راجیہ سبھا کی ایک سیٹ، اور اِتنا ہنگامہ؟ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ یعقوب میمن کی پھانسی والی رات ہواوراس ایک سیٹ پر ہوئے الیکشن کا نتیجہ نکلنے میں کہیں پوری رات نہ لگ جائے ۔خیر نتیجہ تو نکلا لیکن رات کے ۲؍ بجے کے قریب۔یہ اپنی نوعیت کا اکلوتا نتیجہ تھا ۔ ہندوستان کی ۷۰؍سالہ تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ راجیہ سبھا کی ایک سیٹ کے لئے سیاست کاچولہا اتنا گرمایا گیا ہو۔دراصل یہ بی جے پی کے قومی صدر امیت شا کے کام کرنے کا اچھوتا طریقہ ہے۔چھوٹی سے چھوٹی بات کو یہ پہلے بڑااورپھر بہت زیادہ بڑا بناتے ہیں،پھر اس کو گرما گرم رکھنے میں قومی میڈیا ان کا بھرپور ساتھ دے کر اپنامحنتانہ حلال کرتا ہے اور جب معاملہ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے،تب جا کر یہ اسٹروک لگاتے ہیں۔اکثر و بیشتر یہ کامیاب ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ناکامی بھی ہاتھ لگتی ہے۔کچھ ایسا ہی احمد پٹیل کے ساتھانتخابی مقابلے میں ہوا کہ ضرورت سے زیادہ اعتماد جتلاکر بی جے پی صدر کو منہ کی کھانی پڑی۔امیت شانے شنکر سنگھ واگھیلا کے ساتھ مل کر جو ڈرامائی منصوبہ تیار کیا تھا وہ چلتے چلتے انٹی کلائمکس پرآ گیا اور احمد پٹیل قسمت کے اتنے دھنی نکلے کہ صرف آدھے ووٹ سے جیت گئے اور کانگریس کی بے جان زندگی میں تھوڑی سی جان آگئی ،ورنہ امیت شا جو کرنا چاہتے تھے اس کا نتیجہ کانگریس کے لئے کم شرمساری کا نہ ہوتا۔
احمد پٹیل کی جیت سے یہ ثابت ہوگیا کہ قسمت اُسی وقت ساتھ دیتی ہے جب ساتھ میں کچھ فہمیدگی اور عمل بھی کیا جائے۔یہاں تو احمد پٹیل نے وسائل سے بھی زیادہ محنت کی اور امیت شا کے منصوبے پر یک لخت پانی پھیر دیا۔اِس ایک سیٹ کے لئے امیت شانے کیا نہیں کیا؟کانگریس میں پھوٹ ڈالی، کانگریس کے گجرات اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر شنکر سنگھ واگھیلا تک کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا اور صدر جمہوریہ کے الیکشن میں کراس ووٹنگ میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ تقریباًدرجن بھرکانگریسی ایم ایل ایز نے رام ناتھ کووند کے حق میں اپنی رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔جب اپنے ۴۴؍ایم ایل ایز کوکانگریس نے بنگلورکے ایک ریزارٹ میں کئی دن یکجا رکھا،وہاں پر بھی انکم ٹیکس کا چھاپہ ڈلوایا اور وہ بھی مرکزی پولیس(Para Military Force) کی نگرانی میں۔دراصل وہ ریزارٹ کرناٹک کے وزیر توانائی ڈی کے شیو کمار کا ہے جو احمد پٹیل کی مدد کر رہے تھے۔ان کے بھائی ڈی کے سریش کو بھی نہیں بخشا گیا جو بنگلور (دیہات) سے لوک سبھا کے ممبر ہیں ۔ ان دونوں کے ملک کے تقریباً ۶۰؍ جگہوں پر چھاپے مارے گئے تاکہ یہ ڈر جائیں اور احمد پٹیل کی مدد سے باز آجائیں لیکن دونوں ہی بھائی حالات کا بہادرانہ سامنا کرتے رہے اور ایک دن پہلے تک تمام ایم ایل ایز کو اپنے یہاں بحفاظت رکھا۔
در اصل۲۰۱۲ء میں گجرات اسمبلی میں کانگریس کی تعداد ۵۷؍ تھی اور بی جے پی کی ۱۲۲؍۔ایوان کے ۱۸۲؍ ایم ایل ایز میں راشٹروادی کانگریس کے ۲؍ اور جنتا دل یونائیٹیڈ کے ایک ایم ایل اے تھا۔صدر جمہوریہ کے الیکشن میں کراس ووٹنگ سے پتہ چل گیا تھاکہ کانگریس کے ۱۳؍ ایم ایل ایز اس کے ساتھ نہیں ہیں۔واگھیلا نے اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لئے اپنے ۶؍کانگریسی وفادار ایم ایل ایز کو پارٹی سے استعفیٰ دلوا دیا تھا اور اس طرح ایوان میں تعداد گھٹ کر ۱۷۶؍ ہو گئی تھی۔اب راجیہ سبھا کی ایک سیٹ جیتنے کے لئے ۴۵؍ایم ایل ایز کے ووٹوں کی ضرورت باقی رہ گئی۔ امیت شا اور سمرتی ایرانی کی راجیہ سبھا کی امیدواری کے لئے ۹۰؍ ووٹ ڈالے جا چکے اور بی جے پی کے پاس بچے ووٹ ۳۲؍ تھے۔۱۳؍ووٹ جٹانا بی جے پی کے امیت شاکے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا جس میں واگھیلا کے وفادار بھی شامل تھے اور جے ڈی یو اور بہت حد تک این سی پی کے ایم ایل ایز کو بھی یہ اپنا ہی سمجھتے تھے۔شنکر سنگھ واگھیلا سے ان کا جو بھی معاہدہ ہوا تھا، اس کے مطابق احمد پٹیل کے مقابلے میں واگھیلا کے قریبی رشتہ دار اور باغی کانگریسی ایم ایل اے بلونت سنگھ راجپوت میدان میں تھے۔احمد پٹیل کی ہار تقریباً طے تھی اگر کانگریس کے ۲؍ ایم ایل ایز اپنا بیلٹ پیپر بی جے پی کے پولنگ ایجنٹ کو نہ دکھاتے جہاں وہ بتلانا چاہتے تھے کہ ہم نے بی جے پی کو ووٹ دئے ہیں ۔اس کو لے کر کانگریس نے دانش مندی اورتندہی کا مظاہرہ کیا کہ الیکشن کمیشن سے رجوع ہوئی۔ کاش یہی کام وہ گوا اور منی پور کے الیکشن کے نتائج ظاہر ہونے کے بعد کرتی تو آج اُن دونوں ریاستوں پر اس کی حکومت ہوتی۔خیر چیف الیکشن کمیشن نے قانون کی راہ پر چلتے ہوئے دونوں ووٹوں کو کالعدم قرار دیا اور اس طرح ایوان کی تعداد سمٹ کر ۱۷۴؍ ہو گئی۔اب جیت کے لئے ساڑھے ۴۳؍ ووٹ کی ضرورت باقی رہ گئی اور اس طرح احمد پٹیل ۴۴؍ ووٹ پا کرجیت گئے جس میں ایک راشٹروادی اور ایک جے ڈی یوکے ووٹ شامل ہیں۔
اب ذرا غور کریں تو پتہ چلے گا کہ جن دو کانگریسیوں نے اپنے بیلٹ پیپرز دکھائے اُن کا مقصدکیا یہ نہیں تھا کہ ’’دیکھ لو ،ہم نے حقیقتاً بی جے پی کو ووٹ دئے ہیں اور ہم سے جو وعدہ کیا گیا ہے، اُسے پورا کیا جائے؟‘‘سیدھی سی بات ہے کہ گجرات میںصوبائی الیکشن ہونے کو صرف ۳؍ماہ باقی ہیں،انہیں کوئی وزارت تو ملنے سے رہی اور نہ ہی کوئی نئی کابینہ تشکیل پانے والی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف اورصرف روپے سے وہ دونوں ووٹ خریدے گئے تھے۔یہ اور بات ہے کہ اُن کی بے و قوفی کی وجہ سے وہ روپے بھی اب انہیں نہیں ملیں گے لیکن سودا ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔بی جے پی اور اس کے سینا پتی امیت شا کس اخلاق کی بات کرتے ہیں اور وزیر اعظم، بدعنوانی کو ختم کرنا ہے ،بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے اور جبھی غریبی کا خاتمہ ہوگا وغیرہ کا ریکارڈ بجاتے رہتے ہیں،یہ تمام ریا کاری پر مبنی ٹامک ٹوئیاں ہیں ۔بی جے پی صرف اور صرف توڑ نے کی سیاست کر رہی ہے اور ہر جگہ توڑ پھوڑ مچائے ہوئی ہے۔
ایک بات بی جے پی اور میڈیا کے ذریعے یہ سننے میں آئی کہ کانگریس کے یہ ۴۴؍ ایم ایل ایز بنگلور میں مزے کر رہے ہیں، وہیں گجرات کے عوام سیلاب سے نبرد آزما ہیں۔بات تو صحیح ہے کہ اُن دنوں گجرات کو سیلاب نے اپنی زد میں لیا تھا لیکن یہ سب کرنے پر مجبور کس نے کیا ؟ گجرات کے عوام یہ سب سمجھ رہے ہیں اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ کانگریسی اور کانگریس دونوں ہی اپنے وجود اور عدم وجود کے آخری دہانے پر آپہنچے ہوئے ہیں ۔کانگریس کے سینئر لیڈرجے رام رمیش نے کانگریس کے تعلق سے کوئی انوکھی بات نہیں کہی ہے کہ کانگریس اپنے وجودیت کے مسئلے سے دوچار ہے۔جب پارٹی کا وقار داؤ پر لگا ہو اور خود کارکن کا جینا دشوار ہو تو پہلے تو وہ اپنے بارے میں ہی سوچے گا کیونکہ جب اُس کا وجود بچے گا جبھی تو وہ دوسروں بمعنی عوام کی خدمت کر سکے گا۔اس لئے گجرات کے کانگریسی ایم ایل ایز نے جو بھی کیا وہ صحیح کیا اور احمد پٹیل اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوئے۔اب ان کا سیدھا مقابلہ جوڑتوڑ ’حکمت عملی‘ کے ماہرسمجھے جانے والے امیت شاسے ہے جو اپنے کو اس میدان کے شہسوار سمجھے ہوئے ہیں۔کانگریس کو چاہئے کہ احمد پٹیل کی ہنر مندیوں کا استعمال کرے اور گجرات کے ہونے والے الیکشن میں انہیں آگے کرے۔
احمد پٹیل کی اس جیت نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ کانگریس کے بقیہ تمام ایم ایل ایز کانگریس کے ساتھ ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ انہیں طرح طرح کا لالچ دے کر خریدنے کی کوشش کی گئی بلکہ پارٹی سے بغاوت کرنے پر آمادہ کیا گیا۔احمد پٹیل ایک مسلمان بھی ہیں اوان کو ووٹ دینے والے تمام ہندو برادران یعنی کہ کانگریس کے اندر ہندو ۔مسلم کی کوئی تفریق اور بھید بھاؤ نہیں ،سب کے سب انسان ہیں۔یہ بات بی جے پی کے لئے نہیں کہی جا سکتی۔یہ حقیقت کس قدر معنی خیز ہے کہ ۲۰۰۲ء کے الیکشن سے اب تک کانگریس کو گجرات میں ۴۰؍فیصدیا اس سے زیادہ ہی ووٹ ملے ہیں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کانگریس اس کامیابی کو ریاست بھر میں ریلی کر کے لوگوں کو ہموار کرے اور انہیں بتائے کہ کس طرح امیت شانے مطلبی سیاست کھیلی ہے۔وہ یہ بھی باور کرائے کہ سونیا گاندھی کو نفسیاتی طور پر زک پہچانے کے لئے یہ تمام حربے استعمال کئے گئے جس کا ترقی یعنی ڈیولپمنٹ سے کوئی واسطہ نہیں۔بی جے پی کانگریس مکت بھارت چاہتی ہے لیکن کانگریسیوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا غلط نہیں سمجھتی،یہ کیسا دوغلہ پن ہے؟کانگریس کو چاہئے کہ وہ گو مگو کی کیفیت میں نہ رہے بلکہ اٹل فیصلہ کرے اور سب سے پہلے دوست اوردشمن کی تمیز کرے کہ کون اس کے ساتھ ہے اور کون نہیں؟ اور واگھیلا جیسے آر ایس ایس نوازوں کو پہلے اپنی صفوں سے پاک کرے ۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883