عمر مشتاق عاؔقب
علمی دنیا شاہ اجمل فاروق ندوی سے اچھی طرح متعارف ہے۔ موصوف ایک نوجوان محقق اور صاحب قلم شخصیت ہے، زیر تبصرہ کتاب کے علاوہ بھی موصوف چند اور کتب کے مصنف اور مرتب ہے۔’’اطلبوالعلم من المهد الى اللحد‘‘ یہ جملہ زبان زد عام ہے اور اکثر علم کی اہمیت واقع کرنے کے لیے نقل کیا جاتا ہے۔ علم انسان کو پستی سے بلندی کی طرف لے کر جاتا ہے، علم ادنیٰ کو اعلیٰ بناتا ہے، غیر تہذیب یافتہ اقوام کو تہذیب کی دولت سے مالا مال کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اہل علم افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
علم کی فضیلت، عظمت، ترکیب، تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ اور دلاویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی۔ قران پاک میں تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک پر نازل فرمایا وہ ’’ اقراء‘‘ہے یعنی ’’پڑھ‘‘۔ اور قرآن پاک کی تمام آیات میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان میں قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔
’’علم وجودِ انسانی کی روح ہے اور مطالعہ حصولِ علم کا وسیلہ‘‘ (صفحہ ۱۳) ۔حصولِ علم کے لیے سب سے زیادہ مؤثر اور مقبول ترین طریقہ مطالعہ ہے، لیکن مطالعہ برائے علمی ارتقا کا ہونا ضروری ہے نہ کہ مطالعہ برائے قرأت۔ بقول مصنف قرأت اور مطالعہ دو مختلف چیزیں ہیں ۔قرأت وسیلہ ہے اور مطالعہ مقصد۔ قرأت الفاظ سے گزرنے کا نام ہے اور مطالعہ الفاظ کی روح کو اپنے ذہن و دماغ میں بسا لینے کا۔ قرأت لفظوں کا کھیل ہے تو مطالعہ روح اور حقیقت کا میل۔ اسی لیے سچے معنوں میں مطالعہ کرنے والا حقائق کا ادراک کر لیتا ہے۔ اشیاء کا فہم حاصل کرتا ہے۔ کائنات کے مغز کو پا لیتا ہے۔ عناصر کی روح اور روح کے عناصر اس پر کھل جاتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ علم کی روح، روح کا علم ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے نظر کا دھوکا ہے۔ دیوانے کا خواب ہے۔ گورکھ دھندہ ہے۔ اسی لیے خالقِ فطرت نے رسولِ فطرت کو کتاب فطرت کے ذریعے پہلا سبق مطالعۂ فطرت کا ہی پڑھایا یعنی مطالعہ صدائے فطرت بھی ہے، تقاضائے فطرت بھی ہے اور بقائے فطرت بھی۔
مقولہ ’’ جان ہے یو جہان ہے ‘‘ جتنا مشہور ہے، اتنا ہی محدود ہی۔ سچ یہ ہے کہ مطالعہ ہے تو روح ہے، روح ہے تو ادراک ہے اور ادراک ہے تو کائنات ہے۔ ادراک ختم تو کائنات بھی ختم۔‘‘ ( صفحہ ۱۳-١٤) اس کتاب کا مقصد نئے طلباء و طالبات کو مطالعہ کی اہمیت، مطالعہ کو کارآمد، مفید مطالعہ کا طریقہ کار سکھانا ہے۔ پروفیسر اختر الواسع صاحب نے مقدمہ لکھ کر مطالعہ کہ اہمیت کو ایسے ظاہر کیا ہے کہ لکھتے ہیں’’قوموں کا مستقبل کتاب سے تعلق اور صالح نوجوانوں کے ذریعے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے‘‘ (صفحہ ١٢) اور پھر مطالعہ کو مفید بنانے کے لیے اس کتاب سے رشتہ جوڑنے کے لیے بھی کہا ہے۔
مطالعہ کو کارآمد، مفید بنانے کے لیے مصنف کی یہ تصنیف علم و کتاب سے محبت کرنے والے، کیا چھوٹے کیا بڑے، ہر ایک کے لیے ایک بہترین رہنما بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس تصنیف میں مصنف نے مطالعہ کے ہر قیمتی کونے پر بات کرنے کا حق ادا کیا ہے۔ معلومات واقعی قیمتی اور سلیس و آسان انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ جن سے ہر ایک نوخیز طالب علم فائدہ اٹھا سکتا ہے۔سلیس اور آسان زبان استعمال کرنے کی وجہ سے یہ کتاب نئے طلبہ و طالبات میں بھی مطالعہ کا رجحان بڑھانے کے کام آ سکتی ہے۔ کتاب میں مسلمان، غیر مسلمان مصنفین کی مثالیں دے کر ان کا شوقِ مطالعہ اور ان کے نزدیک اہمیتِ مطالعہ دلچسپ انداز میں بیان کر کے مصنف نے بہت زبردست کوشش کی ہے کہ نوجوان طبقہ کو مطالعے کی طرف راغب کیا جا سکے اور مصنف اس کام میں بالکل کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ کتاب کا پہلا ایڈیشن میرے ہاتھ میں ہے، کتاب کی کتابت اور طباعت بالکل صحیح ہے۔ کتاب کی ضخامت اگر چہ ١١٢ ہے لیکن اصل کتاب ٩٢ صفحات پر مشتمل ہے جس کے بعد مصنف کی تجویز کردہ کتب کی فہرست ہے جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔میرے خیال سے اس کتاب کے بعض گوشے پھیلاؤ چاہتے ہیں۔ مصنف نے خود اس بات کا اعتراف (صفحہ ١٥ ) پر ایسے کیا ہے لکھتے ہیں کہ ’’کوشش کی گئی ہے کتاب کے ضخامت کم رہے اور زبان و اسلوب عام فہم ہو کتاب کو ثقل سے بچانے کے لیے حوالہ جات کے بجائے فہرستِ مراج پر اکتفا کیا گیا ہے۔‘‘ مجھے قوی امید ہے کہ انشاءاللہ آنے والے ایڈیشن میں کتاب کے ضخامت بڑھا دی جائے گی۔
اور آخرکار میں قارئین سے خصوصاً طلباء نوجوانوں سے عرض کرتا ہوں کہ اس کتاب کی کامیابی اسی میں پوشیدہ ہے کہ آپ اس کے مشمولات سے عملی زندگی میں پوری طرح استفادہ کریں۔ امت مسلمہ کی تقدیر اسی صورت میں بدل سکتی ہیں جب اس کی نوجوان نسل کثیر الجہات اور وسیع الاطراف علم سے آراستہ ہو ۔اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ نہ قاری کو شوقِ مطالعہ، اہمیت مطالعہ اور تکنیکِ مطالعہ ہو۔