شہر سے دور گاؤں میں ایک چھوٹے سے گھر میں ایک بزرگ رہتے تھے جو مذہبی عقائد،خوش اطوار ، اخلاق وعادات سے لبریز شخصیت کے مالک تھے۔ان کا ہر عمل ہر فرد کے لئے ایک دعوت تھاغرض انکے شب وروز عبادت و ریاضت کا مجموعہ ہوا کرتے تھے۔
گاؤں کی فضا میں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا۔چانداپنی روشنی کا دیا لئے ہوئے پورے گاؤں کی زمین پر چاندی کی چادر ڈھانپ رہا تھا اور بادلوں کی اٹکھیلیاںاس چادر پر اپنے تاثرات بکھیررہی تھی۔ قدرت کا یہ نظارہ دیکھتے ہی بنتا تھا۔
سامنے مکان کا دروازہ پوری طرح سے کھلا ہوا تھا گویا وہ کسی کا منتظر تھااور کسی بھی راہ گیر کو اپنی طرف راغب کرسکتاتھا۔ مکان سے نکلتی ہوئی ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی روشنی چاندنی رات میں بھلی معلوم ہورہی تھی۔آ دھی رات کے قریب ایک شخص کا گزر اس طرف ہوا۔خوبصورت ماحول سے یہ شخض بھی راہ چلتے اسکی طرف متوجہ ہوگیا۔ اسکا دل بھی اس مکان میں داخل ہونے کے لئے مچل گیااور ہمت کرکے وہ اس مکان میں کچھ گھبرایا و ہڑبڑایا ہواداخل ہوگیا۔ چراغ کی مدھم سی روشنی میں ایک بزرگ اپنے مطالعے میں مشغول تھے۔ مطالعے کے انہماک سے کسی کی آہٹ کا احساس تک نہ ہوا اور وہ مصروف مطالعہ ہی رہے۔کچھ دیر کے بعد فراغت ہوئی تو اپنے سامنے اس شخص کو حیرت زدہ پایا۔
’’ تم کون ہو بھائی؟‘‘
جواب ملا ’’ ایک مسافرہوں‘‘۔
’’سفر سے تھک گیا ہوں۔ کچھ آرام کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
بزرگ نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں پانی ہے جاؤ منھ ہاتھ دھولو تھکن کم ہوجائے گی۔
اسکے واپس آنے تک بزرگ نے دسترخوان سجالیا تھا تاکہ مسافرمہمان کی کچھ خاطر مدارت کی جاسکے۔ کھانا کھاتے وقت مسافر کانام پوچھاکچھ رسمی باتیں کیںاورآرام کے تقاضہ کو جانتے ہوئے مسافر کو بستر مہیا کرایا۔تھکن کی وجہ سے وہ شخض جلد ہی سو گیااور بزرگ اپنے مطالعے اور عبادت میں دیر رات تک مشغول رہے ۔
صبح کو آنکھ کھلی تب تک سورج اپنی روشنی بکھیر چکا تھا۔ چڑیاںصحن میں شور مچاتی اپنی آبادی و آزادی کا اعلان کر رہی تھی۔کھیت کھلیان کی طرف جاتے بیلوں کے گلوں کی گھنٹیاں اپنے میٹھے سروں سے گاؤں کی فضا میں سنگیت بکھیر رہی تھیں۔گاؤں کی عورتیں بچوں کو سنبھالے کنویں سے پانی بھرنے میں مشغول تھیں۔ایک عجیب سا خوش کن شور فضا میں گھل رہا تھا، جس سے وہ شخص پوری طرح لطف اندوز ہورہا تھا۔
باہر سے بزرگ کو آتا دیکھ حیرت زدہ رہ گیا۔ ہاتھوںکی تھیلیوں سے سبزیاں باہر جھانک رہی تھیں گویا وہ بھی ماحول سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔ خیر یہ تو روز کا معمول تھا۔بزرگ نے مسافر کا حال دریافت کیا اورناشتے کی پیش کش کی۔پھر کچھ دیر گپ شپ کے بعد دونوں گاؤں گھومنے نکل پڑے۔کھیت کھلیان دیکھے، ندی کے گھاٹ پر کچھ وقت گذارا۔بچوں کے مدرسے دیکھے۔راستے بھر بچوں، عورتوں اور بوڑھوں سے بزرگ نے باتیں کیں حال دریافت کئے اور اپنے گھر کو روانہ ہوگئے۔مسافربھی محظوظ ہوتا رہا۔بزرگ نے بتایا کہ انہیں دوپہر کے وقت ایک چھوٹے سے گھر میں کچھ بچوں کو پڑھانے کے لئے جانا ہے ۔اس لئے کھانے وغیرہ سے فارغ ہوجائیں۔ مسافر گھر پر ہی آرام کرتا رہا۔
بزرگ نے اجازت لی اور اپنے کام پر چل دئیے۔دو گھنٹوں کے بعد واپس آئے، چائے کا انتظام کیا اور مسافر کو لے کرچہل قدمی کے لئے نکل پڑے۔راستے میںاپنے علم و عمل کا مظاہرہ بھی کرتے رہے۔
شام ڈھلتے ہی اپنے گھر لوٹے، عبادت کے بعدایک کتاب لے کر مطالعے میں مصروف ہوگئے اس دوران گاؤں کے کچھ نوجوان اور بوڑھے بزرگ سے ملنے آئے۔وہ انہیں کتاب کے کچھ اسباق پڑھ کر سناتے اور انکا مطلب سمجھاتے اور اس کا تعلق سماج سے جوڑتے۔یہ شاید انکا روزآنہ کا معمول تھا۔یہ دیکھ مسافرزبر دست متاثر ہوا۔اسے پتہ ہی نہیں چلا تین دن کس طرح گزر گئے۔
تین دن کے بعد بزرگ نے پھرپوچھا۔’’تم کون ہو؟‘‘ ’’کہاں رہتے ہو؟‘‘ اور ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ مسافراچانک سوال سے گھبرا گیا۔لیکن سنبھلتے ہوئے جواب دیا ۔’’ایک غریب مسافر ہوں‘‘۔ ’’ کام کاج کی تلاش میں نکلا ہوں‘‘۔اگر آپ اجازت دیں تو کچھ دن آپ کے ساتھ گاؤں میں رہ لوں اور کچھ کام کاروبار مل جائے تو پھر واپس چلا جائوں۔
دن گزرتے رہے اب مسافر کو اپنے خوبصورت خواب سے باہر نکلنے کا احساس ہونے لگا۔ اب جاگتی آنکھوں سے اس نے گاؤں کی سیر کی۔ بزرگ کے گھر کو دیکھا۔ایک شام گھر واپس نہیں آیا۔ صبح ہوگئی، دوپہر پھر شام لیکن وہ واپس نہ آیا بزرگ نے سمجھ لیا کہ وہ کسی کاروبار میں مصروف اپنی راہ ہولیا ۔
کچھ دنوں کے بعد گاؤں میں ایک گاڑی آتی ہوئی نظر آئی، جس کے پیچھے گاؤں کے بچے شور مچاتے دوڑ رہے تھے۔معمول کے مطابق بزرگ اپنے طالب علموں کے ساتھ علمی گفتگو میں مصروف تھے۔گاڑی انکے پاس رکی جس میں سے پولس کے جوانوں کے ساتھ ایک شخص بھی اترا۔جسے بزرگ نے فوراً پہچان لیا۔ماجرا پوچھا۔پولس کے جوانوں نے بتایا کہ یہ ایک چور ہے اس کے پاس سے سونے کے کچھ قیمتی سامان ملے ہیں جو آپکے ہیں، جسکا اس نے اعتراف کیا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ بزرگ نے کہا ہاں یہ صحیح ہے،لیکن یہ چوری کے نہیں ہے بلکہ میں نے روانہ ہوتے وقت تحفہ کے طورپر دئیے تھے، اسلئے آپ برائے مہربانی اسے چھوڑ دیں۔ وہ آزاد ہوگیا۔ بزرگ پھر تعلیم و تعلم میں مصروف ہوگئے۔ فراغت کے بعد مسافر نے بزرگ کے پاؤں پکڑے رو رو کر اپنے گناہ کی معافی مانگی اور آئندہ صحیح اور نیک انسان بن کر زندگی گزارنے کا وعدہ کیااور نئے عزائم کے ساتھ اپنے راستے چلا گیا۔
پیلی حویلی چوک، کامٹی(ضلع ناگپور)
موبائل نمبر؛9595559073