موجودہ دنیا مادی ترقیوں کے میدانوں میں سر پٹ دوڑکر زمین کی گہرائیوں اور آسمان کی اونچائیوں کو برا بر مسخر کر رہی ہے مگر ا فسوس کہ تعمیر وترقی کی اسی فضاکے بین بین اخلاقی تنزل کے چلتے عالم انسانیت متواتر پستیوں اور ناہنجاریوں کی کھائیوں میں بھی لڑھکتی جارہی ہے۔ اس صورت احوال کے پس پردہ وجوہات کا ایک بڑا دفتر کارفرما ہے ۔ ریاست میں بھی اخلاقی افلاس کا گراف نت نئے جرائم کی صورت میں روبہ ترقی نظر آتا ہے ۔ یہاں دنیائے جرائم کی کر یہہ الصورت داستانیں فی الاصل لوگوں کا سکھ چین چھین رہی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اصلاح ِ احوال کی کسی کو فکر نہیں لگی ہے ۔ افسوس صد افسوس ! کشمیر جیسی چرب دست وتر دماغ قوم کی تقدیر میں یکے بعد دیگرے ایسی نحوستیں اور ایسے لاینحل بحران آ رہے ہیں جو ختم ہونے کانام نہیں لے رہے ۔ یہ سوچ سوچ کر آدمی کا سر چکراتاہے کہ آخر اس سرزمین کو کس کی بد نگاہی کھاگئی کہ سکون واطمینان کی نوازشیں یہاں کے لوگوں سے برابر روٹھی ہوئی ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف یہاں لاتعداد تعلیمی ادارے اور تربیتی مراکز تعلیم وتدریس کا اُجالا پھیلار ہے ہیں ، نئے نئے دارالعلوم معرضِ وجود میں آکر لوگوں کی اخلاقی نشو ونماکررہے ہیں، شرح خواندگی میں بھی مسلسل بڑھوتری ہورہی ہے ، مقامی طلبہ اور اسکالرس آل انڈیا سطح کے ساتھ ساتھ عالمی اُفق پر بھی مختلف شعبوں میں اپنی لاجواب کارکرگی سے قوم کا سینہ پھلا ئے جار ہے ہیں ، لیکن ان مثبت پیش رفتوں کے عل الرغم دوسری طرف ہماری صفوں میں جرائم کی بدنمائیاں روز افزوں پنپ ر ہی ہیں ۔ اس متضاد وناقابل ِفہم روش پر آدمی کا سر چکرانا قدرتی بات ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ صورت حال تمام اہل وطن کے لئے تازیانہ ٔ عبرت سے کم نہیںہے۔ سوال یہ ہے کہ قوم اور سماج میں اخلاقی ذلت و پستی کے پیچھے کو ن سے اسباب ومحرکات دخیل ہیں؟ اس بارے میں لوگ اگر چہ مختلف الرائے ہیں،البتہ اخلاق سوزیوں کے بُرے نتائج کا بھگتان ہم سب مشترکہ طور کر رہے ہیں۔ ان سے ہمارا شیش خانہ ٔ تہذیب پاش پاش ہو ر ہاہے ، تطہیر ذات اور اصلاح ِمعاشرہ کا جذبہ دن بہ دن مفقود ہو تا جا رہاہے، اخلاقی گراوٹوں کا حال یہ ہے کہ تعلیم وتعلم کا آدم گر انہ مشغلہ تک بھی سر تا پا کمرشلزائز ہوچکاہے ، جب کہ تعلیم کا ناقص وبے ہودہ تصور نسل ِ نو میں فرسٹیشن بڑھا تا جارہا ہے ، منشیات کا موذی مرض بھی الگ سے سماج میں اپنے بال وپر پھیلاتا جارہاہے ۔ سماجی زوال میںاگر کوئی کمی رہتی ہے تو اُسے بالی وڈ فلموں کا ننگا پن ، ماردھاڑ، جنسی ہیجان کی آگ بھڑکا نے والے چنل اور برہنہ فیشن پرستی جیسی جان لیوا وبائیں پورا کر رہی ہیں ۔اس ناگفتہ بہ فضا میںجرائم کا پروان چڑھنا اور پھلنا پھولنا فطری بات ہے۔ اس گھمبیر صورت حال کا انسداد و تدارک کیونکر کیاجائے،اس نقطے پر نہ صرف سب لوگوں کو فرداًفرداً سوچناہوگا۔ سول سوسائٹی اور سماجی اصلاح کاروں پر تو واقعی یہ ناقابل التواء ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو اخلاقی زبوں حالی کے دلدل سے نکال باہر کر نے میں اپنی تیر بہدف اور نتیجہ خیز اصلاحی کاوشیں کریں ۔ یقین مانئے اگر وہ اس فریضے کی انجام دہی سے بدستور تجاہل عارفا نہ برتتے رہیں تو بگاڑ کا خزاں کسی بھی طرح بناؤ کی بہاروں میں بدلا نہیں جا سکتا ۔ اس سلسلے میں اصلاح ِ احوال کی ایک موہوم سی اُمید پولیس فورس کے ڈنڈے سے وابستہ کی جاسکتی تھی مگر سالہاسال سے یہاں جاری قیامت خیزسیاسی ہلچل اور پُر تشد د واقعات کے چلتے اس محکمہ کی وساطت سے اخلاقی ضوابط کی خوراکیں پینا لوگوں کو شاید ہی قابل قبول ہوں۔ لہٰذاگھوم پھر کے گیند عوام کے پالے میں آتی ہے ۔ اس لئے عام تاثر یہی ہے کہ جب تک عوام الناس خود اخلاقیات کے گلستان کے مالی نہ بنیں، خود اپنی صفوں میں مجرمانہ کردار کے حامل عناصر کی حوصلہ شکنی نہ کریں، مخرب ِاخلاق خار زاروںکو اکھاڑنے میں بے لوث مصلحانہ جذبے کے ساتھ اپنا تعاون واشتراک نہ دیں ، ہم اخلاق باختگی کے جہنم ِزار سے کبھی نجات نہیں پاسکتے۔ یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ سماجی ریفارمروں کے پہلو بہ پہلو عام لوگوں کو بھی معاشرے میں اخلاقی معنوں میں قوم کی بگڑی بنانے کے لئے کمر ہمت باندھنا ہوگی اور اجتماعی گناہوں کے جہنم کو خلوص نیت سے بجھانا ہوگا جس کا ایندھن خاص کر ہماری نئی پود بن رہی ہے ۔ یاد رکھئے اگرسماج کے تئیں ہم سب اپنے اپنے محاذ پر ا پنی اہم ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو نے میں لیت لیل کریں گے تو جرائم اور گناہوں کی کوکھ سے نت نئے ناسور ہمیں فنائیت کے گھاٹ اُتار دیں گے اور خدشہ یہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے درمیان اخلاقی بے راہ روی کی ہلاکت خیز یاں دوام پائیں گی۔ لہٰذا من حیث العوام سب کو خوداپنے مفاد میں جاگنا ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب دلی میں پھول چہرہ سنجے چوپڑا ور گیتا چوپڑا کو رنگا اور بلا جیسے نامی گرامی بدمعاشوں نے اغواء کر کے وحشیانہ موت کے گھاٹ اُتاردیا تو عوام نے فوری طورحرکت میں آکر انسانیت کے ان مجرموں کو پولیس کے ہاتھوں پھا نسی کے پھندے تک لا نے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔ اسی طرح سال 2012ء رات کے اندھیرے میں دامنی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی ،پھر درندوں کی اس ٹولی نے جان بلب حالت میں اُسے سر راہ پھینک دیا، ا س کے ردعمل میں دلی کے غیرت مند عوام نے ا س وقت تک چین کی سانس نہ لی جب تک اُن شیطان صفت مجرموں کو ایک ایک کر کے قانون کے کٹہرے میں لا کھڑ انہ کیا ۔ حق یہ ہے کہ جب سماج اور قانون مجرموں کے سامنے خود سپردگی نہ کریں یاجرائم کے آگے بھیگی بلی نہ بنیں ، تو ایسی صورت میں عوام کی جیت اور مجرموں کی ہار پتھر کی لکیر کی مانند اٹل ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی سازشی ٹولہ یا مجرموں کا منظم گروہ کتنا بھی طاقت ور کیوں نہ ہو ، رائے عامہ کے غیر معمولی دباؤ کے آگے بالآخر بے بس وپسپا ہو کر رہ جاتاہے ۔ لہٰذا باشعور لوگوں کو ازخودہمچو قسم کے ناقابل معافی جرم کی منظم روک تھام کے لئے ایک پُرامن و غیر سیاسی اصلاحی مہم کی باگ ڈور سنبھالناہوگی ۔اس سے صاف لفظوں میں ہر طرح کے مجرموں کو پیغام جانا چاہیے کہ ان کے دن لد گئے ہیں۔ بصورت دیگر پیر واری کہلانے والی اس سرزمین میں جرائم کی نر سر یاں کسی نہ کسی بہا نے پروان چڑھتی رہیں گی اور لوگ ہاتھ مَلتے رہیں گے۔ حالات کی گھمبیرتا دیکھ کر قوم کا کوئی طبقہ کسی بھی حال میں اپنی اصلاحی ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا ۔ ساتھ ہی ساتھ جرائم کی موثر روک تھام کے لئے سرکار کو بھی سنجیدہ اقدامات کی ناگزیر ضرورت سے انکار کی مجال نہیں ہو سکتی ۔ ا ن سے بھی کماحقہ جرائم پیشہ افراد اور مجرم ٹولیوں کی حوصلہ شکنی ہونے میں دورائے نہیں۔ المختصر اگر سرکاری اور سماجی سطحوں پرسب لوگ اخلاقی اصلاح کے واضح لائحہ عمل کے تعلق سے اپنی اپنی مفوضہ ذمہ داریوں سے بھر پور ا نصاف کر تے ہیں تو ریاست میں قانون کی بالادستی اور اخلاقی احیائے تو کی ایک صحت مند فضا قائم ہو کر رہے گی ۔