شکیل مصطفیٰ
آج کے دور میں دنیا ایک عالمی دیہات میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ایسے میں لٹریچر یا فنون لطیفہ کی اصناف پر خامہ فرسائی کرنا خیر تعجب خیز تو نہیںکہا جاسکتا البتہ حیرت انگیز ضرور کہلایا جاسکتا ہے؟ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ آج سے تقریباً ربع صدی قبل تک کتابیں اپنی ایک حیثیت و اہمیت رکھتی تھیں پھر چاہے وہ کسی بھی عمر کے قاری کے لیے ہوں اس کی اپنی اہمیت وافادیت مسلم تھی۔ چہ جائیکہ ہم ذکر خیر کریں ادبِ اطفال کا۔ ہماری زبانِ اردو میں جو ادب اطفال کا گنج گراں مایہ ہے ماضی بعید سے ماضی قریب تک اور حال کے حوالے سے بھی جب ہم ا س کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ا س کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ماضی میںا دب اطفال اوراس میں بھی کہانیاں جو چاہے نثری ہوں یا منظوم اس کی ہمارے لیے کتنی زیادہ اہمیت ہوتی تھی کہ بلاشبہ عملی زندگی کی سمت متعین کرنے میں یہی کہانیاں ہماری معاون ومددگار ہوتی تھیں۔
اس سے قبل کہ ہم اس موضوع پر مزید کچھ روشنی ڈالیں ضروری ہوتا ہے کہ ہم اپنے اردو ادب اطفال کے شاندار ماضی کا تذکرہ کرلیں جس کے بغیر اس موضوع پر مبنی انصافِ اظہارِ خیال پیش کیا جاسکتا۔ وطن عزیز ہندوستاں جنت نشان کی آزادی سے قبل متحدہ ہندوستان میں بھی اردو اپنی ابتدائی مقفیٰ و مسجیٰ نیز ٹکسالی حیثیت میں موجود تھی۔ اس میں بھی خاص طور سے بچّوں کے لیے براہِ تفریح پندونصائح کے وہ گوہرِ نایاب ہمیں پڑھنے کے لیے ملتے تھے جس کی شیرینی اور اثر انگیزی کا جادو قاری اپنے ذہن کے حافظے میں تادم آخری تک محفوظ رکھتا تھا۔ ہم اور آپ میں سے اکثر نے اپنی والدہ، دادی، نانی یا گھر کی دیگر بزرگ خواتین سے اکثر کہانیاں سنی ہوں گی۔ کبھی ہم نے یہ خیال کیا کہ آخر وہ یہ کہانیاں کہاں سے لاتی ہیں؟ دراصل جب اس دور میں تعلیم کا نظام سہل الحصول تھا، بچّے قرآن پاک، چہل حدیث، گلستاں بوستاں وغیرہ پر مشتمل تعلیمی نصاب کی تکمیل کر کے تعلیم یافتہ کے زمرے میں شریک کر لیے جاتے تھے۔ گلستاں، بوستاں کی نصیحت آمیز حکایات جنہیں ہم تھوڑی دیر کے لیے کہانیوں کی صف میں شامل کرلیں تو دیانت داری سے جائزہ لیں تو یہ بات واضح و مترشح ہوجاتی ہے کہ طالب علمی کے آغاز سے لے کر انجام تک اور اس کے بعد بھی یہ پڑھی ہوئی حکایات نیز منظوم کہانیاں ہماری پوری زندگی میں بہ وقت ضرورت بہت ہی کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ آزادی کے فوری بعد کا زمانہ دیکھیں جب کہ اردو کا ہر سو بول بالا تھا اور لسانی تعصب بھی اکثریتی فرقہ کے ذہنوں میں ایک عفریت بن کر نہیں ناچتا تھا ایسے وقت میں اردو ادب اطفال ہی واحد ذریعہ تھا جس سے بچّوں کے ناپختہ ذہنوں کی تربیت وآبیاری کی جاتی تھی۔ ہمیں اپنے بچپن کا وہ زمانہ آج بھی یاد ہے جب ہمارے گھروں میںرام پور سے شائع ہونے والا بچّوں کا رسالہ نور، شمع گروپ دہلی کا کھلونا، نیز جامعہ سے پیام تعلیم متواتر و بلاناغہ شائع ہوا کرتے تھے۔ دیکھا جائے تو ہماری دینی، اخلاقی اور سماجی تربیت کے لیے یہی رسائل بہ شکل وسائل موجود تھے۔ جس میںمولانا اسمٰعیل میرٹھی، شفیع الدین نیّر اور دیگر ادیب الاطفال کی کہانیاں اور نظمیں خاص طور سے اشاعت پذیر ہوتی تھیں جو بلاشبہ طلباء اور بچّوں کے لیے تفریح کا سامان ہونے کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی مضبوط ذریعہ اور وسیلہ ہوتی تھیں۔علامہ اقبال کا تذکرہ بھی اس شمار میں کیا جاسکتا ہے۔ لب پہ آتی ہے دعا سے لے کر وہ دیکھو ہوائی جہاز آگیا، سلمیٰ کی بلّی ، ڈاکٹر ذاکر حسین کی ابوخاں کی بکری وغیرہ وغیرہ ایسی طویل فہرست ہے جو پندونصائح سے آراستہ وپیراستہ کہانیوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی رہی ہیں اور اس زمانے کے بچّے جن میں ہم اور ہماری ہم عصر نسل بھی شامل ہے نہ صرف اسے مزے لے کر پڑھتے تھے بلکہ اسی کے ذریعے سماج ومعاشرے کے ادب وآداب سے روشناس بھی ہوتے تھے۔ اس زمانے میں قومی سطح پر مذکورہ ادیب وشاعرانِ اطفال تو موجود ہی تھے۔ ملک کی شمالی ریاستوں کے ساتھ ساتھ جنوبی ریاستوں میں بھی اردو کا بول بالا تھا۔ مہاراشٹر کی بات کریں تو یہاں پر بھی ممبئی، ناگپور، بھیونڈی، مالیگائوں ، پونہ، جلگائوں اور اورنگ آباد وغیرہ میں بھی اردو ادب کا ایسا ڈنکا بجتا تھا کہ جس کے شور کے نیچے دیگر لسانی ادب نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مانند دکھائی دیتے تھے۔ اس دور میں بھی ادیب الاطفال کی ایک طویل فہرست تھی جو نہایت خاموشی سے بچّوں کے ادب کو پروان چڑھانے میں اپنے آپ کو مشغول رکھے ہوئے تھی۔ ممبئی کی سلور بُک ایجنسی اور سیفی بک ایجنسی مسلسل بچوں کی کہانیوں کی ایک سیریزہر ہفتہ دس دن پر شائع کرتی تھیں۔ مالیگائوں کے ادیب الاطفال ایم یوسف انصاری، بختیار سعید وغیرہ کی بھوتوں پریتوں ، جادوگروں اور پریوں کی کہانیاں ہاٹ کیک کی طرح ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ اس میں بچّوں کی دلچسپی کس قدر ہوتی تھی کہ اس وقت جب کہ بچوں کو ایک آنہ، دو آنہ ہی جیب خرچ ملتا تھا، جیب خرچ بچاکر ان کہانیوں کی کتابوں کو خرید کر بچّے خاص طور پر گرمی وسرمائی چھٹیوں میں اپنی وقت گزاری کا سامان کرلیا کرتے تھے۔ خیراس سلسلے کو ہمیںموخر کرنا ضروری ہے کیوں کہ ہم اس وقت کے ادب اطفال کے محاسن بیان کرتے رہیں گے تو یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جائے گا۔ کیوں کہ ہم جس زمانے کا تذکرہ کررہے ہیں وہ اردو ادبِ اطفال کے حوالے سے گولڈن ایئر کہلایا جاتا ہے لیکن ہمیں فی زما نہ بچّوں کی کہانیوں کو اور اس پر ہونے والے اثرات کا بھی اجمالی جائزہ لینا ہے۔ یہ ا س لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک ہم حال کے ادبِ اطفال کا جائزہ نہیں لیں گے تو ماضی سے اس کی قرابت داری نیز مستقبل سے اس کی ہم آہنگی کی راہ کی بھی ہمواری ممکن نہیں ہے۔
یہاں اس بات کا بھی ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ قصّے کہانیوں کے توسط سے جہاں بچّوں کی اخلاقی تربیت ہوتی تھی اس کے ساتھ ساتھ بچوں میں اردو زبان کو قواعد نیز صَرف ونحو کے ساتھ بولنے اور لکھنے میں بھی بہت آسانی ہوتی تھی اور آج کے زمانے میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بچّے انگریزی، ہندی، مراٹھی زبانوں میںزیادہ نمبرات حاصل کرتے ہیں جب کہ اردو میں ان کی حالت پاسنگ لائن کے آس پاس ہی منڈلاتی رہتی ہے۔ آخر یہ نوبت کیوں آئی؟ اس سوال کا جواب مل جائے تو آج کے موضوع کا حق ادا ہوجائے گا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے بچّے دیگر زبانوں میں تو مہارت حاصل کرتے جارہے ہیں لیکن اُردو میںوہ کافی پیچھے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس کی خالص وجہ یہ ہے کہ آج کی نسل کتابوں سے اپنا ناطہ توڑ بیٹھی ہے۔ اس کے پاس نصاب کی زبانوں کے لیے تو بہت وقت ہے لیکن اردو سے اس کا رشتہ محض رسمی ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا ہمارے گھروں میں خواتین کے ماہانہ رسائل کے ساتھ بچّوں کے ادب پر مشتمل رسائل لازمی طور پر منگائے جاتے تھے لیکن آج موبائل اور اس کے ذریعے پھیلتا شوشل میڈیا نے ہمارے ادبِ ا طفال کا ستیہ ناس کر کے رکھ دیا ہے۔آج بھی بچّوں کے ادب کی تخلیق جاری ہے۔ پہلے سے زیادہ ادیب الاطفال کا تمغہ لگائے قلم کار مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ کتابیں بھی سرکاری جزوی امدادوں کے بل بوتے پر شائع ہورہی ہیں۔ اس کے باوجود ا سکے قاری کا دور دور تک پتہ ٹھکانہ نہیں ہے۔ جس بچّے کے لیے ادب تخلیق کیا جارہا ہے اس کو تو پتہ ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی تربیت تو موبائل کی مرہونِ منّت ہے۔ آج ہمارے گھروں کا ماحول دیکھیے، بچّہ رورہا ہے۔ والدہ اس کی خبر گیری کے بجائے اس کے ہاتھ میں موبائل تھمادیتی ہے۔ بچّہ ’نانی تیری مورنی کو مور لے گئے، لکڑی کی کاٹھی، کاٹھی پہ گھوڑا اور گیّا ، میری گیّا جیسی موسیقی آمیز نظمیں سن اور دیکھ کر بہل جاتا ہے۔ لیکن اس کی والدہ کو یہ احساس بالکل نہیں ہوتا کہ اس کے وقتی آلام کے چکر میں اس کا بچّہ مستقبل میں تعلیم وتعلم سے یکسر عاری وبیگانہ بھی ہوجائے گا۔ آج حالت یہ ہے کہ ہم اپنے بچّوں کو پابندی سے مکتب اور عربی مدارس میں روزانہ بھیج رہے ہیں تب ہی اس کی تھوڑی بہت اخلاقی و دینی تربیت تو ہوجاتی ہے لیکن ماضی میں جس طرح بچے کو اپنی مادری زبان میں کہانیوں کی صورت میں جو تربیت کا بےبہا خزانہ مل جاتا تھا وہ آج کی نسل کو نصیب نہیں ہے اور یہ تمام کی تمام موبائل اور انٹرنیٹ کی کارستانی ہے۔ بچّے کتابوں کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ بڑی مشکل سے اسکولی کتابوں اور ہوم ورک کے نام پر تھوڑا بہت لکھ لینا ، اتنی ہی تعلیمی سرگرمی بچّوں میں محدود ہوکر رہ گئی ہے اور یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ ہم اپنے گھر کے چھوٹے بچّوں کودیکھتے ہیں کہ کس طرح وہ ہوم ورک کرتے وقت بھی بےچین نظر آتے ہیں۔ وہ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کس طرح سے اس ہوم ورک سے جان چھوٹے کہ میں موبائل پر جھپٹوں۔ اسے نصابی کتابیں بورنگ لگتی ہیں۔ سار ادھیان اور دیدہ موبائل میں لگارہتا ہے۔ والدین، سرپرست بھی بچّوں کی چیخ پکار کے خوف سے اس کے حوالے موبائل کر کے وقتی آرام پاتے جارہے ہیں لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ اُن کی یہ حرکت خود ان کےاپنے بچّے کے لیے سمّ ِ قاتل بنتی جارہی ہے۔ اسے اسکول مدرسے میں تعلیم کے دوران تو نیند آنے لگتی ہے لیکن اگر ساری رات اس کے ہاتھ میں موبائل تھمادیا جائے تو وہ ایک سکینڈ کے لیے بھی پلک جھپکانے کو تیار نہیں ہوتا۔ آپ کو ایسا محسوس ہورہا ہوگا کہ ہم موبائل اور ادب اطفال کی کہانیوں کا مناظرہ نہیں کرارہے ہیں لیکن ہماری مجبوری ہے کہ آج کی ہماری نئی نسل محض موبائل کے چکر میں کس قدر کند ذہن ہوتی جارہی ہے اس کا اندازہ ہمارے ماہرین اطفال کو بھی شاید نہیں ہورہا ہے۔ اسکولوں سے بچوں کو منہ لٹکائے آتے تو آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔ چند گھنٹے کے اسکول میں اس کی یہ حالت اس لیے بھی ہوتی ہے کہ دل کہیں اور لگا ہوا ہے۔ درسی نظموں اور ایکشن سانگ میں تو اس کی دلچسپی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ لیکن دیگر مضامین میں کس حد تک دلچسپی ہوتی ہے وہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہ گیا ہے۔ والدین پریشان ہیں۔ اچھے سے اچھا ٹیوشن اور کوچنگ کلاس جوائن کرنے کے بعد بھی رزلٹ توقع کے مطابق نہیں آرہا ہے۔ اردو ذریعۂ تعلیم تو اب صرف سرکاری یا میونسپل اسکولوں میں دبی دبی سانس لے رہا ہے۔ مہنگی اسکولیں، انگریزی میڈیم، سیمی انگریزی میڈیم، چکاچوند یونیفارم، چمچماتی اسکولی وین، ٹپ ٹاپ آمدورفت، اتناسب ہونے کے باوجود بہتر نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے تو اس کی محض ایک ہی وجہ ہے آج کی نسلِ نو ادبِ اطفال سے دور ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ ادب اطفال، جس میں اُردو کی چاشنی کے ساتھ بہترین اخلاقی و سماجی تربیت کا مواد موجود ہے جو صرف اسی لیے تخلیق کیا جارہا ہے۔ لیکن مزے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے کے مصداق ادیب وشاعر سرکاری وسماجی ایوارڈ، اعزاز واکرام کو پاتے جارہے ہیں لیکن ہماری نسل نو جو مستقبل میں ہمارے سماج ومعاشرے کی معمار ہوگی وہ اپنی ہی شاندار روایت سے یکسر غافل ہوتو آخر ہم کس مستقبل کی آس اورا مید رکھیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ادب اطفال سے اطفال کی دوری ایک سماجی مسئلہ بنتی جارہی ہے لیکن ہمارے مصلحین قوم بھی شتر مرغ کی لور ریت میں منہ چھپائے بیٹھے ہیں اس آس میں کہ یہ طوفان یوں ہی گذر جائے گا۔ حالاں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ آج ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے اور ہمارے بچّوں کا ان ہی کے ادب سے رشتہ استوار کرنے کی کوئی مربوط و مضبوط کوشش نہیں کی تو ہم اپنی ہی نسلوں کے دشمن کہلائیں گے۔ اس میں ان بچّوں کا قصور تو ہے نہیں۔ ہمارے لاڈ دلار نے ان کا کباڑا کر کے رکھ دیا ہے اور وہ اس سے بےخبر ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس معاملے میں بیدار ہوں۔ ہم نے جس طرح اپنے زمانے میںا دب اطفال سے فیض حاصل کر کے ایک بیدار مغز شہری بنے ہیں یہی وراثت ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو بھی منتقل کرنی ہوگی کیوں کہ ادب اطفال کی قصہ ، کہانیاں محض وقت گذاری یا تفریح کا سامان نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری نئی نسلوں کی اخلاقی، دینی ومعاشرتی تربیت کا سنہری ذریعہ ہے۔ ان کو ایک اچھا انسان اور مستقبل میں معاشرے کا ممتاز وکامیاب فرد بنانے کا ذریعہ ہیں۔ اس کے لیے پہل کون کرے گا یہ شرط ضروری ہے کیوں کہ یہ ایک دو گھر کی بات نہیں بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے اور اس کہانی کا رُخ ادب اطفال کی کہانیوں کی طرف موڑ کر ہم اپنی آئندہ نسلوں پرایک احسانِ عظیم کریں گے۔ شاید کہ اُتر جائے کسی دل میں میری بات !
رابطہ۔9145139913