محمد امین اللہ
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
علامہ اقبال کا یہ شعر انسانی رشتوں کو توڑنے اور بکھرنے کی نشان دہی کرتاہے ۔ مروت ہی وہ جذبہ انسانی ہے جو رشتوں کو دوام بخشتا ہے ۔ مروت یا ہمدردی ہی اک آدمی کو دوسرے کے دُکھ سکھ میں شامل ہونے پر آمادہ کرتا ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کی غم گساری کے لئے پیدا کیا ہے ۔
انسان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمے دو کام لگائے ۔ ایک حقوق اللہ دوسرا حقوق العباد ۔ حقوق العباد کی عدم ادائیگی وہ گناہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا ۔ حقوق العباد کی ادائیگی کا دار و مدار صرف اور صرف ہمدردی اور مروت سے منسوب ہے ۔ نبی کریم ؐ کے بعثت کے زمانے میں پوری دنیا کفر و شرک ، ظلم اور جبر کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ کمزور انسانوں پر طاقتور قابض تھے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ تھا ۔ عورت سامان تعوش کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ ایسے میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے رحمت للعالمینؐ بنا کر بھیجا ۔ آپؐ آئے تو زمانے کو قرار آیا ۔ آپؐ غریبوں اور یتیموں کا ملجا و ماوا بن کر آئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا اور جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ۔ آپؐ نے انسان تو انسان جانوروں پر بھی شفقت و رحمت کرنے کا حکم دیا ۔ دُکھی انسان پر شفقت و محبت کرنا اسلام کے بنیادی اخلاقیات میں سے اعلیٰ ترین حسن خلق ہے۔سورہ المامون میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو آخرت کا جھٹلاتا ہے ، یہ وہی ہے جو یتیموں کو دھتکارتا ہے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتا ہے اور نہ لوگوں کو کو ترغیب دیتا ہے ۔‘‘
انسان اکیلا نہیں رہ سکتا ،ایک دوسرے کا محتاج ہے ۔ ہمارے درمیان خونی اور نسبی رشتوں کے علاوہ نظریہ ضرورت کا رشتہ موجود ہے ۔ ہر آدمی ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کا سامان فراہم کر رہا ہے جو ہمارے رزق سے وابستہ ہے ۔ پوری دنیا کا کارخانہ حیات اسی طرح چل رہا ہے ۔ کسان ، گوالا ، بنکر ، درجی ، مزدور ، اُستاد ، تاجر سب ایک دوسرے کے لئے کام کر رہے ہیں ، لہٰذا اس لین دین کے کارو بار زندگی میں افادیت اسی وقت آئے گی جب ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے ۔ انسانوں کی آبادی جیسے جیسے بڑھتی گئی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایجادات کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور اب یہ دنیا مشینوں کی دنیا بن چکی ہے۔ ہر کام کے لئے گھر سے لے کر مل فیکٹری تک ، دفتر سے لے کر بازار تک ، سفری سہولیات سے لے کو پیغام رسانی تک سرعت کے ساتھ مشینیں انجام دے رہی ہیں ۔ گھریلو خواتین آٹا گوندھنے کی زحمت سے لے کر کپڑا دھونے تک ، مصالحہ پیسنے سے لے کر گھر کی صفائی کرنے تک ،ہر کام سے آزاد ہو چکی ہیں ۔ کسان کھیتوں میں ہل چلانے ، بیج بونے ، فصل کاٹنے ، بالیوں سے اناج الگ کرنے ،کھیتوں میں آب پاشی کرنے تک ہر کام مشینوں سے کر رہا ہے ۔
یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد یہ دنیا مکمل طور پر مادہ پرست اور زر پرست بن چکی ہے۔ یورپی اقوام نے ہوس ملک گیری کے ذریعے ایشیا اور افریقہ کے تمام ممالک پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ قتل و غارتگری کا بازار بھی گرم رکھا اور ان تمام ممالک کی معدنی دولت اور عوام کے سرمائے کو لوث کر اپنے ملکوں میں ترقی اور خوشحالی قائم کی ۔ ان کی جارحیت کا سب سے بڑا شکار مسلم دنیا ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آج سے 60 ،65 سال قبل ، ترکی اور افغانستان کے علاوہ تمام مسلم دنیا یورپی اقوام کی غلامی میں تھی ۔ ان کی ہوس ملک گیری جو بے رحمی ، بے مروتی اور مفاد پرستی اور بالا دستی کی مظہر تھی، ایک دوسرے کے خلاف جنگ پر آمادہ کر دی اور دو عالمی جنگیں جو 1914 اور 1939 میں شروع ہوئیں اور پانچ سالوں تک چلیں ،کروڑوں انسان موت کے آغوش میں گئے اور اس سے زیادہ معذور ہوئے ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعدایک اور کمیونسٹ انقلاب میں اب تک پوری مسلم دنیا خاک و خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ تمام مسلم ممالک امریکہ ، یورپ ، روس ، اسرائیل اوربرطانیہ کی جارحیت کا سفاکانہ بربریت اور تباہی سے دوچار ہے۔ سوا کروڑ سے زیادہ مسلمان مرد عورت اور بچے اس عسکری اور جدید ہتھیاروں کے ذریعے تہہ تیغ کئے جا چکے ہیں ۔ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بھی استعمال ہو رہے ہیں ۔ مشینیں جو انسانوں کی ایجادات ہے انسانی کردار کو محدود سے محدود تر کر دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے بے روزگای بڑھتی جا رہی ہے جو غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ کر رہا ہے جس کی وجہ سے جراثیم بھی بڑھ رہا ہے ۔ مشینوں نے ایک دوسرے پر انحصار کم کر دیا ہے جس سے انسانی رشتے متاثر ہو رہے ہیں ۔ خاندان بکھر رہے ہیں ۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے سرعت کے ساتھ انسان کو اپنا قیدی بنا لیا ہے ۔ آج لوگ اپنے گھروں میں بھی موبائل دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو وقت دینے کے بجائے موبائل سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں ۔
مصنوعی ذہانت کے ایجاد کے بعد یہ دنیا چند سالوں میں روبوٹک ہو جائے گی اور مرد و زن ایک دوسرے سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے بجائے روبوٹک بیوی اور شوہر رکھنے کے عادی ہو جائیں گے، جس کا آغاز جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہو چکا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق جاپان کے 40 فیصد سے زیادہ نوجوان شادی کے جھمیلوں میں پڑنے سے خود کو آزاد کر چکے ہیں اور Visual wife اور Visual husband رکھ رہے ہیں ۔ امردگی یعنی بغیر شادی شدہ رہنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، BBC پر تو یہ رپورٹ بھی شائع ہو چکی ہے کہ ایسے website موجود ہیں جہاں پوری دنیا سے لوگ امرد ہوکر ممبر بن رہے ہیں اور اپنے نام کا اندراج کرواتے ہیں اور تنہا رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ یورپ کی مادر پدر آزاد تہذیب نے تو خاندانی نظام کو ہی ختم کر دیا ہے ۔ ایسی کالونیاں بنی ہوئی ہیں جہاں single parent یعنی مائیں بچوں کو لے کر رہتی ہیں ،جن کے حقیقی باپ کا پتہ نہیں اور نہ کوئی مرد اس کی ذمّہ داری لینے کو تیار ہے ۔ بوڑھے ماں باپ کی خدمت اور تیمارداری کرنے کے بجائے اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ کرونا وبا میں سب سے زیادہ اموات یورپ امریکہ کے اولڈ ایج ہوم میں ہوئیں، جہاں سے ان کی دیکھ بھال کرنے والی نرسنگ اسٹاف فرار ہو گئیں ۔
انسان کے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جس کو دل کہتے ہیں ،جہاں ہر طرح کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ۔ دل کی کثاوت سے آدمی کے اندر بے رحمی پیدا ہوتی ہے جو آدمی کو ظالم بنا دیتی ہے، دل کی نرمی سے رواداری حلم اور محبت پیدا ہوتی ہے ۔ آج کے جدید سائنسی ایجادات اور الیکٹرانی آلات نے آدمی کو پرلے درجے کا خود غرض اور بے رحم بنا دیا ہے ۔آج کل لوگ اتنے مشینی ہو گئے ہیں کہ بیمار کی عیادت اور فوتگی کی تعزیت موبائل فون کے میسز سے کرتے ہیں ۔فیس بک اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے ایک دوسرے کے عزت نفس مجروح کرنے کا معمول بن گیا ہے ۔ عفو و درگزر کرنے کے روادار نہیں رہے ۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا، جو مجھ سے کٹے ،میں اس سے جوڑوں ۔ جو مجھے محروم کرے میں اسے ایک دوں۔ یہ مروت اور رواداری کے اعلیٰ صفات ہیں جو مسلمان معاشرے کا حسن ہے ۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا، وہ شخص سب سے بہتر ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔