کشمیر کی سرزمین اولیاء کرامؑ ، علمائے دین اور مفکرین اسلام ، صوفیائے کرام اور شعرائے اسلام سے معمور خطہ ہے ۔ ا سکا ثبوت یہ ہے کہ یہاں لگ بھگ ہر علاقے میں کسی نہ کسی ولی کامل یا بزرگ ہستی کی آرام گاہ موجود ہے ۔ ان بزرگوں کی ہی بدولت اسلامی اور اخلاقی تعلیم سے یہاں کے مسلمان آراستہ ہوئے ، تا ہنوز ان کی تعلیمات اور شخصیات ہی کا مجموعی اثر ہے کہ یہاں اب بھی مسلمانانہ تشخص جوں توں قائم ہے ۔ مقام شکرہے کہ یہاںہر سو بڑی بڑی اسلامی درسگاہیں ، مدرسے اور دارالعلوم قائم ہیں لیکن بدقسمتی سے سرکاری اسکول، کالج ، یونیورسٹی بشمول پرائیویٹ اسکول درسِ اخلاقیات سے تہی دامن ہیں اور بے حیائی عام ہورہی ہے ۔ بے شک بعض والدین اپنے بچوں بچیوں کو ڈانٹے رہتے ہیں کہ ان میں شرم و حیاء کا فقدان ہے لیکن یہی والدین ان کی اصلاح کے لئے کوئی حرکت نہیں کرتے ۔ نتیجہ یہ کہ ہم میں یورپی تہذیب اور یہودیوں کے طور طریقے فروغ پارہے ہیں ۔ حالانکہ رسول رحمت ﷺ کی حدیث مبارک ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے ، روز محشر اس کو اسی قوم میں سے اُٹھایا جائے گا ۔ اس لئے جو یہودی طریقہ اختیار کرے گا یا کوئی اور طریقہ جو مسلمانوں کا نہ ہو کل وہ اسی قوم سے اٹھایا جائے گا ۔ زیادہ تروالدین کی ناعاقبت اندیشی کے ساتھ ساتھ سرکاری تعلیمی نصاب میں اخلاقیات کی عدم موجودگی بھی ہمارے سیرت وکردار میں تباہی کا سبب ہے ۔ اسی سنگین صورت حال پر اقبالؒ نے کہا تھا ؎
گلا تو گھونٹ دیا اہل ِمدرسہ نے تیر
کہاں سے آئے صدا اب لا الٰہ الااللہ
افسوس کہ ہمارے علماء کرام اخلاقی تعمیر نو کے بجائے صرف مسلکی اور فروعی اختلافات کی بھٹیاں گرمارہے ہیں جب کہ معاشرے کو درپیش اصل مسائل کی طرف ان کاکوئی دھیان ہی نہیں جاتا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں کی اکثر پارکیں عیاشی اور بے حیائی کے اڈے بنی ہوئی ہیں ۔ کیا کوئی عالم وخطیب فکر مند ہے کہ پارک کلچر میں کھلے عام بے حیائی کا مظاہرہ ہمیں کس طرح بہ حیثیت مسلمان ختم کر کے رہے گا؟ اس سلسلے کو روکنے کے لئے سرکاری ذمہ داراں کے ساتھ ساتھ یہاں کے ذِی حس لوگوں سے مودبانہ التماس ہے کہ وہ پارک کلچرمیں پنپ رہی بے حیائی ، بے شرمی اور عریانیت جیسی وباؤں پہ روک لگانے کے لئے فوراً اصلاحی اقدامات کریں۔ دُکھ اور افسوس کی بات ہے کہ یہاںخون ریزیاں، سیلابیں ، طوفان ، زلزلے، مہلک بیماریاں جاری ہیں،یہ اصلاًقہر الہٰی کے مظاہرے ہیں مگر ہم ہیں کہ ان کے پیچھے کارفرما انسانیت سے دوری ، بے حیائی ، بے شرمی اور عریانی جیسے روگوںکا سدباب نہیں کر تے۔اگر ہم تمام خرابیوں سے دامن چھڑا نا چاہتے ہیں تو ہمیں نسلِ نو کی اصلاحی تعلیم وتربیت سے غفلت ترک کرنا ہوگی اور ہمیں قوم کے اندر غیرت وحمیت پیدا کر نے والا نظام تعلیم اپنا ناہوگا۔ آخر پروالدین، اساتذہ اور جوان لڑکوں اور لڑکیوں سے پُر خلوص گزارش ہے کہ نہ صرف اپنے آپ کو ابلیسی جال سے بچائیں بلکہ اس ’ پیرواری‘ کا ہر حال میںپاس ولحاظ رکھیں اور نسلی مسلمان کے ساتھ ساتھ اصلی مسلمان ہونے کا واضح ثبوت دیں ۔ اللہ ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے ۔ آمین۔
ای ۔میل [email protected]