اِکز اقبال
اسلام دین ِوحدت ہے، جس کا بنیادی درس توحید، رسالت، ختمِ نبوت اور آخرت پر ایمان رکھنا ہے۔ یہی عقائد مسلمانوں کو اِنَّمَا المُؤمِنُونَ اِخوَۃٌ (الحجرات 49:10) یعنی ’’تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ کی عملی تفسیر پیش کرنے کا پابند بناتے ہیں۔اللہ ایک ‘ نبی ایک ‘ دین ایک ، قرآن ایک اور قبلہ ایک ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی رو سے دینی تمدن و بنیادی خدو خال بھی ایک ہونے کے باوجود اگر امتِ مسلمہ انتشار اور تفرقہ کا شکار ہو، تو یہ ایک سنگین المیہ ہے۔
قرآن کریم میں واضح حکم دیا گیا ہے:’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘(آل عمران 3:103)۔مگر آج مسلم دنیا کی زبوں حالی، ذلت اور بدحالی کا سبب یہی تفرقہ بازی اور اختلافات ہیں۔ امت مسلمہ کو اللہ اور اس کے رسول ؐ نے ایک امت قرار دیا تھا، مگر آج فرقوں، گروہوں اور ذاتی مفادات کی بنیاد پر اس وحدت کو پارہ پارہ کر دیا گیا ہے۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ فرقہ واریت ہمیشہ تباہی کا باعث بنی ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم دعوتِ دین کی اشاعت اور امت کی فلاح و بہبود کے لئے ایک دوسرے کے فریق نہیں رفیق بن جاتے اور اسطرح کام کرتے جس طرح جسم کے سارے اعضاء دل کے تابع ہو کر کام کرتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ امت میں فکر و نظر کے اختلافات ‘ مسلکی و مکتبی اختلافات گروہی و جامعاتی اختلافات اور اغراض و خواہشات کے اختلافات نت نئے شان سے پیدا کئے جارہے ہیں۔ قلم و زبان سے تنقید تنقیص و تحقیر کا بھیانک سلسلہ جاری ہے۔ ہر فرقہ تنظیم اور جماعت نام تو اسلام کا ہی لیتی ہے بلکہ اُن کی ساری کوششیں بظاہر اسی مقصد کے لیے ہوتی ہیں۔ لیکن کام کا عملی رخ تنظیمی مفاد کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔
آج مسلمانوں کا یہ حال ہو رہا ہے کہ صرف گروہی صداقت کو ہی جانتے ہیں۔ ان کے گروہ سے باہر اگر کوئی خوبی پائی جاتی ہو۔ تو اسکی انہیں خبر ہی نہیں۔ ہر گروہ کا یہ حال ہیں کہ وہ صرف اپنے گروہ کو ہی حق پر مانتا ہیں۔ صرف اس عالم کو عالم جانتا ہیں جو اس کے اپنے گروہ کا ہو۔ وہی مصنف ‘ مصنف ہے جو اپنے حلقہ کا ہو۔ صرف وہی کتابیں صحیح ہے جو اس کے اپنے جماعت کی عالموں کی ہو۔ حتیٰ کہ صرف ان ہی اجتماعات میں شامل ہوتے ہیں جو اُن کے اپنے حلقہ کے ہوں۔ المیہ یہ ہے کہ ان تفرقات کی اسلام میں ہرگز کوئی اجازت نہیں ہےاور اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں۔پس تم مجھ ہی سے ڈرو۔ لیکن بعد میں لوگوں نے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ہر گروہ کے پاس جو ہیں اسی میں وہ مگن ہے ۔‘‘ ( القرآن، المؤمنون 53،53:23)۔’’اور مت ہو جا ،ان مشرکین میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا اور بہت سے گروہ ہو گئے اور ہر گروہ اپنے اس طریقہ پر نازاں ہے۔ جو ان کے پاس ہے۔‘‘( القرآن، الروم 30:31،32 )
جو بات ہمارے لئے از بس نا گزیر ہے، وہ یہ ہے کہ جس بات کے دلائل مضبوط ہوں اس کی پیروی کی جائے اور اس کی طرف دعوت دی جائے ۔ مسلکی ، مکتبی اور گروہی تعصب اور آندھی تقلید سے احتراز کیا جائے اور دیگر مسالک، مکاتیب یا جماعتوں کا محض اس لیے انکار نہ کیا جائے کہ ہم اس کے قائل نہیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ نے فرقہ بندی کے حاملین کے لئے سخت وعید سنائی ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے :’’ اور ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات کے بعد پھر سے اختلافات میں مبتلا ہو گئے اور ان لوگوں کے لئے سزائے عظیم ہے۔‘‘(القرآن ، آل عمران 3 : 105)رسول اکرمؐ نے پیش گوئی فرمائی:’’میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے صرف ایک فرقہ نجات پائے گا، باقی سب جہنم میں جائیں گے۔‘‘صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! وہ نجات یافتہ کون ہوگا؟‘‘آپؐ نے فرمایا: ’’جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگا۔‘‘(سنن ترمذی: 2641، سنن ابو داؤد: 4597، سنن ابن ماجہ: 3992)
اگر آج مسلمانوں سے ان کی شناخت پوچھی جائے تو وہ کہتے ہیں: میں سنی ہوں، میں شیعہ ہوں، میں حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی ہوں، میں تبلیغی، بریلوی، اہلِ حدیث یا دیوبندی ہوں۔لیکن کیا کبھی کسی نے فخر سے یہ کہا کہ ’’میں صرف مسلمان ہوں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’مسلم‘ نام دیا۔اللہ کے نبیؐ اور صحابہؓ کسی فرقے سے وابستہ نہیں تھے، بلکہ وہ صرف ’مسلمان‘ تھے۔امتِ مسلمہ کی بقا صرف اور صرف قرآن و سنت پر متحد ہونے میں ہے۔ فرقہ بندی کا خاتمہ تب ممکن ہوگا جب مسلمان اپنی شناخت صرف ’مسلم‘ کے طور پر اپنائیں۔قرآن و حدیث کو سب سے مقدم رکھیں۔علمائے کرام دین کی دعوت کو گروہی تعصب سے پاک کریں۔اختلافات کو باہمی محبت اور رواداری کے ذریعے حل کریں۔
امام مالکؒ کا قول ہے:’’اس امت کے آخر کی اصلاح اسی چیز سے ہو سکتی ہے، جس سے اس کے اوّل کی اصلاح ہوئی۔‘‘
یہ ساری کائنات اس وحدت پر گواہ ہیں جس میں اِنَّ اَکرَمَکُم عِندَ اللّٰہِ اَتقٰکُم ؕ (الجرات: 49٫13 ) کے زریں الفاظ امتِ مسلمہ کو للکارتے رہیں گے ۔ ایک ہی زمین پر رہنے والی امت مسلمہ ایک ہی آسمان کے نیچے یکساں طور پر سورج ‘ چاند اور تاروں سے مستفید ہورہے ہیں۔ ایک ہی نظام زندگی سب کے لیے مقدر ہیں۔ ایک ہی خدا ، خالق ‘ مالک اور رزاق سے ساری امت اپنی زندگی اور زندگی کی تمام ضروریات حاصل کرتی ہیں۔ ایک ہی نبیؐ جس کا اُسوہ حسنہ سب کے لیے کامل نمونہ ہے۔ ایک ہی قرآن جس کا قانون سب کے لئے برابر ہے اور متعین دائرہ حیات کی تکمیل کے بعد ایک ہی قبرستان کے اندر ابدی نیند سو جاتے ہیں اور روز محشر میں ایک ہی میدان میں ساری امت مسلمہ ایک ہی خدا کے سامنے جواب دہ ہونگے۔اگر ہم واقعی دنیا اور آخرت میں کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں ’’فرقہ واریت‘‘ کو ختم کر کے ’’وحدتِ امت ‘‘کو فروغ دینا ہوگا۔ یہی قرآن و سنت کی تعلیم ہے، یہی ہمارے اسلاف کا طریقہ تھا اور یہی ہماری بقا کا واحد راستہ ہے۔
رابطہ۔7006857283
[email protected]