اخلاص کا معنی ہے نیت کو کھوٹ اور آمیزش سے پاک کرنا اور عبادت کو صرف اللہ کے لئے انجام دینا۔ مطلب یہ ہے کہ جو بھی عمل کیا جائے اس میں مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی حاصل کرنا ہو۔ نمود و نمائش، شہرت و جاہ کمانا مقصد نہ ہو۔جب یہ بات مقرر اور ثابث شدہ ہے کہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ ہی کے دربار میں پیش ہونا ہے،اسی کے سامنے ہماری پیشی ہے، اسی کے سامنے ہمارے سارے اعمال پیش ہوں گے ، جو اعمال صرف اسی کو راضی و خوش کرنے کے لئے کئے ہوں گے ان پر وہ خوش ہوکر اپنے مخلص اور نیک بندوں کو جنت میں داخل کرکے نعمتوں سے مالا مال کردے گا اور ریاکارانہ اور بد اعمالیوں پر ناراض ہوکر ریاکاروں اور بدکاروں کو جہنم میں ڈال دے گا … پھر نام و نمود کا، شہرت و چرچے کا، دنیاوی واہ واہ کا خیال آنا ہی حماقت اور نالائقی ہے۔
پھر یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ جو عمل اخلاص سے بھرا ہوا ہو اور دکھاوے اور ریا وغیرہ سے بالکل پاک ہو۔اس کی بڑائی اور عظمت کی کوئی انتہاء نہیں اور اس پر ملنے والے اجرو ثواب کا کوئی حساب نہیںبلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ حقیقت میں قابل اجر و ثواب صرف وہی عمل ہے جو خلوص سے معمور اور ریا سے پاک ہو۔ اس کے برعکس وہ عمل جو ریا، شہرت، مال و دولت یا کسی دوسری دنیوی غرض کے حصول کی بنا پر کیا گیا ہواس کی کوئی اہمیت اور کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ ایسا عمل اجر و ثواب کا کیا ذریعہ ہوسکتا وہ تو عنداللہ صرف عتاب اور عذاب کا ذریعہ ہی بن جاتا ہے۔مثلًا نماز کو ہی لیجئے کہ جب یہ اخلاص اور للہیت کی روح سے بھری ہو تو اس کا درجہ کتنا ہی بلند ہے! نبی پاکؐ نے فرمایا کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، سب سے بہتر عمل ہے،قیامت میں سب سے پہلے اسی کے متعلق پوچھا جائے گا، جس کی نماز درست ہو اس کے سارے اعمال درست ہوں گے یعنی جنت میں پہنچنا اس کے لئے آسان ہوگا ۔اس کے برعکس دیکھئے خود قرآنِ پاک میں ایسے لوگوں کے لئے تباہی اور بربادی کا اعلان اور جہنم کی وادی کی خوش خبری ہے جو نماز صرف دکھائے کے لئے پڑھتے ہیں۔اسی طرح صدقات و خیرات کو لیجئے کہ کتنا عظیم عمل ہے۔ حضور پاکؐ نے فرمایا کہ کوئی چیز تقدیر کو بدل نہیں سکتی سوائے دعاء اور صدقہ کے، اور فرمایا کہ صدقات آفات اور بلاؤں اور مصیبتوں کو روکتے ہیں، اور فرمایا کہ جس نے دائیں ہاتھ سے اس طرح (چھپ چھپاکر) صدقہ و خیرات دیا کہ بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوئی تو وہ کل قیامت کے دن ان سات قسم کے خوش نصیب لوگوں میں ہوگا جنہیں عرشِ الٰہی کے سایہ تلے آرام اور راحت نصیب ہوگی۔ اس کے برعکس دیکھئے خود قرآنِ پاک ایسے شخص کی کیسی عبرت ناک مثال بیان کرتا ہے کہ جو صدقہ صرف دکھائے اور شہرت پانے کے لئے کرتا ہے۔ فرمایا:’’اس شخص کی مثال جو مال خرچ کرتا ہے لوگوں کے دکھاوے کو، اور اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، ایسی ہے کہ جیسے ایک چِکنا پتھر ہے جس پر کچھ مِٹی ہے، پھر اس پر زور کی بارش ہو سو وہ اس کوبالکل صاف کردے، (ایسے لوگ) کچھ بھی نہ حاصل کرسکیں گے اپنی کمائی سے‘‘۔اسی طرح دیکھئے جہاد فی سبیل اللہ اتنا بڑا عمل ہے کہ اس جیسا عمل کوئی دوسرا نہیں کہ اس میں شمولیت کرنا گویا اپنی جان تک خدا کے لئے فدا کرنے کی آمادگی ہے۔جب یہ صرف اللہ کے لئے ہو، صرف اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہوتو پھر ایسے مجاہد فی سبیل اللہ کے مرتبہ کا کیا پوچھنا! اللہ تعالیٰ نے تو قرآنِ پاک میں فرمایا کہ میں نے مؤمنوں کی جانیں اور اموال جنت کے بدلے خرید لی ہیں، یعنی وہ صرف میرے لئے اپنی جانیں قربان کریں، میں انہیں نعمتوں سے بھرا جنت عطا کروں گا۔احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص اللہ کے راستہ میں شہید ہوجائے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے اور جہنم اس پر حرام ہوجاتی ہے، اس کی آنکھیں جہنم کی آگ نہ دیکھیں گی لیکن اگر یہ صرف اپنی بہادری اور کرتب بازی دکھانے کے لئے ہو، لوگوں کی داد رسی اور واہ واہ حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی دنیوی مقصد کے لئے ہو تو فرمایا کہ ایسے شخص کو کل قیامت کے دن جہنم میں جھونک دیا جائے گا اور کہا جائے گاکہ جس غرض سے تم نے جہاد کیا اور اپنی جان دے دی (یعنی بہادری اور جوانمردی کا تمغہ حاصل کرنے کے لئے) فَقَدْ قِیْلَ: وہ تو دنیا میں کہا گیا اب یہاں آخرت میں اس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا بلکہ دھوکہ اور منافقت کے ارتکاب پر جہنم کا مزا چکھنا ہوگا۔اسی طرح تمام اعمال کا یہی حال ہے۔ چاہے دیکھنے میں کتنا ہی چھوٹا عمل کیوں نہ ہو لیکن ہو اخلاص اور للہیت سے پُر تو پہاڑ اس کے سامنے کچھ نہیں اور دوسری طرف اگر اخلاص سے خالی کوئی عمل دیکھنے میں پہاڑ کے برابر بھی ہو مگر حقیقت میں اللہ کے سامنے اس کی کوئی وقعت، کوئی قدر، کوئی وزن نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: :قیامت کے دن ان کے اعمال میں ہم کوئی وزن نہ رکھیں گے۔
پھر جاننا چاہئے کہ اخلاصِ نیت میں فساد اور بگاڑ تین طرح سے پیدا ہوتا ہے۔(۱) عمل شروع کرنے سے پہلے ہی سے نیت یا غرض فاسد ہو، (۲) شروع میں تو نیت ٹھیک ہو لیکن دوران عمل نیت اور غرض میں بگاڑ پیدا ہوجائے، اور (۳) شروع میں بھی نیت ٹھیک تھی، عمل کرتے کرتے بھی نیت ٹھیک رہی لیکن عمل سے فارغ ہوکر اب نیت خراب ہونے لگی۔
چنانچہ اگر کوئی شخص (بد نصیب) نماز صرف اس لئے پڑھے کہ لوگ اسے نمازی گردانے، صدقہ و خیرات اس لئے دے کہ لوگ اسے سخی و فیاض گردانے، تقریر اور وعظ اس لئے کرے کہ لوگ اسے بڑا مقرر، واعظ اور عالم گردانے، حج اس لئے کرے کہ لوگ اسے حاجی صاحب حاجی صاحب کہہ کر پکارا کریں وغیرہ۔تو یہ تو پہلی قسم کے بگاڑ اور فسادِ نیت کی مثال ہوئی۔اس نیت سے کوئی عمل کرنا کہ صرف دکھاوا اور شہرت مقصود ہو ظاہر ہے کہ اللہ کے یہاں کچھ بھی وزن نہیں رکھتا بلکہ ایسے اعمال رائے گان ہوجاتے ہیں اور عذاب و عقاب کے باعث بن جاتے ہیں۔
نیت میں دوسرے مرحلہ کا بگاڑ و فساد جو کہ درمیان عمل میں پیدا ہوجاتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ مثلًا ایک شخص ٹھیک نیت سے نماز پڑھنے لگااور حال یہ ہو کہ اس کے ارد گرد چند ایسے افراد ہوں جو اسے ایک صاحبِ علم شخص مانتے ہوں، نماز کے دوران اسے خیال ہوتا ہے کہ میرے ارد گرد کچھ ایسے لوگ ہیں جو مجھے مقتداء اور صاحبِِ علم مانتے ہیں، اس لئے مجھے زیادہ سنبھل کر نماز پڑھنی چاہئے اور اب وہ زیادہ سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر، سنبھل سنبھل کر نماز پڑھنے لگا،احادیث میں ایسے عمل کو شرکِ اصغر، شرک خفی اور شرک سرائر کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اب یہ شخص اللہ کے لئے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لئے نماز پڑھ رہا ہے جو اس کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں۔اسی طرح مثلًا کوئی خوش الحان نعت خواں یا قاری، نعت خوانی اور قراتِ شروع تو اچھی نیت سے کرے لیکن جب دیکھے کہ لوگ اس کی خوش الحانی سے محظوظ ہورہے ہیں اور اس کی خوش الحانی پر واہ واہ کررہے ہیں تو اب اور زیادہ اچھی آواز بنانے لگے۔یہ آواز میں مزید نکھار لانا اس غرض سے کہ لوگوں کی محظوظیت اور واہ واہ میں اضافہ ہوجائے دراصل اپنے عمل کو خراب کرنا ہے اور اس کے اجر و ثواب کو باطل کرنا ہے۔اسی لئے دعائے مسنونہ میں آیا ہے:یا اللہ! میں آپ سے معافی چاہتا ہوں اس نیکی کے بارے میں کہ میں نے اس کو خالصۃً آپ کے لیے کرنا چاہا پھر اس میں وہ چیز مل گئی جو خالص آپ کے لئے نہ تھی (مناجاتِ مقبول)۔
تیسرے مرحلہ کا بگاڑ ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص اچھی نیت سے حج کو گیا وہاں حج بھی اچھی طرح ادا کیا لیکن جب واپس گھر لوٹا تو جہاں کوئی مجلس دیکھی اور دو چار لوگوں کو بات کرتے دیکھا یہ بھی اپنے حج کا اور سفر حج کا تذکرہ بیان کرنے لگا، اس نیت سے کہ لوگوں پر اس کا حج ظاہر ہوجائے۔ اب کوئی موقعہ ایسا نہیں چھوڑتا جہاں اپنے سفر حج کے کارنامے بیان نہ کرتا ہو صرف اس لئے کہ اگر کوئی اس کے حاجی ہونے سے اب تک بے خبر تھا وہ بھی باخبر ہوجائے یا مثلًا کوئی حافظ صاحب رمضان شریف میں کسی ایسی مسجد میں جہاں کے باشندے اس سے اور وہ ان سے بالکل اجنبی ہوں قرآنِ پاک کے ۵۴۰ رکوعات شبِ قدر تک ۵۴۰ رکعات میں تلاوت کرے، پھر آخر میں عید کے موقعہ پر جب نذرانے، تحفے تحائف پیش ہونے لگے تو وہ بے دھڑک قبول کرے اور اب انہیں تحفہ تحائف پر نظر کرتے ہوئے اور انہیں کی طمع رکھتے ہوئے آئندہ رمضان جلدی آنے کی تمنا اور دعائیں کرنے لگے۔یا کوئی شخص نکاح سادگی سے کرے اور نیت شروع میں اور درمیان میں صالحہ تھی لیکن بعد میں اشتہارات کے ذریعہ اس کی تشہیر کرنے لگے، ہر جگہ اس کا چرچا، تذکرہ کرنے لگے اور ہر ایک پر اپنے سادگی ٔنکاح کا رعب بٹھانے لگے اور ہر دوسرے پر اعتراضات اور طعن و تشنیع کی بارش برسانے لگے۔جب عمل خالص اللہ کے لئے کرنا ہے، اور اسی کا قرآنِ پاک اور احادیث نبویہ میں حکم ہے… تو تشہیر و اشتہارات کی کیا حاجت، نذرانے، تحفے تحائف قبول کرنے کی کیا تمنا اور دوسروں پر اپنے عمل کی دھاک بٹھانے کا کیا چسک؟حدیث پاک میں آیا ہے:قیامت کے دن تمام اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، پھر کہا جائے گا کہ دیکھو ان میں کیا دنیا کے لئے تھا اور کیا خالص اللہ تعالیٰ کے لئے، پھر جو دنیا کے لئے ہوگا اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
ایک خاتون کی شادی ہورہی تھی، اس کی سہیلیاں اور بہنیں اسے سجارہی تھیں اس کا سنگار کررہی تھیں لیکن خود وہ دلہن بڑی اداس اور نہایت تشویش میں تھی، سہیلیاں سمجھیں کہ شاید یہ اس لئے اُداس اور پریشان ہے کہ اس کی سجاوٹ میں کمی رہ گئی ہے،اس کا حسن بہت زیادہ نہیں نکھرا ہے، اس لئے وہ اسے تسلی دینے لگیں، قسمیں کھانے لگیں، اور اس کے حسن و جمال کی نہایت تعریفیں کرنے لگیںاور کہنے لگیں کہ واقعی ہم نے تجھ جیسی خوبصورت دلہن کوئی نہیں دیکھی، تم نہایت حسین اور پرجمال ہولیکن وہ دلہن بدستور اداس اور مشوش رہی۔آخر کار ان اپنی اداسی اور تشویش کی وجہ بتاتے ہوئے نہایت عاقلانہ اور دوراندیشانہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تمہاری تعریفوں سے کوئی فائدہ نہیں، میں جس کے پاس جارہی ہوں وہ میرے حسن و جمال کی تعریف کرے تو بات ہے۔اس کی ایک بار تعریف کرنا ہی میری پریشانی اور تشویش کا خاتمہ ہے۔
رابطہ :گندر پورہ عید گاہ سری نگر