مختار احمد قریشی
اخلاق وہ آئینہ ہے جس میں انسان کی اصل شناخت جھلکتی ہے۔ دنیا کی ہر مہذب قوم اور ہر الہامی دین نے اخلاق کی تعلیم دی ہے، لیکن اسلام نے اسے سب سے بلند مقام عطا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد بھی اخلاقِ حسنہ کو مکمل کرنا تھا۔ اچھے اخلاق کا حامل انسان اپنے الفاظ، رویے اور عمل سے دوسروں کو سکون، عزت اور بھروسہ دیتا ہے۔ معاشرے میں انصاف، ہمدردی، محبت، رواداری اور معافی جیسے جذبات پیدا کرنے کے پیچھے بھی اخلاق ہی کی روشنی ہوتی ہے۔ ایک خوش اخلاق انسان معاشرتی بگاڑ کو سدھار سکتا ہے، جبکہ بد اخلاقی معاشرے کو انتشار اور نفرت کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ گھر ہو یا دفتر، سکول ہو یا بازار، جہاں بھی نرمی، خلوص، دیانتداری اور برداشت ہوگی، وہاں عزت اور امن کا ماحول بنے گا۔ارشاد ِ ربانی ہے،’’ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ‘‘(سورہ القلم، آیت 4)۔ترجمہ:’’اور بے شک (اے نبی) آپ بلند اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔‘‘یہ آیت نبی کریمؐ کے اخلاق کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم قرار دیتی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اخلاق انسان کی شخصیت اور دین کا اہم حصہ ہے۔
حدیث شریف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ ‘‘(موطا امام مالک)ترجمہ:’’مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کر دوں۔‘‘یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا بنیادی مقصد ہی اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دینا تھا۔
اچھے اخلاق صرف عبادات یا تعلیمات کا حصہ نہیں بلکہ یہ روزمرہ کی زندگی کا بنیادی عنصر ہیں۔ یہ وہ دولت ہے جو نہ دولت مند کو خریدنی پڑتی ہے اور نہ غریب کو مانگنی پڑتی ہے، بلکہ یہ دل کا سچا نور ہے جو تربیت، دینی شعور اور خود احتسابی سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان کی کامیابی کا راز اس کی ظاہری حیثیت میں نہیںبلکہ اس کی بات چیت، معاملات، سلوک اور نیت میں چھپا ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی نسلوں کو صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ عمدہ اخلاق بھی دیں تو ہم ایک صالح اور مہذب معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ اچھے اخلاق سے انسان نہ صرف دنیا میں محبت اور احترام پاتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کا مستحق بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں حسنِ اخلاق کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
اچھے اخلاق صرف انفرادی شخصیت کو نہیں سنوارتے بلکہ اجتماعی طور پر ایک پُرامن اور مثالی معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ اگر معاشرے کا ہر فرد حسنِ اخلاق کا پیکر ہو تو وہاں جھگڑے، بدگمانی، حسد، بدعنوانی اور انتقام جیسے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ ایک خوش اخلاق انسان دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرتا ہے، اختلافات کو حسنِ سلوک سے حل کرتا ہے، اور دوسروں کے دُکھ درد کو اپنا سمجھ کر ان کی مدد کرتا ہے۔ ایسے افراد معاشرے میں پُل کا کردار ادا کرتے ہیں، نہ کہ دیوار کا۔ حسنِ اخلاق سماجی ہم آہنگی، باہمی احترام اور دلوں کے رشتوں کو جوڑنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
بدقسمتی سے آج کے دور میں مادہ پرستی، خودغرضی اور جلد بازی کے سبب اخلاقی اقدار زوال کا شکار ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد بھی اکثر حسنِ اخلاق سے محروم نظر آتے ہیں، کیونکہ اصل تعلیم وہ ہے جو کردار میں جھلکے۔ ہمیں اپنے بچوں کو صرف نصابی کتب ہی نہیں بلکہ اخلاقی سبق بھی سکھانے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں، گھروں اور دینی اداروں میں کردار سازی کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔ ہمیں خود بھی اپنے کردار پر نظر ڈالنی چاہیے کہ ہم دوسروں کے لیے باعثِ رحمت بن رہے ہیں یا زحمت؟ کیونکہ ایک مہذب، پُرامن اور ترقی یافتہ قوم کی بنیاد صرف علم نہیں بلکہ اچھے اخلاق ہیں۔
اخلاق کی خوبصورتی صرف زبان کی نرمی میں نہیں بلکہ نیت کی پاکیزگی، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے اور ہر حال میں عدل و انصاف کرنے میں ہے۔ دین اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم چھوٹوں پر شفقت کریں، بڑوں کا احترام کریں، ہمسایوں کے ساتھ بھلائی کریں اور غیبت، چغل خوری، جھوٹ اور تکبر سے بچیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں۔‘‘ (ترمذی)۔ اگر ہم سچے دل سے اسلامی تعلیمات پر عمل کریں تو نہ صرف ہمارے اخلاق سنوریں گے بلکہ دوسروں کے دلوں میں بھی محبت اور اعتماد جنم لے گا۔
اخلاق کی روشنی صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، بلکہ یہ انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ایک غیر مسلم بھی اگر خوش اخلاق ہے تو وہ معاشرے میں عزت پاتا ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان اگر بد اخلاق ہے تو وہ دین کا اصل پیغام لوگوں تک نہیں پہنچا سکتا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ تبلیغ صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ہوتی ہے اور سب سے مؤثر عمل حسنِ اخلاق ہے۔ آج کا انسان جس روحانی و معاشرتی بحران سے گزر رہا ہے، اس کا حل صرف حسنِ سلوک، صبر، بردباری اور اخلاقی تربیت میں پوشیدہ ہے۔
(مضمون نگار پیشہ سےایک اُستاد ہیں، ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001
[email protected]