کسی بھی علاقے کی ادبی تاریخ ،محض ادبی تاریخ نہیں ہوتی ،بلکہ اس علاقے کے سماجی و ثقافتی ،سیاسی و اخلاقی تغیرو تبدل کا آئینہ بھی ہوتی ہے ۔ کیونکہ ادبی تاریخ محض کسی علاقے میں کسی مخصوص زبان اور اس کے ادب کے آغاز و ارتقا کی داستان کی ترتیب و تنظیم کا ہی نام نہیں بلکہ اس زبان کے ادب اور ادیبوں پر مختلف اور متضاد عوامل کے ہمہ جہت اثرات کے تجزیہ و تحلیل سے بھی عبارت ہوتی ہے ۔ اسی لئے کسی بھی علاقہ ،(مثلاًًجموں و کشمیر) کی کسی بھی زبان (مثلاًًاردو)کی ادبی تاریخ رقم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس علاقہ (جموں و کشمیر)میں اس زبان (اردو) کی ابتداو ارتقا کے سماجی و سیاسی اور ثقافتی و لسانی اسباب، محرکات ،مدارج ، اور مزاج کا تجزیہ کیا جائے اور الگ الگ دور میں اس زبان (اردو ) کی لسانی ساخت اور اس کے ادب کے فنی و جمالیاتی امتیازات کا بھی تجزیاتی محاسبہ بھی ساتھ ساتھ کیا جاتا رہے ،اس کا سبب یہ ہے کہ ہر علاقہ کی اپنی الگ الگ سماجی، سیاسی، ثقافتی اور مذہبی و اخلاقی سچائیاں ہوتی ہیں ،عقائد اور مفروضات ہوتے ہیں اور یہ سارے عناصر زبان و ادب کو براہ راست متاثر کرتے ہیں ۔اسی طرح اکثر و بیشتر علاقے(مثلاً،جموں و کشمیر ) ’کثیر لسانی‘ کثیرمذہبی اور ’کثیر تہذیبی ‘ ہوتے ہیں ،ساتھ ہی سماجی و سیاسی حالات و کوائف بھی ہفت رنگ ہوتے ہیں ۔ اس لئے ہر زبان میں وقت اور حالات کے مطابق علاقائی بولیوں اور زبانوں کے الفاظ ، محاورات ، اصطلاحات اور ضرب الامثال وغیرہ داخل بھی ہوتے رہتے ہیں۔لہذا ادبی تاریخ لکھتے ہوئے ایسی تمام باریکیوں کی تحقیقی و تنقیدی توضیح و تعبیر لازمی ہے۔
لیکن ’’ادبی تاریخ ‘‘کیا ہے؟ اور ادبی تاریخ لکھنے کے اصول و شرائط کیا ہیں؟ اس کے بارے میں اردو ادب کی تاریخ لکھنے والے مصنفین نے اپنے اپنے زاوئے سے جو خیالات ظاہر کئے ہیں ۔ ان سے اختلاف یا اتفاق کی گنجائش تو بہر حال ہے ہی لیکن پھر بھی اتنی بات تو واضح ہو ہی جاتی ہے کہ ادبی تاریخ نگاری کے لئے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ مثلاًًکلیم الدین احمد یہ مانتے ہیں کہ،
’’وہی تاریخ کامیاب ہوگی جو اردو ادب کی ابتدا اور ترقی کے مختلف مدارج کو صحیح اور روشن طور پر واضح کر سکے اور اس کی ابتدا اور ترقی کے اسباب ،سیاسی ،تاریخی ،معاشرتی اور ادبی اسباب تفصیل کے ساتھ بیان کر سکے ۔۔۔جس میں ہر دور کے ان اثرات کا ذکر ہو جو اپنے اپنے نقش قدم چھوڑ گئے ہوں،جس میں مختلف ادوار ،مختلف شاعروںاور انشا ء پردازوں میں جو ربط ہے اسے اجاگر کیا جائے ۔‘‘
اردو تنقید پر ایک نظر ؛کلیم الدین احمد ۔ص۔۱۴۔بُک ایمپوریم۔سبزی باغ پٹنہ ۔۱۹۶۴ء۔
’’تاریخ ادب اردو‘‘ کے مصنف ڈاکٹر جمیل جالبی کے خیال میں ،’’اردو ادب کی تاریخ ‘ وہ آئینہ ہے جس میں ہم زبان اور اس زبان کے بولنے اور لکھنے والوں کی اجتماعی وتہذیبی روح کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ادب میں سارے فکری ،تہذیبی ،سیاسی ،معاشرتی اور لسانی عوامل ایک دوسرے میں پیوست ہو کر ایک وحدت، ایک اکائی بناتے ہیں اور تاریخ ادب ان سارے اثرات ،روایات،اور محرکات اور خیالات و رحجانات کا آئینہ ہوتی ہے ۔‘‘
تاریخ ادب اردو ؛ڈاکٹر جمیل جالبی ۔جلد دوم ۔ص۔۱۱،۱۲۔ناشر ۔مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۹۴ء
شعبہ اردو کشمیر یونیورسیٹی کے سابق صدر اور ’’کشمیر میں ادو ‘‘ کے مصنف ، مشہور ناقد،محقق اور ادبی مورخ پروفیسر عبد القادر سروری مرحوم نے بہت پہلے لکھا تھا،
’’ ۔۔۔۔۔ ادبی تاریخ لکھنے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ادبی مظاہرکو سیاسی ،معاشی،سماجی ، اور فنی ماحول میں پیش کرنے کی کوشش کریں ۔ہماری سیاسی تاریخ تو مدون ہے لیکن معاشی ، سماجی،اور فنی تاریخ اتنی مرتب نہیں ہے کہ اس کا مسالا ایک چھوٹی کتاب میں آسانی سے فراہم کیا جا سکے اور اس کے ساتھ تو ادبی مظاہر کی نشو ونما کو جوڑ کر سب کے عمل اور ردِعمل کو نمایاں کیا جاسکے۔‘‘
اردو کی ادبی تاریخ ؛عبد القادر سروری۔ص۔۵۔حیدر آباد ۔۱۹۵۸ء۔
ادبی تاریخ کے بارے میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ،
’’جب ہم کسی خاص ادبی دور کا تجزیہ کریں گے تو یہ تجزیہ محض ادب کے شعبہ تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ ہم اس دور کے سماجی علوم، اقتصادیات،دیومالا ،سیاسی تاریخ ،تہذیبی و ثقافتی عوامل ،فلسفہ اور نفسیات وغیرہ کی روشنی میں اس دور کا تجزیہ مکمل کریں گے۔ اس مطالعہ میں بنیادی اہمیت تو ادب ہی کو حاصل رہے گی مگر ادب پر اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل اور محرکات کا مطالعہ بھی ساتھ ساتھ کریں گے ۔اس طرح ہم ادبی تاریخ کو ایک وسیع تناظر میں دیکھ سکیں گے۔
اردو ادب کی تاریخ ؛ڈاکٹر تبسُم کاشمیری ۔ص۔۱۱،۱۲ سنگ میل پبلیکیشنزلاہور ۔۱۹۹۴ء۔
کلچرل اکادمی سری نگر کشمیر کے سابق سکریٹری ا ور مشہور و معروف محقق و ناقد علی جواد زیدی نے کسی مخصوص علاقے کی ادبی تاریخ لکھنے کے لئے اور باتوں کے علاوہ اس علاقہ کے مختلف ادبی و ثقافتی اداروں اور سیاسی سرگرمیوں کے جائزے پر بھی اصرار کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
’’مختلف سماجی اداروں، سیاسی تحریکوں اور ثقافتی تنظیموں اور بدلتی ہوئی جمالیاتی اور اور ادبی و علمی قدروں کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے یہ بھی دکھائے کہ اردو ادب میں افراد نے ان تحریکوں کا اثر کیسے قبول کیا ۔کون لوگ روایت سے چمٹے رہے ،کن لوگوں نے بغاوت کی۔ سماج کے ساتھ افراد کی نجی زندگی کے اتار چڑھائو کا جائزہ بھی لینے کی ضرور ت ہے ۔
مضمون ’’اردو ادب کی تایخ‘‘از۔علی جواد زیدی ،مشمولہ ۔جامعہ۔دہلی ۔جون۔۱۹۶۶ء۔ص۔۳۵
’ادبی تاریخ نگاری‘ کے حوالے سے اردو کے اور بھی کئی دانشوروں نے اپنے اپنے تصورات پیش کئے ہیں ۔مثلاآل احمد سرور کہتے ہیں
’’ادب کے اس (تاریخی) مطالعے کے لئے زبان کی خصوصیات کے علم کے علاوہ تاریخ اور تہذیب کا گہرا شعور اور سماج کے پیچ در پیچ رشتے کا علم اور جمالیات ،فلسفے اور’ معانی و بیان‘ کے ساتھ ان زبانوں کے ادب کا علم بھی ضروری ہے جن سے یہ زبان خاص طور پر متاثر ہوئی ہے ‘‘
مقدمہ ۔علی گڑھ ’’تاریخ ادب اردو ‘‘۔آل احمد سرور جلد اول ۔ص۔۱۹۔
پروفیسر محمد حسن کی رائے ہے کہ
’’ادبی تاریخ کو بیک وقت تہذیبی آدرش اور اہم خیالات کی تاریخ پیش کرنی ہوگی ۔پھر ان خیالات کی کیفیت اور ما ہئیت کی تلاش میں عمرانی اور تاریخی پس منظر واضح کرنا ہو گا ،اور ہمارے شعرا اور ادیبوں کی زندگیوں کے حالات اور ان کی شخصیت اور فن کا تجزیہ کرنا ہو گا،جنہوںنے ہمارے ادب پر عہد آفریں اثرات چھوڑے ہیں ۔‘‘
تاریخ ادب کے چند مسائل؛ڈاکٹر محمد حسن مشمولہ۔ ’ ادب لطیف‘ ۔لاہور۔ص ۔۶۔مئی۔۱۹۸۷
جمیل جالبی اور تبسم کاشمیری کی طرح پروفیسر وہاب اشرفی کا شمار بھی اردو ادب کے جدید تاریخ نگاروں میں ہوتا ہے۔انہوں نے مغرب میں ادبی تاریخ نگاری کے حوالے سے لکھا ہے،
’’مغربی ادبی مورخ کسی بھی فن کار کے بارے میں چاہے وہ اس کا ہم عصر ہی کیوں نہ ہو ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور انتخاب اس کے صوابدید پر منحصر ہوتاہے لیکن اردو میں ایسے مظاہر سے بچنے کی کوششیںکی جاتی ہیں ۔میرے خیال میں اس رحجان کو بدلنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے دبستانوں سے’ چِڑ‘ نہیں ہے لیکن کوئی ضروری نہیں کہ کسی فن کار کو کسی نہ کسی اسکول سے وابستہ کر کے ہی گفتگو کی جائے۔‘‘
تاریخ ادب اردو ؛ڈاکٹر وہاب اشرفی ۔جلد اول۔ص۔۲۰۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس۔۲۰۰۶ء
ادبی تاریخ نگاری سے متعلق مندرجہ بالامختلف اور کسی حد تک متضاد خیالات کا تجزیہ کریں تو چند باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں ،
( ۱) اردو (یا کسی بھی زبان) کی ادبی تاریخ لکھتے ہوئے سب سے پہلے اُس زبان کی ابتدا و ارتقا کا جائزہ ،سماجی، ثقافتی اور ثقافتی تناظرات کے ساتھ پیش کیا جاناچاہئے۔
(۲) ادبی تاریخ میں شاعروں(نثر نگاروں)کے سوانحی حالات شامل ہوں۔
(۳)ادبی تاریخ میں تحقیقی اور تنقیدی عناصر کا ہونا بھی لازمی ہے ۔
(۴) ادبی تا ریخمیں ہر دور کے فنی، جمالیاتی اور لسانی تغیرات کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔
(۵) ادبی تاریخ میں شاعروں/ادیبوں کے سماجی ،ثقافتی،معاشی ،مذہبی اور سیاسی شعور پر بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے ۔
(۶) ادبی تاریخ میں ،ادب اور ادیبوں /شاعروںپر روایات اور عصری رحجانات ، تحریکات اور نظریات کے اثرات کا جائزہ بھی پیش کیا جانا چاہئے ۔
(۷)ادبی تاریخ لکھنے والوں کو علم زبان و بیان ،تاریخ اور کلچر کے علاوہ معاشرہ کے غالب عقائد،مفروضات اور رسوم و رواج کی بھی گہری آگہی ہونی چاہئے ۔
(۸)ادبی تاریخ میں ،مختلف ادوار میں قائم ہونے والی انجمنوں(مثلا’انجمنِ پنجاب ،انجمن ترقی پسند مصنفین،حلقہ ارباب ذوق ، بزم سُخن جموں،بزم اردو ‘جموں و کشمیراورانجمن فروغ اردو ‘وغیرہ) ،اور تاریخ ساز تحریکات و رحجانات (مثلاًً،علی گڑھ تحریک ،ترقی پسند تحریک،رومانوی تحریک ،جدیدیت ا ور مابعد جدیدیت )وغیرہ کی خدمات ،خوبیوں اور خامیوں کو بھی نشان زد کرنا ضروری ہے ۔
(۹) کسی بھی زبان کی ادبی تاریخ،علاقائی حد بندیوں سے اوپر اُٹھ کر ملکی یا عالمی ادبی صورتحال کے پیش نظر بھی لکھی جا سکتی ہے۔
(۱۰) الگ الگ علاقوں(ملکوں،ریاستوں) کی بھی الگ الگ ادبی تاریخ لکھی جا سکتی ہے اور لکھی بھی گئی ہے مثلاًً’پنجاب میں اردو (محمود شیرانی)’کشمیر میں اردو (سروری)‘ دکن میں اردو(حامد حسن قادری ‘بنگال میں اردو ، جاوید نہال) اور ’بہار میں اردو ، (اختر اورینوی‘ وغیرہ ۔ اسی طرح ،برطانیہ میںاردو،جرمنی میںاردو ،کناڈا میں اردو ،’ٹرکی او’ر مصر میں اردو کے نام سے بھی ادبی تاریخیں لکھی جارہی ہیں۔
(۱۱)الگ الگ اصناف کو لے کر بھی ادبی تاریخیں لکھی جا سکتی ہیں،(لکھی گئی ہیں) مثلاًاردو نثر کا ارتقا( سیدہ جعفر) اردو شاعری کا مزاج (وزیر آغا) اردو نظم پر یورپی اثرات (حامدی کاشمیری )اردو فکشن کی تنقید(ارتضی کریم) برِصغیر میںاردو ناول(یوسف سرمست) برِ صغیر میں اردو افسانہ (خالد اشرف )’’صنفیات‘‘(قاضی افضال حسین) بہار میںاردو تنقید( اعجاز علی ارشد) جھار کھنڈ کی اردو کہانیاں (ڈاکٹر ش۔اختر )اردو غزل کی تنقید (عادل حیات)وغیرہ
(۱۲)ادوار (Period) کے حساب سے بھی ادبی تاریخ لکھی جا تی ہے ۔مثلاًًڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’تاریخ ادب اردو‘‘ میںبرصغیر میں اردو ادب کی تاریخ ،الگ الگ ادوار کے مطابق ہی چار جلدوں میں لکھی ہے مثلا جلد اول(قدیم دور)میں آغاز سے ۱۷۵۰ء۔ تک ، دوسری جلد اٹھا ر ہویں صدی کا احاطہ کرتی ہے۔تیسری جلد انیسویں کے زبان و ادب کو محیط ہے ۔چوتھی جلد میں بیسویں صدی میں اردو زبان و ادب کے تا ریخی سفر کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
(۱۳)مختلف ادوار میں ،شعری اور نثری اصناف کے موضوعات اور اسالیب اور ہئیت و تکنیک میں سامنے آنے والے تنوعات ،تجربات ، کے ،ادب ،ادیب اور قارئین پر مرتب ہونے والے اثرات کا تجزیہ بھی ادبی تاریخ کی اہمیت اور معنویت میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔
(۱۴)ادبی تاریخ لکھتے ہوئے ُ ، سُنی سنائی باتوں کے بجائے اصل ماخذات کی بنیاد پر ہی کوئی رائے قائم کی جانی چاہئے ۔
(۱۵) ادبی تاریخ میں ان قدیم غیر مطبوعہ یا نایاب مسودات، دواوین،کلیات اور تصنیفات کی نشاندہی کی جانی چاہئے جن کی از سر نو تدوین و اشاعت ،اردو زبان و ادب کے طالب علموں ، ریسرچ اسکالرں اور قارئین کے لئے کار آمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ مثلاً’’زبان اور علم زبان ، ’’دنیا ئے افسانہ‘‘ (سروری )گُلدستہ کشمیر (ہر گوپال خستہ)وغیرہ ا ب نایاب ہیں۔
(۱۶) ادبی تاریخ میں مفرس و معرب زبان اور شاعرانہ رنگین عبارت آرائی سے پرہیز کرتے ہوئے سادہ ،سلیس زبان اور عام فہم پُر تاثیر اسلوب اختیار کرنا چاہئے تاکہ تاریخ ادب کے نکات کی ترسیل قارئین تک آسانی سے ہو جائے۔
ادبی تاریخ نگاری کے مندرجہ بالااصول و شرائط کی پابندی کسی بھی ادبی تاریخ کو مثالی ہی نہیں معتبر بنانے کی بھی ضمانت ہو سکتی ہے ۔لیکن کسی بھی ادبی تاریخ میں ان سبھی اصو لوں ،تقاضوں اور شرائط کو برتنے کے لئے ادبی مورخ کو بھی میر حسن کی مثنوی سحر البیان کے شہزادہ بے نظیرؔ کی طرح معلو م اور نا معلوم جملہ علوم و فنون میںبے مثل مہارت کا حامل ہونا پڑے گا جو آج کی تاریخ میں عملاًً مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ پھر بھی اردو میں محمد حسین آزاد ،رام بابو سکسینہ، حافظ محمود شیرانی ،حامد حسن قادری ،عبد القادر سروری ،اور اختر اورینوی کے بعد ڈاکٹر جمیل جالبی ،تبسُم کاشمیر ی اور وہاب اشرفی وغیرہ جدید ادبی مورخین کی ادبی تاریخی تصنیفات میں ان میں سے بیشتر اصولوں اور شرائط کی پاس داری ملتی ہے ۔خاص طور پرڈاکٹر جمیل جالبی کی چار جلدوں پر مشتمل ’’تاریخ ادب اردو ‘‘کو سب سے معتبر ادبی تاریخ تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادبی تاریخ کی غرض و غایت ،اہمیت اور افادیت سے متعلق جمیل جالبی کا نظریہ جدید اور منطقی ہے ۔’’تاریخ ادب اردو کی تیسری جلد کے پیش لفظ میں جمیل جالبی نے لکھا ہے ،
’’تاریخ ادب‘ کو پڑھ کر آنے والی نسلیں ،جن میں آج کی نسل بھی شامل ہے اپنے تخلیقی رویوں اپنی قدروں ،اپنے کلچر،اپنے جمالیاتی معیارات پرنظر ثانی کر کے ،تخلیقی روح کو تازہ دم کر سکتے ہیں اور انہیں ،تاریخی شعور کے ساتھ ،تبدیل کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ادبی تا ریخ کا کام یہ نہیں کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ اس میں کیا نہیں ہے بلکہ یہ بتائے کہ فی الواقع اس میں کیا ہے۔ہمیں اپنے شاعروں ،ادیبوں اور فکشن نگاروں کا اپنے ادب اور روایت کے حوالے ہی سے مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ چوسرؔ،شیکسپئیرؔ،کالرجؔ ا ور گوئٹے ؔوغیرہ سے انہیں ملا کراپنی تہذیبی روح کو مسترد کرتے ہوئے کہا جائے کہ ا س میں تو وہ نہیں ہے جو شیکسپئیر اور گوئٹے کے ہا ملتا ہے ۔ہماری تہذیبی روح’’مغرب‘‘ کی تہذیبی روح سے مختلف ہے اس لئے ایک کے معیار سے دوسرے کو جانچا نہیں جا سکتا۔‘‘
تاریخ ادب اردو؛ڈاکٹر جمیل جالبی۔ جلد سوم ۔ص۔
(۱۶)ڈاکٹر جمیل جالبی نے اسی نظرئے کی بنا پر ’’تاریخ ادب اردو ‘‘ جیسا کارنامہ انجام د یا ہے جسے یقیناًادبی تاریخ نگاری ‘‘ کا شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔اس تاریخی تصنیف کی انفرادیت کیا ہے؟ اس کے بارے میں خود جمیل جالبی کا دعوی ہے کہ،
’’اس ’’تاریخ ‘‘میں، میںنے کوشش کی ہے کہ ادب کی تفہیم اور اس کا مطالعہ سماج،تہذیب کلچراور لسانی پہلئوں کے ساتھ، ایک اکائی کے طور پر ،کیاجائے ۔۔تاریخ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ بتائے کہ اس ادب میں کیا کیا ہوا اور کیوں ہوا ۔وہ ادب
کن کن راستوں سے گذر کر ’’آج‘‘ کے راستے پر آیا ہے۔ :ایضا۔ص۔۱۶
ریاست جموں و کشمیر ، میں اردو کے حوالے سے سے ابھی تک کوئی جامع ادبی تاریخ نہیں لکھی گئی ہے ۔برسوں پہلے پروفیسر عبد القادر سروری نے ’’کشمیر میں اردو ‘‘کے نام سے اس ریاست کی ایک بسیط ادبی تاریخ ۱۹۷۰ء۔میںمکمل کر لی تھی۔ جسے’’جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجیز۔سرینگر۔نے ریاست کے مشہور مورخ،نقاد اور دانشور محمد یوسف ٹینگ کی نظر ثانی اور نگرانی میں تین جلدوں میں بالترتیب ، ۸۴،۸۲، ۱۹۸۱ء میں شائع کیا تھا ۔حبیب کیفوی نے بھی ’’کشمیر میں اردو ‘‘ کے نام سے ہی جموں و کشمیرکی ایک ادبی تاریخ لکھی تھی جسے’’ مرکزی اردو بورڈ لاہور نے پہلی بار اپریل ۱۹۷۹ء۔ میں شائع کیا تھا ۔لیکن جہاں سروریؔ کی تاریخ میں۱۹۶۷ء۔تک ،اور حبیب کیفوی کی تصنیف میں ۱۹۷۸ء۔ تک کے ادب اور ادیبوں کی ہی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ۔اس طرح کم و بیش گذشتہ پچاس برسوں میں ریاست جموں و کشمیر کیسے کیسے سماجی و سیاسی ،ثقافتی و معاشی مد و جزر سے گذری ، اور ریاست کے اردو ادب اور ادیبوں نے، برِصغیر بلکہ عالمی سطح پر نمایاں ہونے والے ادبی رویوں،رحجانات،نظریات اور تحریکات کے اثرات کس حد تک قبول کئے ۔اور انہیں کس کس انداز میں برتا ؟اس کا جائزہ لینا ضروری ہے اسی احساس کے تحت میں نے ذاتی طور پر پانچ سال پہلے ’’جموں و کشمیر میں اردو ادب ‘‘ کی تاریخ رقم کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا اور اب اس کی پہلی جلد عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے۔ اِنشا ء۔اللہ۔
سابق صدر شعبہ اردو ۔کشمیر یونیورسیٹی