خالد آٹو رکشا والا اپنے اڑے میں سب سے ایماندار مانا جا تا تھا۔خالد کی ایک خوبی، جو اس کو سب سے جداکرتی تھی، یہ تھی کہ ہڑتال کے دن وہ مفت میں سواریاں اُٹھاتا اور انہیں منزل پر پہنچاتا تھا ۔اُس کو شہر کے اندر سے گزرنے والے سبھی آڑے ترچھے، اُوبڑ کھابڈ راستے اور گلی کوچے معلوم تھے، جہاں سے نکل کر وہ غریب ،بے کس اور مجبور لوگوں کو منزل تک پہنچا دیتا تھا۔ آج بھی ہڑتال میں وہ گھر سے نکلا مگر آج یہ ہڑتال کسی عام شہری کی ہلاکت پر نہیں تھی بلکہ خالد کو صرف اتنا معلوم تھا کہ دفعہ35-Aنامی کوئی قانون ہے اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی جا رہی ہے۔خالد اسپتال کے باہر دماغ پہ زور ڈال رہا تھا کہ اس کے ساتھ اور کچھ بھی تھا۔ مگر کافی کوششوں کے بعد بھی اس کو یاد نہ آیا۔وہ دماغ پہ اور زور دینے ہی والا تھا کہ اسپتال سے دو آدمی نکلے جن میں ایک سفید کوٹ میں ملبوس تھا ۔وہ دنوں پریشان نظر آرہے تھے اور باتیں کر رہے تھے ۔خالد ان کے قریب کھڑا تھا اور جب اُس نے خون کا لفظ سنا تو اُس نے سر اُن کی طرف موڑکر کہا۔
صاحب خیریت تو ہے، کدھر جانا ہے آپ کو ۔
وہ دونوں اک دم خالد کی اور پلٹے اور کہا تجھے اُس سے کیا مطلب۔ جائواپنا کام کرو۔ کوئی ضرورت نہیں تمہیں بولنے کی کہ ہمیں کدھرجانا ہے ۔وہ کچھ اور بولنے والے ہی تھے کہ سفید کوٹ والے کا فون بجنے لگا ۔فون رسیو کرتے ہی وہ انگریزی میں بولنے لگا Sir i am trying my best to arrange the blood as soon as it is possible i will report.(جناب میں خون کا بندوبست کرنے کی زبردست کوشش کررہا ہوں۔ جتنی جلد مجھے ملتا ہے، میں حاضر ہوجائوںگا)
فون کاٹ کر وہ دوسرے ساتھی سے مخاطب ہوا ،اب سر کو کیا بولوں کہ یہاں گاڑی نہیں ملنے والی ۔خالد نے یہ جملہ سنتے ہی پھرڈرتے ڈرتے کہا ،صاحب میرا آٹو ہے چلئے گا کیا ۔تم آٹو چلاتے ہو کیا، کہاں ہے تمہارا آٹو؟ جلدی لے کر آو! ہمیں بلڈ بنک تک جانا ہے، سفید کوٹ والے نے کہا۔
خالد جب آٹو لے کر آیا تو وہ دنوں آٹو میں سوار ہوئے اور پردہ نیچے گرا کر سفیدکوٹ والے کے ساتھی نے خالد سے کہا،تم آٹو والے ناعام لوگوںکو خوب لوٹ لیتے ہو ہڑتال کے دن، اسلئے ہمیں پہلے ہی بتا دو کہ کرایہ کتنا لو گئے وہاں تک ۔
خالد نے مسکرا کر کہا صاحب ہم اُن لوگوں میں سے نہیں۔ میں ہڑتال کے دن مفت سواریاں اُٹھاتا ہوں وہ اسلئے کہ میں بھی اپنے وطن کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں ،میں نے کہی زخمی لوگوں کو ہڑتال میں اسپتال پہنچایا ہوگا ۔مگر صاحب اُن میں سے خال ہی کوئی زندہ بچ جاتا تھا اور جس کو اللہ کے کرم سے نئی زندگی مل جاتی تھی وہ ہمیشہ کے لئے آنکھوں کی روشنی سے محروم۔۔۔۔یہ جملہ کہتے ہی خالد کو ہچکی سی بندھی اور آنسوں ٹپ ٹپ کر آنکھوں سے برسنے لگے۔
ارے بھائی تم تو رو دیئے۔ اس نے تو مذاق کیا تھا۔ میں اس کے بدلے آپ سے معافی مانگتا ہوں کیونکہ اس نے ہی نہیں ہم دنوں نے تم کو غلط سمجھا، سفید کوٹ والے نے خالد کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔نہیں صاحب اس میں آپ لوگوں کی کیا غلطی ہے۔ میر ے چہرے پہ تھوڑی ہی لکھا ہے کہ میں کیا ہوں اور کیا نہیں ہوں۔خالد نے پانی کی بوتل ایک ہاتھ میں لے کر کہا۔
خالد کا معصومانہ جواب سن کر وہ دونوں آپس میں با تیں کرنے لگے۔ سفید کوٹ والے کا دوسرا ساتھی کہنے لگا اب پتہ نہیں اس Article 35-A کا کیا ہوگا۔ یہ سب نا سیاست ہے اور کچھ نہیں ہمیں ہمیشہ سیاست کے لئے استعمال کیا گیا اور آج بھی یہی کچھ ہوگا۔
خالد کی تعلیمی حیثیت اگرچہ صفر کے برابر تھی کیونکہ اسکول کی تعلیم اُس نے بچپن میں ہی چھوڑی تھی لیکن پھر بھی دنیا میں اور خاص کر کشمیر میں کیا کچھ ہو رہا ہے، اس سے کافی دلچسپی تھی ۔اسلئے تو دفعہ 35-Aکا نام سنتے ہی خالدکے کان کھڑے ہوئے ۔صاحب یہ دفعہ 35Aکیا ہے۔؟ خالد نے بڑے شوق سے پوچھا۔
سفید کوٹ میں ملبوس آدمی نے کہا دفعہ35-Aہماری سرزمین کے پشتینی باشندوں کو خصوصی درجہ دیتا ہے ۔ سارے ہندوستان میں اسکی رو سے جموں وکشمیر سے باہر کوئی شخص یہاں زمین خریدنے، سرکاری نوکری حاصل کرنے اور مقامی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں رکھتا۔ اگر یہ دفعہ ختم ہوگئی تو باہر سے لوگ آئینگے اور آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا اور ہمارے روزگار پر بھی اثر پڑیگا اور ہم محتاج ہوجائیں گے۔
خالد نے بڑی حیرت سے کہا تو یہ ہے 35A۔اللہ نہ کرے ایسا کچھ ہو صاحب میں گناہ گار جب بھی نماز پڑھتا ہوں تو اللہ سے ضرور یہ دعا مانگتاہوں کہ اب ہمارا آخری فیصلہ کر دے۔بہت امتحان لے چکا تو ہمارا، اب اور امتحان نہ لے۔اچھا صاحب باتوں باتوں میں آپ کا بلڈ بنک بھی آگیا ۔وہ دنوں جب آٹو سے نیچے اُترے تو سفید کوٹ والے نے ہا تھ میں رکھے پیسے خالد کی جیب میں ڈال دیئے ۔نہیں صاحب یہ پیسے واپس لیجئے خالد نے جیب سے پیسے نکال کر کہا۔اُن دونوں نے ایک ہی آواز میں کہا کہ یہ پیسے کرایہ نہیں تمہاری زندہ دلی اور ایمانداری کا انعام ہیں۔ اب جلدی سے واپس ہسپتال جائو، وہاں کوئی اور حاجت مند انتظار کر رہا ہوگا ۔سفید کوٹ والے نے خالد کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔اچھا خدا حافظ اور یاد رکھنا صاحب یہ پیسے میں بچاکے رکھونگا۔ مبادا دفعہ35Aہٹ جائے اور میرے لئے کام نہ رہے، اُس وقت میرے کام آئینگے۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے آٹو سٹارٹ کیا اور تیزی کے ساتھ چل پڑا۔
کشمیر یونیورسٹی سرینگر