اخلاقی انحطاط تیزی کے ساتھ ہمارے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔بے راہ روی ،بد اخلاقی ،بے ایمانی ،رشوت خوری نے لوگوں سے غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ اجتماعی حِس نام کی چیز عنقا ہوگئی ہے اور لوگوں کی اکثر یت اس صورتحال سے بالکل بے پرواہ ہوگئی ہے۔گویا ہمارے سماج کا تانا بانا اس حد تک بکھر گیا کہ اب ہماری انفرادی شناخت کو بھی خطرہ لاحق ہوا ہے ۔ اگر چہ اس کیلئے کئی عوامل کارفرما ہیں تاہم عموماً نوجوان نسل کی بے حسی اور غفلت شعاری کو ہی اس کی بنیادی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیا صرف ہماری نوجوان نسل ہی اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوگئی ہے ؟اس سوال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ دعویٰ حقیقت سے بعید نظر آرہا ہے ۔بے شک نوجوان نسل جس راستے پر گامزن ہے، اس کی منزل اخلاقی اعتبار سے تباہی کے سوا کچھ اور نہیں لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ نوجوان نسل کی اس حالت کیلئے ہمارا پورا معاشرہ ذمہ دار ہے ۔کیونکہ سماج کی بنیاد افراد پرہے اور افراد کی پرورش سب سے پہلے گھر میں ہوتی ہے ۔اگر گھر کا ماحول صحیح ہو توبچے کی صحیح انداز میں پرداخت ہونا قدرتی امر ہے ۔اس زاویہ سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے گھروں کے اندر وہ ماحول نہیں رہا ہے جہاں بچے کو مثالی انسان بننے کا درس دیا جاتا، حالانکہ ماضی قریب میں یہی گھرانے اخلاقی قدروں سے انسانی وسائل کی تشکیل کرتے تھے اور ہر لحاظ سے مہذب اورجرائم سے پاک سماج قائم تھا ،جبکہ اُن دنوں تعلیم اور تعلّم اورعلم وآگہی کو اتنافراوانی نہیں تھی جتنی آج دیکھنے کومل رہی ہے ۔ اخلاقی عروج کا یہ عالم تھا کہ بھیانک قسم کے جرائم ، جو آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں، سے کشمیری عوام نا آشنا تھے ۔اب جبکہ علم و آگہی بھی ہے اورتعلیم بھی عام ہے لیکن سماج کا حال بے حال ہے ۔نہ ماضی کی وہ آن رہی نہ شان بلکہ اب ہمارے کرتوت ایسے ہیںکہ شرم سے سر جھک جاتے ہیں ۔گرد وپیش کی حالت دیکھ کر زبان گنگ ہوجاتی ہے اور دِل ہِل جاتے ہیں۔ مگر کیا یہی بے حسی اور خاموشی اس کا علاج ہے؟ذرائع ابلاغ میں اس بات کا تذکرہ عموماً ہوتارہتا ہے کہ وادیٔ کشمیر کے نوجوان نسل کی بگڑتی صورت حال تشویش ناک ہے اور وہ مختلف بُرائیوں و خرابیوں کی نذر ہوکر آوارگی ،اخلاقی بے راہ روی ، منشیات کی عادی اور جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے،جس کے نتیجہ میں معاشرے کا ایک بڑا حصہ تباہ و بُرباد ہورہا ہے۔ظاہر ہے کہ معاشرے کا بیشتر حصہ اخلاقی تنزل اور انحطاط کے گردِ آب میں پھنس چکا ہے ۔ اگر اس کا فی الفور مثبت علاج و تدارک نہ کیا جائے تو جوافسوسناک و شرمناک نتائج آج تک برآمد ہوچکے ہیں ،اُن سے بھی زیادہ بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔اس نازک مرحلہ پر ہماری خاموشی کا مطلب ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو ورثے میں ایک ایسا سماج دینےجارہے ہیں جس کو کسی بھی طرح منظم اور مہذب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔کیایہ ستم ظریفی نہیں کہ اِس وقت بھی سماج کے تئیں ہمیں اپنی ذمہ داریوںکا احساس نہیں ہورہا ہے ۔ وقفہ وقفہ کے بعد پیش آمدہ اخلاق سوز واقعات نے توباشعور حلقہ کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے،جس کا تقاضا تھا کہ ہم غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر اپنے دل و دماغ پر حائل مادی پردوں کو ہٹا تے، سماج کو بکھرنے اور اپنے کل کو اس دلدل سے نکالنے کی سبیل پیدا کرنے کیلئے عملی طورمیدان میں کود پڑتے، لیکن ہمارا ضمیر اس حد تک خفتہ ہوچکا ہے کہ اب کسی کی بھی آہ و فغاں ہمارے کانوں تک نہیںپہنچ پاتی۔سیول سوسائٹی اور دیگر رفاعی ادارے لب کشائی کیلئے تیار نہیں اور مذہبی جماعتیں معمول کی وعظ خوانی سے فارغ ہونے کا نام نہیں لیتیں۔حالات کا تقاضا ہے کہ دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے اور حکومت پر تکیہ کرنے کی بجائے ہم خود بیدار ہوجائیں اور اپنی شناخت کے تحفظ کیلئے اس مسئلہ پر مادی دنیا کی تگ ودو سے چند لمحے نکال کرغور وفکرکریں کہ سماج کی موجودہ شرمناک حالت کیلئے کون سے عوامل ذمہ دار ہیں اور طوفان بدتمیزی کے بھنور میں پھنسی کشتی کو کیسے کنارے لگایا جاسکتا ہے ۔اس ضمن میں سیاسی اور نظریاتی اختلافات سے اوپر اٹھ کر ایک متحرک اور موثر آگاہی اور انتباہی مہم چلانے کی ضرورت ہے جس میں سماج کے ہر طبقے کی شمولیت لازمی ہے کیونکہ مسئلہ پورے سماج کودرپیش ہے ۔اس کے علاوہ اصلاحی عمل گھروں سے شروع کرکے مدرسوں اور دیگر تعلیمی اداروں اور معلّمین کا پوسٹ مارٹم بھی ناگزیر بن چکا ہے ۔اگر گھر اور مدارس بہتر ہوں تواعلیٰ اخلاقی قدروں کے حامل سماج کی تشکیل یقینی ہے ۔