جائے تو پھر اس کے محرکات بھی غیر تخلیقی ہو جایا کرتے ہیں ، البتہ جناب محمد الیاس کا ” اعتراف جرم”، جناب طارق محمود کا ” حصار”، جناب امین کنجاہی کا ” زندگی کی پہلی موت” اور ڈاکٹر ریاض قدیر کا “گرداس پور کا جٹ” قدرے بہتر افسانے ہیں۔ تراجم کا حصہ بھی شامل ہے اگرچہ یہ مختصر ہے۔ مختلف زبانوں کے اردو میں تراجم اس لیے بھی ضروری ہیں کہ قاری کو علم ہونا چاہیے کہ ملک میں اور بیرون ملک کس نوع کا ادب تخلیق ہو رہا ہے اور دیسی بدیسی لوگوں کے اظہار کا وطیرہ کیا ہے اور وہ حالات کو کس رخ سے دیکھتے ہیں ، کیوں کہ ہر لکھنے والے کا طرز اظہار مختلف ہوتا ہے۔ کئی لوگ ایک ہی منظر کو بہ یک وقت کئی رخوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں ، اس لیے ہر رخ تک رسائی اور ہر نہج سے آشنائی بھی پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے، تبھی جا کر پورا منظر آنکھوں پر کھلتا ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے ، اگرچہ بعض اوقات اصل روح کہیں غائب ہو جاتی ہے اور اصل رنگ بہت مدھم سا دکھائی دینے لگتا ہے ، پھر بھی یہ ایک خوش آئند قدم ہے اور یہ سفر بہر صورت جاری رہنا چاہیے اور اب آخر میں ایک بات “ادب لطیف” کی مجلس ادارت کے لیے، آپ اسے میری درخواست بھی سمجھ سکتے ہیں ، وہ یہ کہ “ادب لطیف” میں شایع ہونے والے ادبی مواد اور تخلیقات کو ، اگر مزید چھان پھٹک لیاجائے تو غیر معیاری اور سطحی قسم کی تخلیقات کو الگ کرنے کی گنجائش بہ ہر حال نکل سکتی ہے، اس سے ایک تو پرچے کا معیار بہتر ہو گا اور دوسرا لکھنے والوں کے لیے بھی یہ بات آئینہ ہو گی کہ انہیں اور کتنی مزید محنت اور لگن کی ضرورت ہے۔