سورۃ القلم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور بے شک آپ اخلاق حسنہ کے اعلیٰ پیمانے پر فائز ہیں۔‘‘۔۔۔۔جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا ،وہ آپؐ کے اخلاق کو دیکھ کر آپؐ پر فریفتہ ہوگیا ۔۔۔۔خُلق کے لغوی معنی ہیںعادت اور خصلت اور حسن خلق سے مراد خوش اخلاقی ،مروت ،اچھا برتائو ،اچھا رویہ اور اچھے اخلاق ہیں۔۔۔۔اخلاق کی دو قسمیں ہیں : ایک عام اخلاق اور دوسرے اعلیٰ اخلاق۔۔۔۔۔اخلاق کی معمولی قسم یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق جوابی اخلاق ہو کہ جو مجھ سے جیسا کرے گا میں اس کے ساتھ ویسا کروں گا ۔۔۔۔یعنی جو شخص اس سے کٹے ،وہ بھی اس سے کٹ جائے ،جو شخص اس پر ظلم کرے ،وہ بھی اس پر ظلم کرے گا ،جو شخص اس کے ساتھ برائی کرے ،وہ بھی اس کے لئے بُرا بن جائے ۔یہ عام اخلاق ہے ۔۔۔۔اس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویے کی پرواہ کئے بغیر اپنا رویہ متعین کرے۔۔۔۔اس کا اخلاق اصولی ہو نہ کہ جوابی۔۔۔۔اور اس اخلاق کو وہ ہر جگہ برتے ،خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ ،وہ جوڑنے والا ہو ،حتیٰ کہ اس کے ساتھ بھی جو اس سے بُرا سلوک کرے اور وہ نظر انداز کرنے والا ہو،حتیٰ کہ اس سے بھی جو اس پر ظلم کرتا ہو ۔۔۔۔۔۔
حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم لوگ امعہ نہ بنو کہ یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور لوگ بُرا کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ بُرا کریں گے ،بلکہ اپنے آپ کو اس کا خوگر بنائو کہ لوگ اچھا سلوک کریں تب بھی تم اچھا سلوک کرو اور لوگ برا سلوک کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو۔۔۔۔(مشکوٰۃالمصابیح)
حضرت سعید ابن ہشام تابعی رحمتہ اللہ علیہ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟انہوں ؓ نے جواب دیا :’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تو قرآن ہے‘‘۔۔۔حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال تک آپ ؐ کی خدمت کی مگر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُف تک نہ کیا اور نہ کبھی میرے کسی کام کی بابت آپ ؐ نے کہا کہ تم نے اسے کیوں کیا؟اور جو کام میں نے نہیں کیا ،اس کی بابت آپؐ نے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے اسے کیوں نہیں کیا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
امام بخاریؒنے ’’الادب المفرد‘‘ میں حضرت ام الدرداہ ؓ کی زبانی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے :’’میزان عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے بھاری نہ ہوگی۔‘‘
حضرت معاذؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا عالم بناکر بھیجا تو وصیت فرمائی :’’لوگوں کے ساتھ آسانی کا برتائو کرنا اور سختی سے پیش نہ آنا اور انہیں خوش خبری سنا نا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں متفق رہنا اور اختلاف نہ کرنا ۔۔۔(صحیح بخاری)
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ ولم والے اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ ؐ کی جملہ تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین یا رب العالمین)
آلوچی باغ سری نگر