بشار ت بشیرؔ
پوری دنیا آج جدیدیت اور تہذیب نو کے نام پر ہلاکت خیز انجام کی جانب گامزن ہے۔ شر پوری قوت سے پنپ رہا ہے۔خیر خیر کے متلاشیوں کی تلاش میں ہے کہ وہ انسانیت کی پامالی، اخلاق کی درماندگی، روحانی اقدار کی بیخ کنی کی المناک داستانیں بہ چشم نم سنائے تو ہیں لیکن اصلاح وتطہیر کے تعلق سے اُن کی مساعی زیادہ جاندار کیوں نہیں، لازم ہے کہ انسانی سیرت کی تشکیل اور تہذیب تذکیف نفوس کی کاوشیں اجتماعی انداز میں ہوں اور تعلیم، تدریس وتبلیغ کے ہر محاذ سے اصلاح احوال کا کام ہو۔ ایسا بھی نہیں کہ سب کو سانپ سونکھ گیا ہو، بلکہ کام ہورہا ہے لیکن شر خوب پھل پھول رہا ہے اور اخلاق کے سوتے خشک ہوئے اصلاح کا عمل کمزور سا ہے۔
اُن اقوام و اُمم سابقہ کی تاریخ اُٹھاکر دیکھ لیجئے جن کا اپنے زمانے میں طوطی بولتا تھا۔چہار دانگ عالم میں جن کی عظمت و سطوت کا ڈنکا بج رہا تھا۔جن کے یہاں دودھ اور شہد کی نہر یں بہتی تھیں،جنہیں قدرت نے بے پناہ وسائل اور انعامات و احسانات سے نواز ا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ اُن کے اقبال کا سورج ڈوبنا تو دور کی بات اسے کبھی گہن لگنے کا بھی اندیشہ نہیں، لیکن چشم فلک پیر نے وہ دن بھی دیکھ لیا جب قدرت نے اُن اقوام کو حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے یا تو مٹا یا یا پھر ان کے اسلاف کو اپنے ماضی کی نوحہ خوانی کے لئے زندہ بچایا۔آخر یہ اُفتاد اُن پر پڑی کیوں؟اور وہ زینت طاق نسیاں بنے کیوں؟زیادہ تحقیق و تجس کی ضرورت نہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب اُن کے اخلاق کے سوتے خشک ہوگئے۔حصول لذت اُن کا مقصد زندگی ٹھہرا،حرص اُن کی گٹھی میں پڑگئی،فاحشات و منکرات کے دلدل میں پھنس گئے،رقص و سرور اور نغمہ سرائی اُن کی فطرت ثانیہ بن گئی۔شطرنج بازی اور نَے نوازی اُن کے یہاں حاصل زندگی ٹھہری ۔نفس امارہ سے مغلوب ہوکر جنسی تلذز کے حصول کے لئے انہوں نے حیوانیت تک کو بھی شرمشار کردیاتو پھر خدائے قہار کے کوڈے نے اُٹھ کر اُنہیں نشان عبرت بناکے رکھ دیا۔
ہاں!فطرت اپنا احوال نہیں بدلتی بلکہ اس قبیل کی تمام اقوام سر پھر ے لوگوں اور ڈھیٹ طبقا ت کو ہر زمین و زمان میں جھنجھوڑ نا، یہ اس کا ازل سے عمل رہا ہے،اللہ کے عذاب سے بے خبر لوگ اس قدر مد ہوش ہوتے ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں رہتا کہ اللہ کے اس قہر کی یورش ہمارے مکافات عمل کی پاداش میں دن ہو یا رات کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔قرآن نے صاف کہا ہے۔’’پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آجائے گی جبکہ وہ سوتے پڑے ہوں،یا انہیں اطمینان ہوگیا کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکا یک اُن پر دن کے وقت نہیں پڑے گا،جبکہ کھیل رہے ہوں۔‘‘[اعراف:۹۷،۹۶]
بہر حال آج جہاں ساری دنیا تہذیب نوی اور روشن خیالی کے نام پر دوبارہ خار زار جاہلیت کی جانب رواں و دواں ہے وہاں ہماری یہ وادی جنت بے نظیر بھی جس کی ساد گی ،شرافت،حیاداری اور دل و نگاہ کی پاکیز گی کی قسمیں کھائی جاتی تھیں آج اخلاقی انار کی اور بے راہ روی کے تند وتیز سیل رواں میں بہہ چکی ہے، وہ تمام بُرائیاں جو اقوام سابقہ کو تہہ و بالا کرگئیں ،ایک نئے حسن و حسین ناموں کے ساتھ ہمارے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہیں۔معاشرہ کی اخلاقی بنیادیں لرزہ بر اندام ہیں اور منکرات سے ہمارا یہ اجتماعی یا رانہ جانے کس تباہی سے دوچار کردے گا۔اللہ بچائے،کیونکہ ملت کے اجتماعی گناہوں کی سزا بھی بڑی سنگین تر ہوا کرتی ہے۔اور اس بات کو حکیم امت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے یوں بیا ن کیا ؎
فطرت ِ افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے
ولے کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
بہر حال انسانی اخلاقی اور روحانی اقدار کی اس پامالی اور شرم و حیا کی تدفین کے اس عمل میں ہم سب دانستہ و ناد انستہ شامل ہیں۔مخرب ا لاخلاق اور فحش لٹر یچر نے پہلے ہی اس معاشرے کے انکچرپنکچر ڈھیلے کردئے ہیں۔عکس و آواز کے ذرائع کے غلط استعمال نے بھی کیا گُل کھلا دئے ہیں عیاں ہے۔تعلیم و تعلم شیشہ گری کا فن ہے تو اس میدان میں سر گرم عمل کو چنگ سینٹروں اور دانشگاہوں کے اندر باہر کیا ہو رہا ہے،قلم و قرطاس لرزہ بر اندام ہے۔یہ ’’انسان ساز‘‘ادارے کیا کردار سازی کررہے ہیں۔ قریب سے دیکھنے کی ضرورت ہے،سیر گاہوں،چوک چوراہوں اور شادی و غمی کی تقاریب میں حیاو شرافت کی دھجیاں فضائے بسیط میں اُڑتی نظر آرہی ہیں۔سنجیدہ قسم کے لوگ کسی بھی دین د ھرم سے وابستہ ہوں اخلاق باختگی کے اس عمل کو دیکھ کر ماتم کناں ہیں۔اصل بات تو یہ ہے کہ انسان حیا کی صفت سے تہی دامن ہوا تو بس یہی انسانیت کی موت ہےاور اس جذبہ حیا کی کیا اہمیت ہے ۔ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں دیکھئے کہ’’جب تو حیا نہیں کرتا تو اب جو جی چاہے کرلے‘‘یعنی اب انسان شتر بے مہار ہے جب اور جہاں چاہے چر لے اور زندگی کی اس پٹری پر چلتے ہوئے اُس کی گاڑی کہاں اس پٹری سے اُتر کر کِس بھیانک حادثے کا شکار ہوجائے گی،بتایا نہیں جاسکتا۔آپؐ ہی کا ارشاد ہے کہ’’حیا کی صفت صرف بہتری لاتی ہے‘‘۔قدرتی امر ہے کہ جس شخص سے بھی یہ صفت رخصت ہوگئی اس سے کسی خیر کی امید رکھنا ہی عبث ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ فحاشی و عریانیت کا فروغ و پھیلائو تو شیطانی وجود کا مقصد اول ہے اور وہ ازل سے انسان کو عریاں و برہنہ دیکھنے کی تاک میں بیٹھا اس عمل پر اُسے اُکسانے کی زور آزمائی کررہا ہے، اس کی اس سوچ کی عکاسی قرآن نے سورہ اعراف کی ۲۰ ویں آیت میں صراحت کے ساتھ کی ہے۔اپنے آئین کی اس اہم شق کو عملانے میںوہ ہرزمین و زمن میں اپنے کار ندوں کی معاونت سے برسر جدوجہد ہے، وہ اپنے ہر مقصد کے حصول کے لئے بچوں اور نوجوانوں کو خام مال سمجھتا ہے اُنہی پر ڈورے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔کچے ذہن کی عمر ہوتی ہے جو بہک گیا پھرسنبھلنا مشکل بن جاتا ہے۔آج کا سچ تو یہی ہے کہ یہ نسل ذہن و دل کی پوری یکسوئی کے ساتھ اس راہ پر گامزن ہے اس کی اکثریت ایک انجانی منزل کی جانب محو سفر ہے۔دن کہاں گزرتے ہیں،والدین بے خبر ہیں اور راتوں کی جاگ جاگ کر عریاں فلم بینی کے ساتھ ساتھ فحش گانوں کی سماعت نے آنکھوں کے پیوٹوں کو متورم کردیا ہے اور والدین یہ سوچ کر دودھ اور انڈے کھلا رہے ہیںکہ صاحبزادہ شب بھر کتابوں کی دنیا میں گم رہا ہے لیکن آگے جاکر جب لاڈلے کے کرتوت سامنے آجاتے ہیں تو پھر آنکھیں تو کھلتی ہیں لیکن کف افسوس ملے بغیر کوئی دوسراراستہ بھی نظر نہیں آتا۔ اولاد کی اصلاح میں بے شک مدارس کا اہم رول ہے لیکن اس کی اولین درسگاہ تو ماں کی آغوش اور باپ کی سرپرستی ہی تو ہے۔وہ تربیت اولاد کے اصولوں سے واقف ہیں بھی؟اور وہ اصول کیا ہے ۔اللہ نے چاہا تو کبھی انہی کالموں میں اس نازک اور اہم موضوع پر بھی بات کریںگے۔
فی الوقت اپنی اس وادی میں ہورہے حیا سوز واقعات اور دیگر جگر خراش جرائم ہانے ہی قوم و ملت کی نیندیں اُڑا کے رکھدی ہیں۔اخلاق باختگی کے ریکارڈ اب اس حد تک مات ہورہے ہیں کہ اس تعلق سے نِت نئی اطلاعات اور رنجدہ انکشافات نے ہماری شرافت و سادگی کے بھرم کو ٹوٹ پھوٹ کر کے رکھ دیا ہے،ان واقعات و اطلاعات کی صحت،اعدادشمار کے بارے میں بحث اس وقت مقصود نہیں اور نہ ان واقعات کو پھر زیب صفحہ و قرطاس بنانا مطلوب ہے۔لیکن یہ بات تو مسلمہ ہے اور روز ہم بہ چشم سر خود معاشرے کی ڈانواڈول کشتی کو ہچکو لے کھاتے دیکھ رہے ہیںکہ اب ڈوبے کہ تب ڈوبے۔بے راہ روی اپنے جوبن پر ہے ،بدترین واقعات کی رونمائی قوم و ملت کی حمیت اور رگِ احساس کو کچوکے لگارہی ہے ،سماجی جرائم کا گراف بڑھتا جا رہا ہے،خود کشیوں کا عمل زوروں پر کیوں ہے وجہ جاننے سے بھی ہم ناآشنا نہیں!۔ایسی خرمستیاں ہورہی ہے کہ نوکِ قلم بھی ضبط تحریر میں لانے سے انکاری ہے اور بزبان حال گویا ہے ۔مت لکھویہ روح فرساداستان کہ گھن آرہی ہے اس کو دھر انے سے۔اس ساری صورت حال کے لئے کس کس کو دوشی اور کس کس کو بری ٹھہراو گے۔گند گی کے اس ڈھیر میں کیا کیا ہے،کھنگالنے سے کیا فائدہ ،اس کے اندر بہت کچھ ہے ،بتائیں گے تو بھانڈہ پھوٹ جائے گابھرم ٹوٹ جائے گا ،معاملہ اصل میں یوں ہے کہ ۔بات تو سچ ہے مگر بات رسوائی کی ہے۔
معاشرتی برائیوں کے اس دلدل میں نوجوان نسل بُری طرح پھنس چکی ہے۔عجب انداز ہیں اسکے،اس کی رفتار عجب،گفتار نرالی۔یہ نسل اپنے بدن کی زینت اور سجاوٹ میں مگن ہے۔لباس کی وضع قطع شرم و حیا کے دامن کو تار تار کرتی نظر آرہی ہے۔مجالس میں بیٹھنے اور بات کرنے کا سلیقہ بھی بھلا اسے اب کون سکھائے۔اس کی ہر اداخوب رُلاتی ہے۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اسے بہت پہلے دیکھ لیا تھا تو تب وہ زار و قطار رویا تھا ،اس کی حرکات نے اُسے مرغ نیم بسمل کی طرح تڑپادیا تھا،اس لئے اس نسل کے اس عمل پر اُس کی یہ چیخ آج بھی ذہن و دل کو تہہ و بال کرتی ہے۔
بے نصیب آمدزِ اولادِ غیور جاں بہ تن چُو مردہ در خاکِ گور
از حیا بے گانہ پیرانِ گہن نوجاناں چوں زنان مشغول تن
در دِل شاں آرزو ہا بے ثبات مردہ زاپند از بطون ِ امہات
دختراں اِو بُز لف خود اسیر شوخ چشم و خو نما و خردہ گیر
یعنی ’’غیرت مند اولاد سے محروم یہ قوم اس کے جسم میں روح قبر میں مر د ے کی طرح ہے۔اس قوم کے بوڑھے بزرگ شرم و حیا کی اقدار سے نا آشنا ہیں اور قوم کے نوجوان عورتوں کی طرح اپنے کو سجانے سنوار نے میں مست ہیں ان کے دلوں میں بس بے ثبات آرزووں اور ارمانوں کے ڈھیر ہیں وہ اپنی ماؤں سے مردہ حالت میں جنم لیتے ہیں۔ایمان و یقین حوصلہ یہ سب صفات مردہ ہوئی ہیں۔موت تو اصل میں یہی ہے۔
کہتے ہیں کہ اس قوم کی بیٹیاں بس اپنی زلفوں کی اسیر ہوچکی ہیںننگے سر گھومنا پھرنا ان کی عادت اپنی تہذیب سے ناواقف عریاں نگاہیں ،خود نمائی اور خوردہ گیر کی شکار ہیں‘‘۔اور فرماتے ہیں:
آہ قومے دِل زِ حق پر داختہ مرد و مرگ خویش رانشنا ختہ
یعنی ’’افسوس اِس قوم پر جس نے اپنا دِل اپنے مولائے حقیقی اُسکے دین اور کتاب و سنت سے فارغ کردیا اور اصل میں یہی اس قوم کی موت ہے‘‘۔بہر حال معاشرہ کی حالت زاروزبوں،حیاسوزی اور شرم وحیا کی تدفین کے حوالہ سے لکھی جارہی ان سطور کو قرآن حکیم کی ایک آیت کے ایک حصہ سے سمیٹنے کی کوشش کروں گا کہ اگر آیت کی روح کو سمجھ کر عملایا جائے تو پھر ایک صالح معاشرہ کی تعمیر میں زیادہ وقت درکار نہیں۔ارشاد ربانی ہے: ’’بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ۔خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی‘‘ [الانعام:۱۵۱] اس آیت کے لفظی معنیٰ کے ساتھ عصر حاضر کے ایک جید مفسرکا تشریحی نوٹ بھی مد نظر رہے اور پھر اس آئینے میں ہم اپنے کو دیکھنے اور سنوارنے کا اہتمام بھی کریں۔آیت کی تشریح میں رقم طرازہیں:’’نیکیوں اور بدیوں دونوں سے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کا اصل منبع انسان کا دل ہوتا ہے اس وجہ سے کوئی نیکی اس وقت تک فروغ نہیں پاتی ہے جب تک دل کے اندر اس کی جڑ مضبوط نہ ہو۔علیٰ ھذ القیاس کوئی برائی اس وقت تک انسان کی جان نہیں چھوڑتی جب تک دل کے اندر سے اس کی جڑا کھاڑ نہ دی جائے۔اگر کوئی بُرائی دل کے اندر ہے وہ کان آنکھ زبان فکر اور خیال کی راہ سے برا بر غذا حاصل کرکے موٹی ہوتی رہتی ہے،یہاں تک کہ وہ روحانی سرطان کی شکل اختیار کرتی ہے۔اگر اس کو زندگی میں ایک دن بھی فعلاً بروئے کار آنے کا موقع نہ ملا ہو ،تا ہم انسان کے قلب و دماغ پر اس کاتسلط ہوجاتا ہےکہ پھر تزکیہ و اصلاح کا کوئی سخت سے سخت آپریشن بھی اس پر کارگر نہیں ہوتا۔
(رابطہ۔7006055300)