اُترپردیشً! سیداحمد شہید، شاہ اسماعیل شہید ، سر سید احمد خان ، علامہ شبلی نعمانی ، سید سلیمان ندوی، علامہ حمیدالدین فراہی،علامہ علی میاں ندوی،علامہ قاسم نانوتوی،علامہ اشرف علی تھانوی،علامہ سید الرحمن مبارک پوری ، علامہ امین احسن اصلاحی،مولانا صدرالدین اصلاحی وغیرہم جیسے اکابرعلماء کی سر زمین ہے۔یہ وہ سر زمین ہے کہ جس پر دارالعلوم دیو بند ،ند وہ العلماء،مدرستہ الاصلاح اور جامعہ ا لفلاح جیسے یکتائے روز گاردینی ادارے قائم ہوئے ۔اسی سرزمین پرآج سنگھ پریواراپنے نیتا یوگی ادتیہ ناتھ کے ہمرکاب ہوکرمسلمانوں کے سینے پرمونگ دل رہاہے ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
بلاشبہ خطے میں ہرگذرتے دن کے ساتھ ساتھ قائداعظم محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت پر مہرتصدیق ثبت ہو تی جارہی ہے۔برصغیر جنوبی ایشیا میں قدیم ثقافت اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ کبھی لکھنو ہوا کرتا تھا۔ کسی بھی تہذیب کا جہاں سب سے ٹھوس اور طویل المدت اظہار اس کا فن تعمیر ہوا کرتا ہے وہاں اس تہذیب و تمدن کی نفاست یا پسماندگی کا اندازہ اس کی زبان، ثقافت، فنون، غذائوں اور خورونوش کے انداز اور ان کے کھانوں کے معیار سے لگایا جاتا ہے۔ ایک صدی سے زائد عرصے تک لکھنوکے بارے میں یہ مشہور تھا کہ جس کسی نے بھی لکھنو جا کر’’ٹنڈے ‘‘کے کبابوں کا مزہ نہیں لیا وہ کبھی اصل لکھنو گیا ہی نہیں۔یہ کباب 1905 میں بننا شروع ہوئے تھے ۔مرزااسدللہ غالب کولکھنوکے کباب بڑے ہی پسندتھے۔ یہ کباب لذت اورلطافت کے اعتبارسے اس لئے یکتاتھے کہ ان میں 160 مسالہ جات پڑتے تھے اوریہ صرف بھینس’’مونش‘‘ کے گوشت سے ہی بن سکتے تھے۔لیکن ایک سو بارہ سال بعد 23 مارچ2017 کو پہلی مرتبہ اس ٹنڈے کے کباب ان کے رسیائوں کو ملنا اچانک بند ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اتر پردیش کے نئے ہندو بنیاد پرست پجاری یوگی ادیتیا ناتھ نے وزیر اعلی کا حلف اٹھانے کے بعد پہلاحکم نامہ یہ جاری کیا کہ اتر پردیش کی پوری ریاست میں گوشت کی دکانوں اور ذبح خانوں کو بند کر دیا جائے۔بھارت جس ڈگرپرجارہاہے اس میں یو گی ادتییا ناتھ جیسے درندے ہی اقتدار میں آتے ہیں۔ یہ بربریت اب انسانی تہذیب اور تمدن کے لیے ہولناک خطرہ بنا چکی ہے۔ اس کی اقتصادی اور سماجی بنیادوںکو یکسر بدلے بغیر اس کی وحشیانہ جارحیت کو شکست فاش نہیں دی جا سکتی۔
بھارت میں 2014کے انتخابات کے بعدلگ یہ رہاہے کہ وقت قریب آرہاہے کہ جب ہندتوا تنظیم بی جے پی اپنی سپرست جماعت آر ایس ایس یاراشٹریہ سیوک سنگھ، اور ذیلی انجمنوں وی ایچ پی یاویشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور ڈی جے ایس یادھرم جاگرن سمیتی جیسی ہندو انتہا پسند کے ساتھ پورے بھارت پرراج کرتی ہوئی نظرآئے گی۔ یوپی جیسی اتنی بڑی ریاست میں بی جے پی نے یہ شاندار جیت کسی بھی مسلم امیدوار کو انتخابی میدان میں اتارے بغیر حاصل کی ہے۔بی جے پی کے لیے یہ ایک سیاسی تجربہ تھا اور بی جے پی کو اس میں پوری کامیابی ملی۔ اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی لہر کو جس طرح سے بھی دیکھا جائے، ایک بات صاف ہے اور وہ یہ کہ بی جے پی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر نہ صرف انتخابات جیت سکتی ہے، بلکہ زبردست جیت حاصل کر کے تاریخ رقم کر سکتی ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی جیت نے جہاںسب کو حیران کر دیا،وہیں یہ امربھی قابل ٖغورہے کہ حکمران بی جے پی کا لوک سبھا میں کوئی مسلم رہنما نہیں ہے۔یہ بہت بڑ ا سگنل ہے ۔جس ریاست میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو وہاں مسلمان امیدوار کے بغیر انتخابات لڑنا ایک اس امرکابلیغ اشارہ تھاکہ بھارتی مسلمان نئی آزمائشوں کے لئے اب تیاررہیں۔ یوپی کے نتائج یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ گجرات سے شروع ہونے والا یہ سیاسی حربہ ایک وننگ فارمولہ تھا۔مسلمانوں میں تشویش ہے کہ بی جے پی کی بھاری جیت اور ان کی سیاسی علیحدگی سے مسلم معاشرے کو پریشانی ہو رہی ہوگی۔
ریاست اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زبردست فتح پر بی جے پی حامیوں کے جشن اور جے شری رام کے نعروں کی باز گشت کے درمیان ریاست کا 20 فیصد مسلمان کتنا خوفزدہ ہوا،وہ محتاج وضاحت نہیں۔اترپردیش میں بی جے پی کی کھلی کامیابی اورایک خوفناک مسلم دشمن شخص یوگی آدتیہ ناتھ کو جو مسلمانوں کے تئیں نفرت وتعصب کا ذہن رکھتا ہے، جو مسلمانوں کو مارنے اور ان کے گھروں کو اجاڑنے کی دھمکیاں دیتا پھرتا ہے، جو ان کی عفت و عصمت کی پیکر ماؤں بہنوں کی عصمت سے کھلواڑ کرنے کی باتیںکرتا ہے، حتیٰ کہ مردہ خواتین کو قبرستان سے نکال کر ان کے ساتھ بے حرمتی کرنے کا اعلان کرچکا ہے، آخر اسے ہی کیوں وزیراعلی کے طور اترپردیش پر مسلط کیا گیا، حالانکہ وہاں مسلمانوں کی تعدادباقی ہندوستان سے بہت زیادہ ہے ۔یوپی کے وزیراعلیٰ کے طور یوگی کا ابھی حلف لیے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گزاراکہ بھارتی میڈیااس کی تعریف وتوصیف میں رطب ا للسان نظرآرہاہے۔ الیکٹرانک میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا تک ہر طرف یوگی یوگی کی ہی صدا بلند ہورہی ہے۔ یوگی کے وزیراعلیٰ بننے سے سب سے زیادہ پریشانی اور خوف یوپی کے مسلمانوں میں پایا جارہا ہے اور ان کے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ کیوں ایک ایسے متشدد ،متعصبانہ ذہنیت والے مہنت کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا جب کہ کئی اور بھاجپا کے پاس موجود تھے؟
یوگی آدتیہ ناتھ نے جیسے ہی یوپی کی کمان سنبھالی تسلسل کے ساتھ اور پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے، جنہیں نظر انداز کرنا مستقبل سے آنکھیں پھیرنے کے مترادف ہے۔ جب آدتیہ ناتھ کی حلف برداری تقریب جاری تھی، عین اسی وقت بریلی کالج میں آر ایس ایس پروردہ تنظیم اے بی پی والے موہن بھاگوت پر لب کشائی کئے جانے پر کالج میں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ کررہے تھے۔ اسی شب سپا پرمکھ محمد سمیع کا بے رحمانہ قتل کردیا گیا، اور اسی تاریخ کو ہر جگہ اخباروں نے یہ سرخی لگائی کہ غازی آباد سے لے کر اعظم گڑھ تک ’’مسلمانوں کے لئے حلال جانوروں کے مذبح‘‘ سیل کردیئے گئے۔یوگی کے وزیراعلیٰ بنتے ہی یوپی میں ایک خوف وہراس کا ماحول قائم ہے،اقلیتیں بشمول مسلمان کسمپرسی کی طرف دھکیلی جارہی ہیں، ان کی روزی اور روزگار سے کھلواڑ کیا جارہا ہے، جگہ جگہ چھاپے ماری کرکے ان کی دکانوں کو سیل کیا جارہا ہے، پولیس ہر جگہ مسلمانوں کو ستانے کی درپے ہے۔ ابھی توبابری مسجدکی بنیادپر رام مندر کی مجوزہ تعمیر، طلاق ثلاثہ کا قضیہ باقی ہے، اور وہ عنقریب اس ضمن میں پیش قدمی کریں گے، رام مندر بنانے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا کیوں کہ عدلیہ نے بھی اپنا دامن جھاڑ لیا ہے۔ بھلے سے رام مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کی بابری مسجد سے سبکدوشی کے بعد ملک کے حالات بگڑجائیں گے، کیوں کہ بی جے پی اوراس کی ذیلی شاخوں کی کی فطرت میں ہے: فساد کروگے تو ہندو مسلمانوں کے خلاف متحد ہوں گے، یہ لوگ انگریزوں کی چال پر چل رہے ہیں ’’نفرت کے بیج بوؤ، اور حکومت کرو‘‘ آرا یس ایس کے بانی گرو گوالکر نے مدتوں پہلے اپنی کتاب میں لکھا تھا: ہندوستان میں غیر ہندوؤں کو رہنے کی اجازت مل سکتی ہے بشرطیکہ وہ ہندو مذہب کو دانستہ یا نادانستہ طور پر قبول کر لیں۔ مطلب یہ کہ ان کے نماز، روزہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن مسجد سے نکل کر مندر کا گھنٹی بجانا ان کے لئے لازمی ہو گا۔ وہ عیدین ضرور منائیں مگر اس کے ساتھ دیوالی بھی مناناہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کے بانی نے آج ہی کے دن کے لئے یہ کہا تھا، اسے معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے خوابوں کو عملی تعبیر ضرورملے گی اور اب وہ دن آچکا ہے کہ جب بھارت میں مودی ازم ہندو ازم کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ بھارت میںمودی ہندوازم کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی مسلما نوں کوچین سے بیٹھنے نہ دینا۔
بلاشبہ ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کی لہر بڑھ رہی ہے ،اس سے مسلمان خوفز دہ ہیں۔ اخبار کے مطابق ہندو قوم پرستوں کی جانب سے شدت آمیز بیا نات نے مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ہندو لیڈروں کی طرف سے ہندو مذہب کے تحفظ کے لئے ہندووں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینااور مسلمانوں کے ساتھ حقارت آمیز رویے نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ ہندو دھرم میں مسلمان ہونے والے ہندؤوں کو دوبار ہ بت پرست بنانے کے عمل کو شدھی کہا جا تا ہے۔ شدھی کا مطلب ہے پاک کرنا،یوں تو بھارت میں مسلمانوں کو شدھی کی مہم تسلسل کے ساتھ جار ی رہی ہے اور مود ی کے بعد اس میں تیزی آئی ہے ، شدت پسند ہندو تنظیمیں آر ایس ایس، وی ایچ پی، بی جے پی، بجرنگ دل اور ڈی جے ایس یہ مہم چلانے میں سرفہرست ہیں۔ا ن کا کہنا ہے کہ انڈیا کے آزادی ایکٹ میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ ہندوستان صرف ہندوں کا ملک ہے ،لہٰذا یہاں مسلمانوں یا عیسائیوں کی اقامت کی کوئی گنجائش نہیں۔ وشوا ہندو پریشد کہتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں ہندوستان میں محض مٹھی بھر مسلمان ہیں اوریہ وہ ہیں جن کے آبا و اجداد کو زبردستی مسلمان بنا یا گیا تھا۔دوسال قبل سو سے زائد مسلمانوں کو ہندو بنا گیا جس سے اس خطرناک مہم کااندازہ لگایا جا سکتاہے۔ بھارتی جنتاپارٹی کی ذیلی شاخوں کابرملایہ نظریہ ہے کہ اگر مسلمانوں اور عیسائیوں کو یہاں رہنا ہے تو انہیں ہندو مت قبول کرنا ہوگا۔ ڈی جے ایس کا نعرہ ہے کہ آئندہ چھ سالوں تک بھارت کو مسلمانوں اورعیسائیوں سے مکمل پاک کر دیا جائے گاکیوں کہ ان کا اس ملک پر کوئی حق نہیں۔ایک سرو ے کے مطابق بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مودی کے اقدامات سے ان کے لئے مسائل حد درجہ بڑھ گئے ہیں اوروہ اتنے خوف زدہ ہیں کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ مودی ازم کے سائے میں مسلمانوں کی زندگیاں مزیداجیرن ہونے اور ان کے مستقبل پرتلوارٹک رہی ہے۔صاف دکھائی دے رہاہے کہ جیسے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہندو اکثریت والے ملک میں ہندوئوں کو ہی مظلوم بنا کر اور مذہبی منافرتوں کو بھڑکا کر 2019 کے قومی انتخابات کی جانب جایا جائے اور اس ہندو مذہبی جنونیت اور قوم پرستانہ شائونزم کو شدید سے شدید تر کرکے اگلی سرکار بنانے کا عمل بنائی جائے۔
یوگی ادتیہ ناتھ اتر پردیش کے ضلع گورکھ پور سے بی جے پی کا ممبر ریاستی اسمبلی ہے۔ وہ اب تک بلوے، مذہبی فسادات، اقدام قتل، قبرستان کی بے حرمتی، عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ اور دوسری کئی پرتشدد وارداتوں کے مقدمات میں ماخوذ ہے۔ اس سادھو نماراج نیتاکا ایک اپنا نجی منظم گروہ ’’ہندویووا واہینی ‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ یوگی نے حالیہ دور میں زیادہ شہرت اپنی ’’لو جہاد‘‘ مہم سے پائی ہے۔ اس لو جہاد کی فسطائی مہم کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان جوان ہندو لڑکیوں کو محبت کا ناٹک کرکے پھانستے ہیں اور پھر ان کو ہوس کا نشانہ بنا کر مذہب تبدیل کرواتے ہیں تاکہ ان سے مزید بچے پیدا کرکے بھارت میں مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والی آبادیوں کے تناسب بدل سکیں۔ اس سے زیادہ بھیانک متعصبانہ اور منافرتیں پھیلانے والا زہر اور کیا ہو سکتا ہے؟ یوگی کے اقتدار میں آنے کے بعد لو جہادکے لیے پولیس کے ’’اینٹی رومیو‘‘ نامی جتھے تیار کئے گئے ہیں جن کا کام اتر پردیش کے شہروں کے بڑے مالز، پارکوں اور دیگر جگہوں پر بیٹھے مسلمانوں کو تنگ کرنا، ان کے کارڈ چیک کرنا اور ان کو گرفتار کرنا ہے۔ یوگی کے نام محمد اخلاق نامی اتر پردیش کے ایک شہری کا قتل تھا جس کے بارے میں عید کے موقع پر یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ اس نے گائے کا گوشت کاٹا اور استعمال کیا ہے۔ اس کے اندوہناک قتل کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس کے گھر کے فریج میں جو گوشت پڑا ہوا تھا وہ گائے کا نہیں بلکہ بکرے کا تھا۔ اسی طرح ضلع مظفر نگر کے دیہاتوں سے ایک لاکھ مسلمانوں کا جبرا انخلاء کروانے میں اسی شخص کا نام آتا ہے۔ اسی طرح اتر پردیش میں شاید ہی کوئی ایسا متنازعہ اقدام ہو جس میں سرغنہ یوگی کانام نہ آئے ایسا ہو نہیں سکتا۔ کئی سالوں سے گورکھ پور کے پورے ضلع میں بی جے پی یہ نعرہ لگاتی رہی ہے ’’گورکھ پور میں رہنا ہوگا تو۔۔۔ یوگی یوگی کہنا ہو گا‘‘ یوگی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کے ارادے اس بیان سے ظاہر ہیں جس میں کہا گیا کہ جب ریاستی ادارے کارسیوکوں کو بابری مسجد کوشہیدکرنے سے نہیں روک سکے تو اب وہ ایودھیا میں رام مندر بنانے سے بھلا کیسے روکیں گے؟
اترپردیش کی اگر 57سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست میں یہ دوسرا موقع ہے جب بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے کلیان سنگھ کی بھی حکومت تھی۔ یہ ایسی ریاست ہے جہاں 9مرتبہ صدر راج نافذ رہا۔ کانگریس کا اقتدار زیادہ عرصہ تک رہا ہے اور 21میں سے 11وزرائے اعلیٰ کا تعلق کانگریس سے رہا۔ اترپردیش ایسی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی ہے کم از کم 10اضلاع اور 100اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹس فیصلہ کن رہے ہیں ،تاہم 2014 کے پارلیمانی اور 2017 کے اسمبلی انتخابات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی نے مسلم ووٹ بنک کے تصور کو ختم کردیا۔ امروہا، سنبھل، رام پور، بدایوں، مرادآباد، کیرانا، سہارنپور اور بجنور جیسے اضلاع میں مسلمانوں کی حالیہ الیکشن تک ساکھ تھی جو ختم ہوگئی۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اسمبلی الیکشن میں مسلم ارکان کی تعداد گھٹ کر رہ گئی۔ اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 1967 میں 24 اور 1991 میں 23ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ 67 مسلم ارکان اسمبلی 2012 میں منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے 2007 میں یہ تعداد 56تھی۔ مسلم ارکان کی تعداد میں کمی کی وجہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں میں مسلم امیدواروں کا میدان میں اُتارنا اور مسلم رائے دہندگان کا کسی سوچ سمجھ اور شعور کے بغیر اپنے ووٹوں کا شیرازہ بکھیر دینا ہے۔یہ بات وتند تلخ ہے مگر بے غبار سچ ہے کہ سنگھ پریوار اور ان کی قیادت نے ملک کی سرزمین میں ایسے بیج بوئے جس سے آنے والی نسلیں منفی طورمتاثر ہوںگی۔ مسلم قیادت کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی کرسی اور اپنے کنبے کی فکر کی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم قیادت اور مسلمانوں کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ بی جے پی نے پارلیمنٹ میں دو نشستوں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ آج قطعی اکثریت کے ساتھ مرکز میں اس کی حکومت ہے۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ نوٹ بندی کے یوپی الیکشن کے نتائج پر اثرات مرتب ہوںگے مگر ایسا نہیں ہوا کیوں کہ پارلیمانی الیکشن میں بھی ہندوستان کے ہندوؤں نے ذات پات، طبقہ واریت کو بھلا کر صرف ایک دن کیلئے ہندو بن کر دکھایا ایکتا کسے کہتے ہیں اور یوپی کے الیکشن میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی ہے۔ مسلم قیادت مسلم دلت اتحاد کے نعرے لگاتی رہی،اورعوامی جلسوں جلوسوں میں بھی بھیڑ کو دیکھ کر خوش فہمی کا شکار ہوتی رہی مگر وقت پر دلت اور برہمن ایک ہوئے جس کے نتائج سامنے ہیں۔ الغرض اُترپردیش کاسیاسی منظر نامہ بھارت کے حوالے سے ایک دورر تبدیلی کا پیش خمہ ثابت ہونے کا قوی امکان ہے۔