مختار احمد قریشی
اسلامی اخلاقیات وہ اصول و ضوابط ہیں جو ایک مسلمان کی زندگی کے ہر پہلو کو سنوارتے ہیں۔یہ اخلاقیات قرآن مجید اور سنت نبویؐ پر مبنی ہیں، جو نہ صرف فرد کے باطنی کردار کو مضبوط کرتی ہیں بلکہ معاشرتی امن و استحکام کا باعث بنتی ہیں۔اسلام میں کردار سازی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ایک مسلمان کا کردار اُس کے ایمان کی عکاسی کرتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں سچائی کو بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ سچ بولنا نہ صرف ایک فضیلت ہے بلکہ یہ ایمان کی علامت بھی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘ (التوبہ: ۱۱۹)۔امانتداری بھی اسلامی اخلاقیات کا ایک اہم جزو ہے۔ ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ دیانتداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ عدل و انصاف اسلام کی روح ہے۔ انصاف صرف عدالتوں تک محدود نہیں بلکہ ہر معاملے میں برابری اور حق تلفی سے بچنا ضروری ہے۔ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ معاشرتی تعلقات میں بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے۔ والدین، بہن بھائی، ہمسایوں اور اجنبیوں کے ساتھ حسن سلوک برتنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔اسلامی معاشرت میں کردار سازی کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد اپنے کردار کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج
کے ساتھ ساتھ معاملات میں سچائی، گفتگو میں صداقت، اور برتاؤ میں امانتداری ضروری ہے۔مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں نرمی، محبت، عاجزی، اور صبر کا مظاہرہ کرے۔
اسلامی اخلاقیات کا مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں ہر فرد دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے، ظلم و زیادتی سے بچےاور عدل و انصاف کا علمبردار بنے۔کردار سازی کا عمل انسان کی ابتدائی زندگی سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی اخلاقی اقدار سکھانی چاہیے تاکہ بڑے ہو کر وہ معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔
اسلامی اخلاقیات کا ایک بنیادی پہلو سچائی ہے۔ سچائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور جھوٹ کو نفاق کی علامت سمجھا گیا ہے۔سچائی کا مفہوم صرف باتوں تک محدود نہیں بلکہ عمل میں بھی سچائی ضروری ہے۔ تجارتی معاملات، وعدوں کی پاسداری اور ذاتی زندگی میں بھی سچائی کو اپنانا لازمی ہے۔
امانتداری بھی اسلامی کردار کا ایک لازمی جزو ہے۔ امانت کا مطلب صرف مالی امانت ہی نہیں بلکہ قول و فعل کی امانتداری بھی شامل ہے۔ ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کو امانت سمجھ کر طلبہ تک پہنچائے، ایک والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کو ایک امانت سمجھیں۔عدل و انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کا حق دیا جائے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، اپنا ہو یا پرایا،جانکار ہو یا اجنبی ۔معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف کا عملی مظاہرہ تب ہوتا ہے جب انسان ذاتی مفاد کو ایک طرف رکھ کر حق اور سچ کی حمایت کرتا ہے۔ ایک قاضی کے لیے لازم ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے، ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ طلبہ کے ساتھ مساوی سلوک کرے اور ایک والدین کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے پیش آئیں۔اسلامی معاشرے میں امانتداری اور سچائی کے ساتھ عدل و انصاف کو نافذ کرنے سے امن و سکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے حقوق کے حوالے سے مطمئن ہوتا ہے اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔جب ایک معاشرہ عدل و انصاف، سچائی اور امانتداری کے اصولوں پر قائم ہو تو وہاں ترقی، خوشحالی اور برکت آتی ہے۔اسلامی اخلاقیات کا حقیقی امتحان ہمارے روزمرہ کے اعمال میں ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ گھر، کام کی جگہ اور معاشرتی زندگی میں اعلیٰ اخلاقیات کا مظاہرہ کرے۔ یہ نہ صرف اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے بلکہ معاشرتی فلاح و بہبود کا سبب بھی بنتا ہے۔
اسلامی اخلاقیات کا حقیقی امتحان ہمارے روزمرہ کے اعمال میں ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ گھر، کام کی جگہ اور معاشرتی زندگی میں اعلیٰ اخلاقیات کا مظاہرہ کرے۔ یہ نہ صرف اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے بلکہ معاشرتی فلاح و بہبود کا سبب بھی بنتا ہے۔سچائی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ زبان سے سچ بولا جائے، بلکہ ہر عمل میں سچائی نظر آنی چاہیے۔ کاروبار میں ناپ تول پورا کرنا، وعدہ خلافی سے بچنا اور جھوٹے بہانوں سے پرہیز کرنا سچائی کا عملی مظاہرہ ہے۔تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو ایمانداری کے ساتھ علم دیں اور امتحانات میں نقل سے دور رہنے کی تعلیم دیں۔
امانتداری کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ یہ مالی امانت، قول و فعل کی امانت، اور حتیٰ کہ وقت کی امانت تک پھیلتا ہے۔ایک سرکاری ملازم اگر اپنی ڈیوٹی کے وقت میں امانتداری سے کام کرتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی نیکی کر رہا ہے۔گھریلو زندگی میں بھی امانتداری ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کو ایک امانت سمجھیں اور انہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق پروان چڑھائیں۔ایک استاد کو چاہیے کہ وہ تمام طلبہ کے ساتھ یکساں سلوک کرے، ان کے درجات یا حیثیت کے مطابق امتیاز نہ برتے۔والدین کو اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرنا چاہیے، تاکہ کوئی بچہ محرومی کا شکار نہ ہو۔اگر ایک معاشرہ سچائی، امانتداری اور عدل و انصاف کو اپنائے، وہاں امن و امان قائم رہتا ہے۔لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور احترام بڑھتا ہے۔غربت، بے روزگاری اور جرائم کی شرح میں کمی آتی ہے۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]