ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
اتوار کی ایک سہانی دوپہر میںاپنی پچیس لاکھ روپے کی آرام دہ نئے ماڈل کی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مصوّ رالقمر کی نظر جونہی اُس کے سامنے لگے چھوٹے سے آئینے پر پڑی تو اُسے ا پنے چہرے پر ادھیڑ عمری کے آثار دیکھ کر اس بات کا شدید احساس ہوا کہ اُس کا وجود وقت کے دریا میں بہتے بہتے اپنا سب رنگ ورُوپ کھو چکا ہے۔ اُس کے سر کے بالوں میں کہیں کہیں سفیدی اُگ آئی تھی ۔چہرے پہ اب وہ پہلی سی لالی نظر نہیں آرہی تھی ۔منہ میں بہت سی داڑھیں دم توڑ چکی تھیں۔اسی احساس نے اُس کے دل میں یہ احساس بھی پیدا کردیا کہ وہ بچپن ،لڑکپن اور جوانی کی منزلوں سے گزرنے کے بعد اب بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھنے جارہا ہے۔
مصوّرالقمر ایک بڑی عدالت میں منصف کے فرائض انجام دے رہا تھا۔اُس کی ملازمت کا زیادہ تر زمانہ گزر چکا تھا ،صرف آٹھ سال باقی رہ گئے تھے۔اُس نے اپنے ضمیر کو زندہ رکھنے کے لئے ہر طرح کی مشکلات کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا تھا۔اُس کا اس بات پر کامل یقین تھا کہ جب آدمی کا ضمیر مرجاتا ہے تو پھر وہ ایک زندہ لاش کی مانند رہ جاتا ہے ۔اسی لئے وہ عدالت میں آنے کے بعد عدل وانصاف کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے آسمان کی طرف نظر یں اُٹھاتا، دل ہی دل میں خالق کائنات سے یہ التجا کرتا کہ وہ اُسے یہ توفیق عطا فرمائے کہ اس عدل وانصاف کی کرسی پر بیٹھ کر ظالم کو اُس کے ظلم کی سزادلا سکے اور مظلوم کو خوش کر سکے۔قانون پڑھتے پڑھتے اور وکلاء کی بحث سُنتے سُنتے اُس کا دل کافی حسّاس اور دماغ مشّاق ہوگیا تھا۔ اُس کے دماغ میں آج نہ جانے کیوں اپنے سفر حیات کے مختلف پڑاؤ ایک فلم سیٹ کی طرح گردش کرنے لگے تھے ۔ساتھ ہی اُس کے دل میں زندگی کی ناپائیداری کا احساس اُسے سرد آہیں لینے پر مجبور کر رہا تھا۔اُسے اپنا بچپن یاد آنے لگاکہ جب وہ بے فکری اور مستانگی کے دن گزارتاتھا توایک غریب لوہا رکا بیٹا ہونے کے باوجود اُس نے اپنے تین بھائیوں اور دوبہنوں میں پہلی کلاس سے ہی امتحانات میں اچھے نمبرات حاصل کئے تھے ۔ اُسے گائوں میں گزارے دن یاد آنے لگے کہ جب وہ کھیتوں کھلیانوں ،جنگلوں اوربیابانوں میں گھوما کرتا تھا، وہ شام ہوتے ہی مھارُو کے پیڑوں پر چمگادڑ نُما گلہریوں کی اُچھل کود ،دُور سے بانسری کی دُھن ،کوئل کی کوک اور پپیہے کی چہک سُن کر لمحہ بھر کے لئے مسرور ہوجاتاتھا۔دھان اور مکئی کے کھیتوں کی ہریالی اُس کا من موہ لیتی تھی۔شادی وغمی کے ماحول کو اُس نے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ اُس نے اپنی دیہاتی زندگی میں دُلہے کو گھوڑے پہ سوار ہوکر بینڈ باجے کی دُھن پر براتیوں کو ناچتے ،اُدھم مچاتے دُلہن کے گھر جاتے دیکھا تھا ۔اُس نے دُلہن کو روتے ہوئے اپنے والدین ،بھائی، بہنوں کے گلے لگ کر ڈولی میں بیٹھتے دیکھا تھا۔کہاروں کو مخصوص انداز میں ڈولی اُٹھاتے دیکھا تھا۔اُس نے اپنے گاؤں میںکچھ بچّوں،جوانوں اور ضعیف العمر مردوںوعورتوں کی تہجیز وتکفین ہرتے ہوئے دیکھی تھی۔ اُس نے اپنے گاؤں کے سامنے پار ہندو برادری میں کئی متوفین کی ارتھیاں اُٹھتے بھی دیکھی تھیں ،سنکھ کی یکسُری آواز سُن کر اُس کا دل مایوس ہوجاتاتھا ۔اُسے وہ ٹونا بھی یاد آیا کہ جب اُس کے گاؤں کے سامنے پار رام بابوکی ارتھی اُٹھی تھی ۔اُس کے مردہ جسم پر لال رنگ کاکپڑا تھا۔چار آدمی لکڑی کے تختے پر اُس کی ارتھی اُٹھائے نیچے ڈھلوان میں ندی کے کنارے اُسے شمشان گھاٹ کی طرف لے جارہے تھے کہ اسی دوران مصور القمر کی ماں نے اُسے کہا تھا
’’بیٹے!وہ دیکھ سامنے پار رام بابو کی ارتھی اُٹھی ہے ۔اُس کے لواحقین اُسے شمشان گھاٹ کی طرف لے جارہے ہیں ۔یہ موقع غنیمت جان لے ۔تیرے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیوں پر مسّے ہیں ۔سات تیلیاں ہاتھ میں لے پھر ہر ایک تیلی کو سات سات بار مسّوں پر پھیرتے ہوئے یہ کہتا جاکہ او دُنیا سے جانے والے میرے ان مسّوں کو ساتھ لیتا جا۔دیکھنا ایک مہینے کے بعدتیری اُنگلیوں سے یہ مسّے غائب ہوجائیں گے‘‘
اُس نے اپنی ماں کا بتایا ہوا یہ ٹونا کرکے دیکھا تھا کہ واقعی ایک مہینے کے بعد اُس کی انگلیوں پر سے وہ مسّے غائب ہوگئے تھے۔ دسویں اوربارہویںجماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد جب اُس نے کالج میں داخلہ لیا تھا تو اُس کی جوانی نے اُسے یہ احساس کرایا تھا کہ زندگی کا سب سے نازک ترین اسٹیج یہی ہوتا ہے جس میں اگر آدمی بہک گیا تو گناہوں کی دلدل میں پھنس کر اپنی زندگی تباہ کردیتا ہے اور اگر فکر واحساس اور محنت ومشقت سے کام کرتا رہا تو اُس کی زندگی خوب صورت بن جاتی ہے۔بی ایس سی میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اُس نے ایل ایل بی کیا تھا۔وہ ایک ایسا وکیل بننا چاہتا تھا جو ہمیشہ سچائی کا ساتھ دے اور ایسے لوگوں کی وکالت کرے جو غریب ،مظلوم اور بے سہارا ہوں ۔
وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے بعد مصوّر القمر نے شہر کی ایک پڑھی لکھی لڑکی نازنین کے ساتھ شادی کرلی تھی ۔پھر وہ مستقل طور پر دیہاتی ماحول سے نکل کر شہری ماحول میں آکے بس گیا تھا۔خوب صورت تو وہ بچپن ہی سے تھا لیکن نازنین کے آنے سے اُس کی زندگی میں بہار آگئی تھی۔اُس نے مصوّرالقمر کی زندگی کو نکھارنے سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔وہ انگریزی میں ایم اے تھی ۔ دونوں کی نئی نئی شادی نے اُن کے جذبات واحساسات میں ایک طرح کا اُچھال ساپیدا کردیا تھا۔پھر تین سال کے بعد اُن کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی تھی ۔چار چارسال کے بعد نازنین نے دوبیٹوں کو جنم دیا تھا۔خوب صورت سا مکان تعمیر کروانے کی چاہت ، گھر کے لئے ضرورت کا معیاری سامان خریدنے کا ارمان ، بچّوں کی بہتر تعلیم وتربیت کی فکر ،والدین ،بھائی ،بہنوں ،رشتے داروں اور دوست یاروں کی فرمائشوں نے مصور القمر اور نازنین کے حسن وجمال میں خاصی کمی پیدا کردی تھی ۔دونوں اب اپنے آپ کو یوں محسوس کررہے تھے کہ جیسے اُن کی حیثیت اُس لباس یا برتن کی سی ہے جو گردش ایّام میں اپنی خوب صورتی کھونے کے بعد آخر کار میلا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے ۔
مصوّرالقمر یاد ماضی میں سرگرداں گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا ۔اُس نے اپنے تین منزلہ مکان پر نظریں دوڑائیں ،پھر اُس نے اپنے آپ سے کہا یہ تیرے محل چوبارے ،یہیں رہ جائیں گے پیارے!۔اُس کے دل ودماغ سے ہوتے ہوئے پورے وجود میں آج نہ جانے کیوں احساس کے خوفناک سائے پھیلتے جارہے تھے ۔اپنی گذشتہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اُسے یہ احساس دلارہا تھا کہ اُس کا وجود وقت کے آہنی شکنجے میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے۔وہ لاکھ کوشش کے باوجو د اپنے آپ کو سدا بہارنہیں رکھ پائے گا۔اُس نے اپنے مخصوص کمرے میں آکر قیمتی سوٹ بوٹ اور ٹائی اُتاری ۔نائٹ سوٹ زیب تن کرہی رہا تھا کہ اتنے میں نازنین اُس کے قریب آئی ۔اُس نے بیوی کو سرتا پا دیکھا۔وہ مسکراتی ہوئی پوچھنے لگی
’’کیا آپ مجھے آج پہلی بار دیکھ رہے ہیں؟ آخر وجہ کیا ہے ؟‘‘
مصور القمر نے کہا
’’تمہارا نام نازنین ہے لیکن اب تم میں بھی وہ پہلے سے نازوانداز نہیں رہے ۔مجھے تمہاری ان خوب صورت ریشمی زلفوں میں کہیں کہیں سفیدی نظر آرہی
ہے۔ تمہارے چہرے پر وہ جوانی کاخمار ونکھار مجھے نظر نہیں آرہا ہے۔ کہیں ہم دونوں بوڑھے تو نہیں ہورہے ہیں!‘‘
نازنین ،مصورالقمر کی باتیں سُن کر کھلکھلاکر ہنس پڑی۔اُس نے کہا
’’کیا آپ ابھی بھی اپنے آپ کو جوان سمجھ رہے ہیں ؟مجھے تو آپ میں بڑھاپے کے آثار سامنے نظر آرہے ہیں ۔آپ کوئی بھی تحریر بغیر عینک کے نہیں پڑھ پاتے ہیں ۔ شوگراور بلڈ پریشرکا آپ پہ غلبہ ہے ،آپ کی ملازمت کا سورج دھیرے دھیرے غروب ہورہا ہے ۔اس عمر میںآدمی لباس کتناہی قیمتی کیوں نہ پہن لے بڑھاپے کے آثار چھپائے نہیں چھپتے‘‘
’’تم کسی حد تک صحیح کہہ رہی ہو لیکن میرا دل جوان ہے ‘‘
نازنین نے کہا
’’دیکھئے، ایک پُرسکون اور آرام دہ زندگی جینے کے لئے جسم وجان کا تندرست رہنا نہایت ضروری ہے ۔اسی لئے کسی بزرگ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے ۔ورنہ زندگی ایک بارِ گراں محسوس ہوتی ہے۔آج آپ مجھے حسب معمول ہشّاش بشاش نظر نہیں آرہے ہیں ۔آخر بات کیا ہے ؟‘‘
مصور القمر نے کہا
’’ کوئی خاص بات نہیں ہے ۔بس یونہی بات میں بات پیدا ہورہی ہے‘‘
’’بہرحال جو بھی ہے ۔مجھے آپ ہر وقت خوش نظر آنے چاہئیں‘‘یہ کہتے ہوئے وہ رسوئی کی طرف چلی گئی ۔اُس نے ڈائنگ ٹیبل پہ کھانا لگادیا ۔کچھ ہی وقت کے بعد مصور القمر کی بیٹی شاہدہ اور اُن کے دونوں بیٹے بھی ڈائنگ ٹیبل کے قریب کرسیوں پہ آکے بیٹھ گئے ۔ شاہدہ گریجویشن کے آخری سال میں ہے ۔بڑا بیٹا عمران ایم بی بی ایس کررہا ہے اور چھوٹا بیٹا ذیشان بارہویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔کھانا کھانے کے بعد نازنین نے اپنے شوہر محترم سے ایک بار پھر پوچھا
’’میں آج آپ کو کسی گہری سوچ میں محسوس کررہی ہوں۔آخر اس خاموشی اور گہری سوچ کی کوئی وجہ تو ہوگی؟‘‘
مصور القمر نے کہا
’’میں نے علمائے دین سے سُنا ہے کہ خاموشی آدھی عبادت ہے ۔اس لئے خاموشی کو ترجیح دینے لگا ہوں‘‘
نازنین نے بطور مزاح کہا
’’لیکن میںنے کسی شاعر کا یہ شعر پڑھا ہے کہؔ
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے‘‘
مصور القمر کے ہونٹوں پہ شعر سُن کر تھوڑی سی مسکان پھیل گئی ۔اُس نے لمحہ بھر تک بیوی کو کوئی بھی بات نہیں بتائی لیکن پھر اُس نے سوچا کہ میری خاموشی کہیں میری شریک زندگی کے لئے تشویش کا باعث نہ بن جائے ۔تب اُس نے کہا
’’نازنین ! زندگی کا ہر لمحہ اعلان ِ جدائی کرتا ہوا گزرجاتا ہے ۔مجھے میرا وجود وقت کے سمندر میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔زندگی کی بے ثباتی کا احساس میری رگ رگ میں اُتر چکا ہے ۔میں مستقبل کے بارے میں بہت کچھ سوچنے لگاہوں۔ اس لئے خاموش ہوں‘‘
نازنین نے مصورالقمر کو سُجھاؤ دیا،کہنے لگی
’’دیکھئے ہرحال میں خوش رہنا سیکھئے ۔زندگی زندہ دلی کانام ہے‘‘
رات کو کھانا کھانے کے بعد مصور القمر نے اپنی قانونی لائبریری میں جاکر لوہے کی الماریوں میں ترتیب وارلگی بڑی ضخیم اور قیمتی کتابوں پر نظریں دوڑائیںتو ایک ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گیا،یہ سوچتے ہوئے کہ میرے مرنے کے بعد ان کتابوں کو کو ن سنبھالے گا ،کون پڑھے گا۔ان کتابوں کے ساتھ میری زندگی کا بیشتر زمانہ گزرچکا ہے ۔وہ اپنی لائبریری سے نکل کراپنے بیڈ روم میں آکے بستر پر دراز ہوگیا۔ اُس کے دماغ میں سوچ کے دائرے پھیلنے لگے۔اُداسی اور مایوسی کے مہیب سائے اُس کے دل ودماغ کا تعاقب کرنے لگے ۔اُس نے سوچا ابھی میں ملازمت میں ہوں،عدالت میں پہنچنے کے فوراً بعد میرے آگے پیچھے چپراسی،دربان، بڑے بڑے سرمایہ دار لوگ اور وکلاء جھک جھک کے مجھے سلام کرتے ہیں۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد میرا دبدبہ ختم ہوجائے گا۔مجھ سے تمام سرکاری اختیارات چھن جائیں گے ۔پینشن میرے بڑھاپے کا مالی سہارا ہوگا۔ میرے وجود میں خون کی کمی آنا شروع ہوجائے گی،میرے سر کے بال برف کی مانند سفید ہوجائیں گے ۔تیز چلنے سے میری سانسیں پھولنے لگیں گی۔ ہاتھ کپکپانے لگیں گے ۔ قوت سماعت اورآنکھوں کی بینائی میں کافی کمی آجائے گی ۔جب میرے سارے دانت ٹوٹ پھوٹ جائیں گے تو پوپلے منہ بات کرتے ہوئے میری بات کوئی بھی سمجھنے والا نہیں ہوگا۔کیا میں اپنے چہرے اور گلے کی جھریاں چھپاپاؤں گا! مجھے یہ احساس بھی اندر ہی اندر نوچ رہا ہے کہ میری اولاد آنے والے وقت میں اپنی اپنی دُنیا آباد کرنے میں لگ جائے گی اور ہم میاں بیوی تمام جسمانی ضعف کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہ جائیں گے۔ہماری اولاد کی نظر میں ہماری حیثیت ایک کباڑ کی سی ہوگی۔ آج میں اپنے اس خوب صورت مکان میں شاندار بیڈ پر لیٹا ہوں ۔آٹھ اینچ کا موٹا گدّ ا میرے نیچے ہے اور ملائم لحاف میرے جسم کو ڈھانپے ہوئے ہے لیکن جب میں ایک دن موت کی آغوش میں چلا جاؤں گا تو یہ سب کچھ مجھ سے چھوٹ جائے گا۔قبر کی تنہائی اور ہمیشہ کی جدائی کا احساس میرے رونگٹے کھڑے کردیتا ہے! ۔مصور القمر نے یہ باتیں سوچتے ہوئے کروٹ بدلی تاکہ نیند کی پری اُسے اپنی بانہوں میں لے لے لیکن وہ سوچ کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتا جارہا تھا۔سوچتے سوچتے رات کے دو بج گئے ۔نیند اُس کی آنکھوں سے غائب تھی ۔وہ بستر سے اُٹھا ۔اُس نے وضو کیا ،اُس کے بعد اندھیرے میں اپنے مالک حقیقی کے آگے سر بسجود ہوا ۔اُس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے یہ سوچتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے بے شمار نعمتوں سے نوازاہے ۔پھر اُس نے دُعاکے لئے ہاتھ اُٹھائے ۔اُس نے آخر پہ کہا
’’اے خالقِ ِ دوجہاں!اے مالکِ جن وانس !اے میرے رب !مجھے دُنیا وآخرت کی زندگی میں کامیاب کیجیے!‘‘
یہ دُعا مانگنے کے فوراً بعد مصور القمر کو گہری نیند آگئی۔اُسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے بارگاہِ الٰہی میں اُس کی دُعا مستجاب ہوگئی ہو۔
سابق صدر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
لین نمبر3، ہائوس نمبر7،فردوس آباد، سنجواں جموں
موبائل نمبر؛7889952532