بلا شبہ جس انسان کو بُرائی کے نقصان کا ادراک نہیں ہوتا، وہ خود بھی بُرائی کےنقصان کا شکار ہونے سے بچ نہیں پاتا، جو انسان بھلائی کا فائدہ معلوم نہیں کرتا ،وہ اس کے کرنے پر قادر نہیںہوتا اور جس انسان کا علم اُس کی عقل سے زیادہ ہوجاتا ہے وہ اُس کے لئے وبال ہوجاتا ہےکیونکہ انسان کی سرشت میں جتنی دانائی ہے ،اُس سے زیادہ حماقت بھی بھری ہوتی ہے۔بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان و یقین ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتّا بھی نہیں ہِِل سکتا،ہونا وہی ہے جو اللہ کا فیصلہ ہےاورنتیجہ وہی نکلے گا جو تقدیر میں لکھاہوا ہے، گویاہماری تمام جدوجہد اور تدابیر کا حاصل اس قدر ہے کہ ہمیں اسباب کا پابند کیا گیا ہے۔ بے شک ہمیں اللہ کی مرضی اور تقدیر میں درج فیصلوں کا کوئی علم نہیں ہے،تاہم تدبیر کے درجہ میں ہمیں ساری توانائی لگا دینی ہے اور پھر ہر معاملےمیںکامیابی کی عطائی کے لئےاللہ سے دعاگو رہنا ہے۔مگر جب ہم اپنے آپ پر نظر ڈالتے ہیںتو بالکل اس کے برعکس کرتے رہتے ہیں، سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں،کسی بھی کام میں اللہ پر اعتماد کا سہارا لیتےنہ ہی تقدیر کے فیصلے پر راضی ہوتے ہیںاور جب ناکامی ہاتھ آتی ہے تو ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں،یہاں تک کہ ہم اپنے اقدام کی صلاحیت تک کھو دیتے ہیںاور کسی کام کے نہیں رہ جاتے ہیں۔حق بات تو یہی ہے کہ ایک انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف کا درجہ دیا ہے ،کے لئے لازم ہےکہ ہر معاملے میں تن بہ رضائے الٰہی رہےتاکہ اُس کے ذہنی سکون اور دماغی سوچ میں بگاڑ پیدا نہ ہوجائے۔موجودہ دور میں ہم اپنے معاشرے میں اکثریہی دیکھ رہے ہیں کہ بیشتر لوگ تنہائی کے شکار ہوکر مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔نہ وہ نفسیاتی ڈاکٹروں سے پاس جاتے ہیں اور نہ اپنے علاج پر توجہ دیتے ہیں،کئی تو اپنے معاشی حالات اور تنگ دستی کے پیش نظر ایسا نہیں کرپاتے جبکہ کئی اپنے اولاد، اپنے والدین یا اپنےرشتہ داروں کی بے رُخی یا غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں بالآخر ایسے زیادہ تر مریض اپنی زندگی سے عاجز آ کر خود کشی بھی کرلیتے ہیں۔موجودہ دور میںایک اور سبب ہماری زندگی میں ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہواعمل دخل بھی ہے، اس سے سہولتیں تو بے پناہ حاصل ہوتی ہیں، لیکن بیشتر لوگ اپنی ذہنی صلاحیتوں سے زیادہ اسی پر اعتماد کرنے لگے ہیں، جس سے اُن کی ذہنی صلاحیت کے ساتھ ساتھ جسمانی تندرستی پر بھی بڑابُرا اثر پڑتا ہے اور وہ موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، ٹیب اور دوسرے آلات کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں اُن کی آنکھوںکی نیندتو چھِن چکی ہےبلکہ اُن پر ڈالے گئے ہزاروں اور اق کی دید و شنید سے جسمانی اعصاب پر بھی منفی اثر پڑچکا ہے گویاجدید ٹیکنالوجی نےاُن کے جذبات و خیالات اور طرز عمل کو اس قدر اور اس طرح متاثر کیا ہے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار اور انتشار کا شکار ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز کے استعمال کی ایک حد ہوتی ہےاور جب کوئی حد سے گذر جاتا ہے تو اُس کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔بے شک صحت مند جسم اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، البتہ مضبوط اور صحت مند جسم کے ساتھ ذہنی صحت نہ ہو تو زندگی کی معنویت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو جسمانی اعتبار سے انتہائی توانااور تر و تازہ ہوتے ہیں، لیکن حرکتیں پاگلوں جیسی کرتے ہیں، ان کے چہرے،چال چلن اور حرکات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہیں،بات کرتے کرتے بھول جانا، موضوع پر بات کرتے کرتے بغیر جوڑ کی باتیں شروع کر دینا،یاداشت ساتھ نہ دینے پر پیشانی اور زمین پر زور سے ہاتھ مارنا، یہ سب غیر صحت مند ذہن کی علامتیں ہیں۔جس کے باعث اُن میں کام کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُن اسباب ووجوہات پر غور کریں، جن سے نہ صرف اُن کی بلکہ ہماری اپنی ذہنی صحت مندی بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ ذہنی صحت مندی کو نقصان پہنچانے والی چیزمنفی سوچ اور فکر ہے، دوسروں کے منفی رویے سے بھی ذہنی صحت متاثر کرتی ہے، اس لئے بہتر ہےکہ جب کبھی دوسروں کا منفی رویے سامنے آئے،تو اسے اللہ کے حکم کے مطابق اچھے طریقے سے ٹالنے کی کوشش کریںاور اپنے ذہن و دماغ کو منفی افکار و خیالات سے محفوظ رکھیں۔ مثبت سوچ کے حامل افراد میں ذہنی امراض کی شرح بہت کم ہوتی ہے، اس لیے مثبت سوچ کو اپنائیں، خوش رہنا سیکھیں،اچھی کتابوں کے مطالعہ کی عادت ڈالیںاور اللہ کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔