سبزار احمد بٹ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرد اور عورت معاشرے کی گاڑی کے دو پہیے ہیں ۔جن سے دنیا کی یہ گاڑی آگے بڑھ رہی ہے ۔دونوں اپنے اپنے حصے کی حق ادائی کر رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ایک طرح کا توازن قائم ہے۔ ایک زمانہ تھا جب خواتین کو مردوں سے کمتر سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن موجودہ دور میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہیں بلکہ چند شعبوں میں تو خواتین نے ہی میدان مار لیا ہے۔جہاں تک ادبی دنیا کی بات ہے اس میں بھی خواتین پیچھے نہیں رہیں ہیں بلکہ اپنے حصے کی حق ادائی تواتر کے ساتھ کر رہی ہیں ۔چاہے نثر ہو یا نظم، افسانوی ادب ہو یا غیر افسانوی ادب۔خواتین نے تو ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کچھ خطوں سے ادبی میدان میں خواتین کی شرکت نا کے برابر ہے ۔جن میں جموں وکشمیر کا ڈوڈہ علاقہ بھی شامل ہے ۔اس علاقے سے بھی ادبی میدان میں خواتین کی شرکت نہ کے برابر ہے۔لیکن حال ہی میں اس علاقے کی ایک باصلاحیت خاتون نے ادبی دنیا میں دستک دے کر اس دنیا کو مزید خوشبودار اور خوبصورت بنانے کی کوشش کی ہے۔ادبی دنیا کو مہکانے والے اس پھول کا نام نیلوفر ہے۔نیلوفر ڈوڈہ سے پہلی افسانہ نگار خاتون ہے جس کا افسانوی مجموعہ ’’ دستک ‘‘ کے نام سے شائع ہو کر اسی سال یعنی 2023 میں منظر عام پر آ چکا ہے ۔اس افسانوں مجموعہ میں ان کے کُل سترہ افسانے شامل ہیں ۔جو مختلف اخبارات میں پہلے ہی شائع ہو کر قارئین سے دادِ تحسین حاصل کر چکے ہو ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس افسانوی مجموعے پر جموں وکشمیر کے چند مستند اور معتبر افسانہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں ولی محمد اسیر کشتواڑی، نورشاہ، شاید فرید آبادی، مشتاق فریدی، ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی، طالب حسین رند، اور ایس معشوق شامل ہیں ۔
اس افسانوی مجموعے کی شروعات افسانہ
’’ گل‘‘ سے ہوتی ہے جس میں گل افشاں کا والد صرف اس وجہ سے گل افشاں کی شادی توڑ دیتا ہے کہ گل افشاں اور وہ اس کا ہونے والا شوہر ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے ۔اس کے بعد گل افشاں کا باپ اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف اپنے جیسے کسی جاہل انسان سے کر دیتا ہے۔موصوفہ نے اس افسانے میں ایک اہم اور سنجیدہ موضوع کی طرف توجہ دلائی ہے۔ہمارے معاشرے میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو گل افشاں کے والد کی طرح بظاہر صوم وصلواۃ کے پابند ہوتے ہیں لیکن اصل میں نہایت ہی جاہل، کم عقل اور حاسد ہوتے ہیں ۔جو محض اپنی انا کی خاطر اپنی بیٹیوں کی پڑھائی پر روک لگا دیتے ہیں اور ان کی مرضی کے خلاف ان کی شادی کر کے ان کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں ۔شعری مجموعے میں شامل افسانہ ’’ چاہت‘‘ بہت ہی شاندار افسانہ ہے۔افسانے میں ایک طرف سوتیلی ماں کی زیادتیوں کا بہت ہی عمدہ خاکہ کھینچا گیا ہے تو دوسری جانب چاہت اور شیراز کے محبت کی حسیں داستاں بھی پیش ہوئی ہے۔ کہانی میں یکے بعد دیگرے ڈرامائی موڈ آتے ہیں جن سے قاری نہ صرف چونک جاتا ہے بلکہ قاری میں ایک طرح کا تجسس بھی پیدا ہوتا ہے۔بلکہ کہیں کہیں پر تو قاری جذباتی بھی ہوجاتا ہے ۔افسانہ ’’اجنبی عورت‘‘ اگر چہ مختصر افسانہ ہے تاہم موصوفہ نے بہت خوبصورتی اور چابک دستی ہے یہ بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ ہمیں بغیر تحقیق کے کسی بھی انسان کے بارے میں اپنی رائے ہرگز قائم نہیں کر لینی چاہئے ورنہ ہمارے پاس کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ہے ۔یہ افسانہ پڑھ کر قاری اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہیں وہ کسی کے بارے میں کوئی رائے یا بد گمانی تو نہیں کرتا ہے۔دیکھا جائے تو یہ افسانہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔افسانہ ’’ رنجش ہی سہی‘‘ میں بھی حور اور شائق کی محبت کی داستان پیش ہوئی ہے۔ اور آخر پر حور کے سارے ارمان اس کے دل میں ہی رہتے ہیں جس سے قاری غمزدہ ہوتا ہے۔افسانہ ’’ڈاکیہ بابو ‘‘ میں اگر چہ کوئی خاص کہانی بیان نہیں ہوئی ہے ۔اور نہ ہی ایسا لگتا ہے کہ یہ افسانہ فنی تقاضوں پر پورا اترتا ہے تاہم ڈاکیہ بابو کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے کہ ڈاکیہ بابو کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے ۔افسانہ ’’ اپنوں کے زخم‘‘ میں جہاں مصنفہ نے فرقہ وارانہ تشدد کا ذکر کیا ہے وہاں مذہبی ہم آہنگی کی بھی بہترین مثال پیش کی ہے ۔جس سے ایک اطمینان اور سکون سا نصیب ہوتا ہے افسانے میں نسوانی درد و کرب کو بھی بہت خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے ۔’’ اپنوں میں اپنے کی تلاش ‘‘ ایک طویل کہانی پر مبنی افسانہ ہے۔لیکن کڑیوں سے کڑیاں اس طرح جوڑی گئیں ہیں کہ محبت اور اعتماد کا پہلو غالب آجاتا ہے اور طوالت کا اثر زائل ہوجاتا ہے ۔شہزاد بااختیار ہو کر بھی اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتا ہے ۔ اعتماد کی لاج رکھنے کے لیے وہ محبت کی قربانی دے دیتا ہے۔ اور یہ بات ثابت کرتا ہے کہ کسی کا جسم پانی سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ کسی کے اعتماد اور بھروسے کی لاج رکھی جائے ۔اس افسانوی مجموعے میں’’ دستک ‘‘نام کا افسانہ میں موجود ہے۔اس افسانے میں بھی ایک خوبصورت بلکہ حسبِ حال کہانی پیش ہوئی یے جس پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے ۔’’اب تو بچنا محال ہے ‘‘ نامی افسانے میں اگر چہ کچھ تکنیکی خامیوں کی نشان دہی کی جا سکتی ہے۔تاہم اس افسانے میں عورتوں کی نفسیات پر بہت خوبصورت سے چوٹ کی گئی ہے۔ افسانہ ’’حسن کی سحرانگیزیاں ‘‘نامی افسانے میں عورت کے چالباز اور شاطر چہرے کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔جہاں ایک مرد عورت کی خوبصورتی سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔ مزکورہ افسانے میں ایک شوہر کو اپنی بیوی کے سامنے سارے راز کھولنے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے ۔ اور وہ لُٹ جاتا ہے ۔ افسانہ ’’ سبق جو وقت پڑھا گیا وہ ‘‘ نامہ افسانے میں وقت کو بہترین استاد قرار دیا گیا ہے جو انسان کو کبھی نہ بھولنے والا سبق پڑھاتا ہے ۔اس افسانے میں قرآن اور احادیث کی دلائل سے یہ بات بتاتے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کو قناعت سے باز رہنا چاہیے اور اسراف ہر گز نہیں کرنا چاہئے ۔کیونکہ فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے ۔ اس افسانوی مجموعے میں چاہت کی پیاسی، بیٹیاں ، چہرے پہ چہرہ، قسمت کی زنجیر ، کتنے اچھے لوگ پرانے، امیدوں کے چراغ نام کے افسانے بھی شامل ہیں ۔منجملہ طور پر دیکھا جائے تو یہ افسانوی مجموعہ اردو افسانوی ادب میں ایک اضافہ ہے۔اس افسانوی مجموعے میں عورتوں کے دردوکرب کی نشاندہی، محبت کے خوبصورت قصے، قربانی، اللہ پر اعتماد، برداشت اور صبروتحمل جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔اس افسانوں مجموعے کے اکثر کردار اور کہانیاں گردونواح سے لی گئی ہیں جن پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔کہیں کہیں پر خامیاں ضرور ہیں لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ نیلوفر آنے والے وقت کی بہتر افسانہ نگار ثابت ہوسکتی ہیں ۔یہ ان کا چونکہ پہلا افسانوی مجموعہ ہے ۔لہٰذا بہتر بلکہ بہتری کی امید رکھی جاسکتی ہے ۔میں ذاتی طور پر انہیں اس افسانوی مجموعے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے
نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا ہے
[email protected]