جموں // عرصہ دراز سے نوجوان اور اُبھرتے ہوئے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے سرگرم عمل ریاست کی کثیر اللسانی ادبی تنظیٖم ادبی کُنج جے اینڈ کے جموّں کے زیر اہتمام گذشتہ روزاِس کے ادبی مرکز کِڈذی سکوُل تالاب تِلّو جموّںمیں نوجوان اور اُبھرتے ہوئے شعراء کی حوصلہ افزائی و تربیّت کیلئے ایک اورتنقیدی شعری نِشست کا انعقاد ہوُا جِس میں مختلف زبان و ادب سے وابستہ نوجوان قلمکاروں نے شرکت کی۔اس نِشست کا دائرہ عمل بھی نوجوان شعرا کے اِرد گرد ہی بُنا گیا تھا۔ اِس نِشست کی صدارت کے فرائض اودھمپور سے تشریف لائے جانے پہچانے اُبھرتے ہوئے شاعر اشوک کُمار منطق ؔنے سر انجام دِئے۔ جبکہ سرینگر کشمیر سے تشریف لائے نوجوان اُردوُ شاعر عبدالجبّا ربٹ مہمانِ خصوُصی تھے۔نِشست کی نظامت کے فرائض بھی تنظیم کے آرگنائزربھی نوجوان شاعر و گلوکار وید اُپّلؔ نے سر انجام دِئے۔ نِشست کا آغاز کرتے ہوئے تنظیم کے سر براہ آرشؔ اوم دلموترہ اور صدر شام طالبؔ نے اِس حقیقت کو واضع کِیا کہ ادبی کُنج کا بڑا مقصد زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ نوجوان اور اُبھرتے ہوئیء قلمکاروں کی رہنمائی بھی فرضِ اوّلین ہے ۔ آج کی اِس تنقیدی شعری ورکشاپ میں دواُبھرتے ہوئے شعرا کی غزلوں کا تنقیدی جائزہ لِیا گیا ۔ (1)’ہو چُکی ہے اب صحر آؤ چلتے ہیں نگر‘۔ از اشوک کُمار منطقؔ۔ (2 ’)جی رہا ہوں یہاں مر رہا ہوں یہاں ، کیسے کیسے یتن کر رہا ہوں یہاں‘۔ از عبدا لجبّار بٹ۔ اِس موقعہ پر اسلوُبِ غزل کے مختلف پہلوؤں کی نِشاندہی کرتے ہوئے اِس بات پر غورکِیا گیا کہ الفا ظ کا تلفّظ ہی الفاظ کے اوزان کی صحیح نِشاندہی کرتا ہے۔ اسلوبِ غزل کے مختلف پہلوؤں پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے شعراکو مفید و کارآمد مشورے بھی دِئے گئے جِنھیں صدق دِلی سے قبوُل کِیا گیا۔آج کی نِشست میں ایک کثیر اللسانی شعری دوَر بھی ہوا۔جِس میں شعرا حضرات نے اپنے دیگر کلام کے ساتھ ساتھ یوُمِ عاشورہ اور دسہرا کے متبّرک موقعہ پر مختلف زبانوں میں اپنی نظمیں پیش کیں۔ جبکہ گلو کار شعرا نے اپنے گیتوں سے ایک سماں باندھ دِیا۔ اِس موقعہ پر جانے مانے گلو کار و طرز نِگار چمن سگوچ نے معروُف اُردوُ شاعر مالک سنگھ وفاؔ کی ایک معروف غزل ’ہے چاند کی تمنّا نہ تاروں کی آرزوُ دِل کو ہے اِس نظر کے نظاروں کی آرزوُ ‘، خصوصی طور پر گا کر سب کو محظوظ کِیا۔ اِس دوَر میںایک اور معروُف گلو کار وید اُپل نے اپنی معروف پنجابی غزل اپنی مترنّم آواز میں پیش کی۔غزل کا مطلع تھا: ۔ ’لوکاں جد برسائے پتھرّ میرے ہی گھر آئے پتھّر‘۔ اِس مترنّم دوَرمیں ایس کے پاگلؔ نے بھی دیش پریم کا ایک گیٖت گایا ، ’آزادی ہے اصل نتیجہ ویراں دی قُربانی دا ۔نِشست کا اِختتام حسب ِ معمول چیئرمین آرشؔ دلموترہ کی طرف سے پیش کی گئی شُکریہ کی تحریک سے ہُوا۔