مدثر حسن مرچال
برف کی سفید چادر نے بازار کو اس طرح اپنی آغوش میں لیا تھا کہ گویاپورا بازار سنگ مرمر سے تراشا گیا ہو۔اس پر دوکانوں کے اندر چمکنے والے تیز روشنی کے بلب اور ٹیوب لائٹس نے منظر کو مزید دلکش بنایا ہوا تھا۔آس پڑوس میں رہنے والے نوجوانوں اور بچوں کی خاصی تعداد مارکیٹ میں ٹولیاں بنا بنا کر Barbique اور گرماگرم کباب کا لطف اٹھاتے ہوئے آپسی گپ شپ میں مصروف تھے۔برفیلی سڑک پر سرکتی کھسکتی ہوئی ٹیکسیاں اور کاریں بھی اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھیں۔لیکن یہ منظر جتنا دلکش تھا جمال کی بے چینی اتنی ہی بڑھتی جا رہی تھی۔ دن بھر کے تھکا دینے والے کام سے فارغ ہوکر جمال گھر کی طرف نکلا تھا لیکن گائوں کی کوئی بھی بس یا ٹیکسی اسے اب تک نہ ملی تھی۔اُس نے جس سے بھی معلوم کیا اس کا یہی کہنا تھا کہ جمال کے گاوں سے سہ پہر سے ہی کوئی بس یا ٹیکسی نہیں آئی تھی ۔جمال کے گائوں جانے کے لئے کوئی بس یا ٹیکسی کا شام کے بعد دستیاب نہ ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن آج موسم ناسازگار ہونے کی وجہ سے یہ تعجب کی بات بھی نہ تھی۔ دوپہر کو اچانک شروع ہوئی موسم کی پہلی برفباری اب تک لگاتارجاری تھی جس کی وجہ سے گاڑی ملنے کا امکان مزید کم ہوتا جا رہا تھا۔ کسی دوست کے ہاں ٹھہرنے کا بھی فیصلہ صحیح نہیں لگ رہا تھا۔ بالآخر جمال نے اپنے گاوں کا قریب ۱۲ کلومیٹر کا سفر پیدل ہی طئے کرنے کا ارادہ کر لیا۔ سڑک پہ جمع برف اور ٹھنڈے پانی سے جمال کے پاوں یخ بستہ ہو گئے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے گاو ں کی طرف پیش قدمی کرنے لگا۔بازار کی چکاچوند اور دوکانوں کی چمک دھمک سے باہر نکلتے ہی وہ سنسان سڑک پر پہنچ گیا جہاں اب وہ اکیلا ہی چلا جا رہا تھا۔ موبائل کی بیٹری جواب دے چُکی تھی جس کی وجہ سے گھر والوں کے ساتھ رابطہ بھی منقطع ہو چُکا تھا۔ وہ کبھی اپنے پیچھے اور کبھی دائیں بائیں نظریں پھیر کر پوری طرح سے آس پاس کا جائزہ لے کر پھر آگے بڑھتا۔روشنی نہایت کم ہو چکی تھی اور بستیاں بھی سڑک سے کافی دُور تھیں۔لگ ٹھیک آدھے گھنٹے سے پیدل اکیلے چل رہے جمال کو جب کوئی ہمسفر نہ ملا تو جمال پر ایک انجان سا خوف طاری ہونے لگا ۔اب اُسے بار بار یہ گمان ستارہا تھا کہ اس نے دوست کے ہاں ٹھہرنے کے بجائے اکیلے اندھیرے راستوں پہ چلنے کا جوکھم کیوں اٹھایا۔ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لئے وہ کبھی گُنگُنانے لگتا تو کبھی اپنی جیب سے موبائل نکال کر اسے Switch ONکرنے کی ناکام کوشش کرتا۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ اپنے آپکو تسلی دیتے ہوئے دُور بستیوں سے آنے والی روشنی سے سمجھانے لگتا کہ لوگ آس پاس ہی ہیں۔
ٹھٹھرتی سردی میں برفیلے راستوں پہ چلتے چلتے جمال کو اچانک آہٹ سُنائی دی۔ وہ ایک جھٹکے سے پیچھے مُڑ الیکن کوئی نظر نہ آیا۔ وہ تھوڈی دیر کے لئے سہم گیا لیکن پھر اپنے آپ کو تسلی دیتا ہوا دوبارہ قدم بڑھانے لگا۔ چلتے چلتے اسے وہ ساری کہانیاں یکے بعد دیگرے یاد آنے لگیںجو اسے بھوت پریت یا آسیب سے متعلق آج تک سُنائی گئی تھیں۔اس کے ذہن میں اخبارات وہ سرخیاں بھی گردش کرنے لگیں جو قتل کی وارداتوں سے متعلق اس نے آج تک پڑھی تھیں۔ خوف کے مارے اس کا گلا سُوکھ رہا تھا۔ جمال زور زور سے آواز لگانا چاہتا تھا لیکن اسے معلوم تھا کہ یہ آواز سِوائے اُس کے کوئی دوسرا سُننے والا نہیں۔ اُسے تھوڑی ہی دیر کے بعد پھر سے آہٹ سُنائی دی ۔ اب اُسے یقین ہونے لگا کہ کوئی اس کے تعاقب میں ہے۔ کون ہو سکتا ہے؟ وہ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنے لگا۔ چور؟ آسیب؟ یا پھر۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنے آپ کے ساتھ ہی بڑبڑارہا تھا۔
کہاں جا رہے ہو؟ پیچھے سے غُراتی ہوئی آواز آئی۔ جمال نے آواز سُنتے ہی فوراََ اپنا نام بتایا گویا اسے معلوم تھا کہ اس سے اس کا نام پوچھا جانے والاہے۔۔۔۔ جمال پر اتنا خوف طاری ہوا تھا کہ اب نہ اسے ٹھنڈ کا احساس ہو رہا تھا اور نہ ہی راستے کی تھکن یاد تھی۔ وہ کسی طریقے سے زندہ گھر پہنچنا چاہتا تھا۔
غرانے والی آواز کے مالک اجنبی شخص نے جمال کے قریب آکر اسے مزید پوچھ تاچھ شروع کی۔
میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو وہ بھی رات کو اکیلے اکیلے؟
جمال نے اپنے خوف کو ظاہر نہ کرتے ہوئے جواب دیا،ـ”جی میں وہ گھر جا رہا تھا ، کوئی گاڑی نہیں ملی تو میں پیدل ہی نکل پڑا”
اجنبی آدمی نے لائٹر سے بیڈی سُلگائی ۔ لائٹر کی ہلکی سی روشنی سے اس کا چہرہ عیاں ہو گیا۔ گہری مونچھوں والا ادھیڑ عمر کا شخص، جس کے سر پر ایک سیاہ گرم ٹوپی تھی، نیم کھلی آنکھوں سے کوئی نشیڈی معلوم ہوتا تھا۔ جمال اجنبی شخص کا چہرہ دیکھ کر مزید خوفزدہ ہوا ۔وہ کسی طرح اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا۔
“آپ کی تعریف؟۔۔۔۔ ” جمال نے دھیمی آواز میں بڑی گھبراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
اجنبی نے جواب دیا، میں بس یہیں پاس میں رہتا ہوں ۔۔۔ تمہیں اکیلے چلتے دیکھا سوچا تمہیں آج رات یہیں ٹھہرنے کو بولوں۔۔۔۔
جمال نے بڑی معذرت کے ساتھ کہا ، جی نہیں میں ابھی گھر پہنچ سکتا ہوں۔ ۔۔۔ پوچھنے کے لئے شکریہ۔۔۔
ارے نہیں بھئی خواہ مخواہ راستے میں پریشان ہو جاوگے۔ ۔۔ جنگلی جانور، ڈکیت، چرسی اور پتہ نہیں کس کس سے راستے میں نمٹنا پڑے گا۔ ۔۔۔ اور پھر تم شکل سے ہی بڑے سیدھے سادھے لگ رہے ہو۔۔۔ بہتر ہے کہ ہمارے ہی ہاں ٹھہرو۔
جمال نے اب اطمینان کی سانس لی، یہ سوچ کر یہ کوئی خیر خواہ ہی لگتا ہے اُس نے قدرے اطمینان کے ساتھ جواب دیا، جی وہ فون کی بیٹری ڈیڈ ہے ۔۔۔اگر میں آپ کے گھر ٹھہرا تو گھر والے خواہ مخواہ پریشان ہو جائیں گے۔
اجنبی نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ، کوئی بات نہیں مرے گھر میں فون بھی ملے گا اور چارجر بھی ملے گا۔ جس سے چاہئے فون پہ بات کرلینا۔
جمال نے تھوڈی دیر خاموشی کے ساتھ اجنبی کے گھر میں ٹھہرنے کے مشورے پر غور کیا۔ گھر پہنچنے میں ابھی بھی کافی وقت لگ سکتا تھا اور صحیح سلامت پہنچنے کا امکان بھی کم تھا۔ اس لئے اس نے فی الحال اجنبی شخص کے گھر رُکنے کا سوچ لیا۔ اِس سے پہلے کہ وہ حامی بھرتا اجنبی نے اس کا بستہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ وہ دونوں اب سڑک سے جُڑنے والی ایک پگڈنڈی پہ اترے اور اجنبی شخص کے گھر کی طرف چلنے لگے۔
جلدسے جلد میں کہیں پہنچ جائوں پھر پہلے گھر ہی فون کر کے رابطہ کر لوں گا، جمال من ہی من میں سوچ رہا تھا۔ اجنبی نے گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے جمال سے اس کی ذاتی زندگی سے متعلق سوال پوچھنا شروع کر دیا۔جمال بھی اجنبی کے سوالوں کا جواب دیتا رہا ۔ بات کرتے کرتے دونوں ایک چھوٹے سے مکان کے صدر دروازے پر پہنچ گئے۔ کھیتوں کے بیچ میں الگ تھلگ بنے اس چھوٹے سے مکان کی حالت دیکھ کر جمال کو کُچھ عجیب لگنے لگا۔ بجلی کا نام و نشان نہ تھا جو کہ برف کے موسم میں کوئی نئی بات نہ تھی۔ ایک پُرانی سی لالٹین لئے ایک عورت نے آہٹ سُنتے ہی دروازہ کھولا جوکہ ایک بوسیدہ سا لکڑی کا بنا ہوا دروازہ تھا۔ گھر میں کوئی بچہ یا بوڑھا شخص نہیں دِکھ رہا تھا۔
جمال کو ایک کمرے میں بٹھایا گیاجہاں اسے ایک پھٹی پُرانی کمبل اوڑھنے کو دی گئی۔ وہ اجنبی شخص، جس نے جمال کو اپنے گھر میں پناہ دی ، اب کہیں دوسرے کمرے میں چلا گیا ، غالباََ مہمان کے کھان پان کا انتظام کرنے۔ جمال مٹی سے بنی دیواروں کو غور سے تکنے لگا۔ دیوار پہ گرد آلود ایک کلینڈر لٹکا ہوا تھا۔ کھڑکیوں کے بدلے کمرے میں ایک اونچا سا روشندان تھا جس پر ایک لالٹین جلتی ہوئی رکھی گئی تھی۔
جمال کو اب یہ فکر ستا رہی تھی کہ آیا وہ اپنی ماں سے رابطہ کر سکے گا یا نہیں۔ آس پاس کوئی چارجر نہیں دِکھ رہا تھا۔ وہ انہی خیالوں میں غوطہ زن تھا کہ اجنبی شخص جوکہ اب اس کا میزبان تھا، کمرے میں داخل ہوا۔ ۔۔ معاف کیجئے گا موبائل بھی چارج نہیں ہے اور بجلی بھی نہیں ہے کہ آپ اپنا موبائل چارج کرتے۔اس سے جمال کے چہرے پہ پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ پریشانی سے اس کا چہرہ لال ہونے لگا اور دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔”جی کوئی بات نہیں، اس میں آپ کیا کر سکتے ہیں”۔۔۔ اس نے بے دلی کے ساتھ اجنبی سے جواباََ کہا۔ تھوڑی ہی دیر میں جمال کے لئے کھانا پروسا گیا۔ دال اور روایتی اچار کے ساتھ کھانا اگرچہ نہایت ہی لزیز تھا لیکن جمال کے حلق سے ایک نوالہ بھی نہیں اتر رہا تھا۔ کھانا ختم کرتے ہی جمال پھر سوچ میں پڑھ گیا۔ کبھی موبائل کو ٹٹولتا تو کبھی بجلی کے بلب کی طرف ٹکٹکی باندھتا کہ کب بجلی آجائے اور وہ اپنی ماں سے فون پہ بات کرے۔ وہ اجنبی کے گھر میں ٹھہرنے کے اپنے فیصلے پہ پچھتانے لگا ۔ کبھی سوچتا کہ بس اب واپس اپنے سفر کو جاری رکھوں لیکن جلد ہی یہ خیال آتا کہ اب رات کافی ہوچُکی ہے۔ اب فی الحال گھر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ فکر اور پریشانی کے بیچ وہ میزبان کی کسی بھی بات کی طرف زیادہ دھیان نہیں دے پارہا تھا ۔ جلد ہی جمال کے لئے بستر کا انتظام کیا گیا اور جمال بستر پر لیٹ گیا۔
ماں پریشان ہوگی ۔۔۔۔ وہ میرا انتظار کر رہی ہوگی۔۔۔۔ اُسے کہاں نیند آئے گی؟ یکے بعد دیگرے یہ سوال باربار جمال کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ ۔۔۔ اُس نے فون بھی ٹرائے کیا ہوگا۔۔۔ ہائے پھوٹی قسمت یہ فون کی بیٹری کو بھی جلدی ڈائون ہونا تھا۔۔۔۔۔ وہ کبھی فون کو کوستا تو کبھی اپنے آدھے راستے میں رُکنے کے فیصلے کو۔ ۔۔۔۔کروٹ بدلتے بدلتے اس کی پسلیاں درد کرنے لگیں۔ ۔۔۔ رات کے بیشتر حصے میں کروٹ بدلتے بدلتے بالآخر جمال کو رات کے آخری پہر میں نیند آہی گئی۔
صبح جب آنکھ کھلی تو باہر سے گاڑیوں کا شور سُنائی دیا۔ روشندان سے آنے والی روشنی سے کمرے کی خستہ حالت نمایاں ہو گئی تھی، بستر کی بوسیدہ حالت یہ بتا رہی تھی کہ رات جس کے گھر میں اس کا ٹھکانہ تھا وہ بڑے دل والا ایک غریب شخص تھا ۔ ایک طرف جمال کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا کہ اب رات ڈھل چُکی ہے لیکن دوسری طرف اسے یہ اضطراب تھا کہ کب وہ گھر پہنچ کر اپنی ماں کے چہرے کی زیارت کرے۔ اس نے ہاتھ منہ دھو کر پھرتی سے چائے ختم کر دی۔ میزبان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ فوراً سڑک پہ نکلا سڑکوں سے برف ہٹائی جا چکی تھی۔ لوگوں کی گہماگہمی بڑھنے لگی تھی۔ جلد ہی جمال کو گائوں کی بس ملی جس سے وہ منٹوں میں اپنے گھر پہنچ گیا، جہاں جمال کی ماں باورچی خانے میںتکئے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ماں! جمال نے آواز لگائی۔۔۔ آواز سُنتے ہی جمال کی ماں یوں چونک کر کھڑی ہوئی گویا مردے میں جان آگئی ہو۔ جمال کو دیکھتے ہی ماں نے کھڑے ہو کے اسے گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ تمہیں پتہ بھی ہے میرا کیا حال ہو رہا تھا۔۔۔ ارے میرا تمہارے سوا ہے ہی کون۔۔۔۔ میں رات بھر گھر گھر پتہ کرتی رہی کہ قصبے سے میرا بیٹا ابھی تک نہیں آیا وہاں کُچھ ہوا تو نہیں ہے۔۔۔ آدھی رات کو تھک کر گھر واپس آئی تب سے رو رو کر یہیں پڑی ہوں۔۔۔۔ ماں جمال سے شکوہ کرتی رہی ، روتی رہی اور جمال کے ماتھے کو چومتی رہی۔
���
ہردوشیواہ زینہ گیر،
موبائل نمبر؛9149468735