ایک عام مسلمان سے لے کر ملی قیادت تک کو ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانو ں کے مستقبل کے حوالے سے گہری فکر لاحق ہے اور چنتا کھائی جارہی ہے ۔ ا س وقت مسلمان سراسیمہ ہیں کیونکہ انہیں دادری کے اخلاق احمد اور پہلو خان سے لے کر رام نومی کے موقع پر بہار اور بنگال میں فرقہ وارانہ فسادات تک پھیلے المیوںنے بے چین کر کے رکھ دیا ہے۔ مودی سرکار کے بر سراقتدار آتے ہی گھرواپسی، لو جہاد ، طلاقِ ثلاثہ ، بابری مسجد اورمسلم پرسنل لا ء کو لے کر ایسی باتیں ہورہی ہیں جن سے مسلمانوں کی پر یشانیاں بڑھ رہی ہیں اور خدشہ یہ ظاہر کیا جارہاہے کہ واقعی مستقبل قریب میں کچھ ایسا ضرور ہونا والا ہے جو یقینًا مسلم اقلیت کے حق میں زہر ہلاہل ہوگا ۔ کیا یہ فکر مندی ، پریشانی اور خدشہ محض مسلم اقلیت میں پریوار کے فوبیا کا شاخسانہ ہے یا واقعی ایسا کچھ غلط سلط ہونے والا ہے ،ا س کا علم تو خدا وحدہٗ لاشریک کو ہی بہتر ہے، لیکن جہاں تک خود ہمارے اپنے صفوں کی بات ہے، تو بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ لکھ رہاہوں کہ ہم ہوش کے نا خن لینے کے بجائے خود ہی ایسے کام کر رہے ہیں جن سے دشمن کا ہمارے خلاف ہر منصوبہ مکمل اور ہر سازش کامیاب رہتی ہے ۔ عقل وفہم کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم اس وقت کے ہنگامی حالات میں ہمیں ایسی بے ہودگیوں میں انفرادی یا اجتماعی طور ملوث نہیں ہونا چاہیے ۔ بات صاف ہے کہ ہندوستان بھر میں مسلم قیادت فی الوقت بہت ہی منتشر حالت میں پائی جاتی ہے ۔ جہاں بھانت بھانت کی بولیاں اور دونفری ٹولیاں ہوں، وہاں آپ کس خیر کی توقع رکھ سکتے ہیں ؟رہی سہی کسرمسلکی انتشار وافتراق پوری کررہاہے۔ہمارے اندر سنی،شیعہ،دیوبندی و اہل حدیث وغیرہ اپنی اپنی رہبری کے دعوے لئے ہیں لیکن کیا باہم دگر بے بیناداختلافات کو ہوا دینے کا یہ وقت موزوں ہے؟ ہمارے علاوہ دیگرمذاہب سے جڑے فرقوں میں بھی بے پناہ اختلافات موجود ہیں مگر اجتماعی مفاد کے لئے وہ سب ایک آواز میں ، ایک سُر تال میں اور ایک پلیٹ فارم پر استادہ ہیں، جب کہ ہماری صفیں کج اور دل پریشان ہیں۔ فروعی مسائل پرمسلکی انتشار کے بین بین ہماری سیاسی حالت بھی قابل رحم ہے۔ملک کی کوئی بھی پارٹی ہو ،وہ مسلم ووٹرکو صرف و وٹ بنک کے نقطہ ٔ نگاہ سے دیکھتی ہے اور ہم اپنے سیاسی وزن اور عددی قوت کے صحیح استعمال میں فی الحال بری طرح ناکام ہیں ۔ ہر کوئی سیاسی پارٹی اپنی من مرضی کے مطابق پہلے سبز باغ دکھاکر ہما را ووٹ بٹورتی ہے اور پھرہمارے ملّی مسائل کو ڈکار لیتی ہے اور ہم ہیں کہ کبھی جذبات کی رو میں تو کبھی لاپروائی کے ساتھ اپنے قیمتی ووٹوں کو ضائع کر بیٹھتے ہیں اور جب پانی سر سے اوپر جاتا ہے تو واویلا کے سوا کچھ نہیں کر پاتے ۔
اس لئے ملّی سطح پر ہمیں جاگنے اور بیدارہونے کی سخت ضرورت ہے ۔ ہمیں ہر کسی کی بات پر کان دھرنے کی عادت سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔ فی الوقت کم از کم مسلکی اختلافات اور سرپھٹول کو بھول کر ہم اپنے مستقبل کی ضمانت یعنی پرسنل لا ء کے مشترکہ تحفظ کے لئے ایک پلیٹ فارم میں آجائیں۔ ابھی حال ہی میں محمود مدنی نے اختلافات کے خلاء کو کچھ حد تک بھرنے کی کوشش کی ، ایسے میں دیگر طبقاتِ خیال کو بھی اپنی جانب سے تھوڑی بہت ملّی اتحاد کے سمت میں مثبت پہل کرنی چاہیے ۔ بہتر یہی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے مخدوش مستقبل پر شور مچانے کے بجائے ہم اپنے اندر وسعت قلبی پیدا کریں اور اپنی داخلی صفوں میں تال میل بڑھائیں ۔ یہاں کے مسلمان ماضی میں بھی ناگفتہ بہ حالات سے دو چار ہوئے لیکن انہوںنے وقت پر پختہ اجتماعی شعور اور اخوت کے سہارے وہ کام کیا کہ برہم حالات بہت حد تک ہمارے حق میں سازگار و متعدل ہوئے۔ بے شک اس وقت بھی ہم مشکل حالات سے دوچار ہیں لیکن اُمید فردا لے کر اگر ہم ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلیں تو وہ دن دور نہیں جب حالات ہمارے حق میں موافق ہوں گے۔ اس کے لئے ہمیں اپنی طرف سے حد سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ، ہمیں اشتعال کاجواب فہم وتدبر سے دے کر انتہائی صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔
ہم آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ مسلم بھائی جانے انجانے سوشل میڈیا میں اُس فسادی مواد کو تشہیر کرتے نظر آتے ہیں جن سے صرف دوسرے مذاہب ماننے والوں کے جذبات ہمارے خلاف اُبھر آتے ہیں ۔ اس بات کا زیادہ منفی اثر ان علاقوں پر پڑتا ہے جہاں مسلم کم تعداد میں رہتے ہیں ۔ فرض کریں میں اُس علاقے کا باشندہ ہوں جہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد ہے اور میں کوئی ایسی ناروا حرکت یا بات کر گزرتا ہوں جس کی وجہ سے فساد کی چنگاریاں بھڑک جائیں، میرا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگر نقصان ان علاقوں میںلازماً ہوگا جہاں مسلم اقلیت میں ہوں۔ اس لئے کوئی ایسا کام یا حرکت نہ کر نا عین اسلام ہے جس سے مسلمانوں کے اندریا مسلم آبادی اور غیر مسلم برادری کے درمیان دراڑیں پڑیں ۔ حق یہ ہے کہ ہمارے خلاف فرقہ پرست عناصر اپنی ریشہ دوانیوں کا جال بچھانے میں مصروف ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں خوشی ہو نی چاہیے کہ ہندؤں کی اکثریت ہمیشہ مسلم اقلیت کے ساتھ سکھ شانتی اور امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے ۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ اپنی صفوں سے ایسے نادان دوستوں کو بالکل الگ تھلگ کریں جو مسلم بیزار فرقہ پرست عناصر کی امن مخالف سرگرمیوں کا جواب صبر اور سچائی کے بجائے وقتی جذبات کی تلوار اٹھاکر دیں ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے جنم داتاؤں کو’’ اینٹ کا جواب پتھر سے ‘‘ جیسے تیز طرار نعرے بلند کر کے بعض جذباتی لوگ مظلوم مسلم آبادی کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ کر خود رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم ذمہ داری ذمہ داران ِ مدارس ، علمائے حق اور خطیبوں پر عائد ہوتی ہے ۔ مدارس کو چاہیے کہ ایسے سنجیدہ فکر علماء کو جو آج کے ماحول کے حساب سے بات کرنے کا فن جانتے ہوں کو تبلیغ کا کام سونپ دین جو آ گ بجھانے والے ہوں اور جن میں یہ اہلیت بدجہ ٔ اتم موجود ہو کہ عوام الناس کی وقت وقت پر صحیح شرعی رہبری کر سکیں۔ مسلمانوں کے لئے چونکہ یوم ِ جمعہ کی غیر معمولی اہمیت خیر القرون سے ایک مسلّمہ حقیقت بنی چلی آرہی ہے ۔اس بات کا ادراک کر کے ہمیں خاص کر مساجد میں خطاب ِ جمعہ کی ذمہ داری ایسے ہوش مند افراد کو دینی چاہیے جو واقعی اس کا حق اداکر نے صلاحیت رکھتے ہوں اور جو ؎
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
کی صفت عالیہ سے متصف ہوں۔ جمعہ خطبے کی ذمہ داری ان عالم نما جہلاء کو نہیں دی جانی چاہیے جو صرف مسلکی اختلافات اور خرافات کو ہو ا دے کر اپنی دکانیں چمکا تے ہوں۔ اگر کوئی سچا عالم دین ملت کی حقیقی رہبری کی ذمہ داری قرآن وسنت کی روشنی میں نبھا رہا ہوتو وہ واقعی قوم کو فلاح کی راہ دکھاکر دشمنوں کا بلاوجہ غصہ ٹھنڈا کر سکتا ہے ۔ وہ دورِ حاضر کے مسائل کو ٹھیک اپنے شرعی پس منظر میں بڑی میٹھی زبان میںعوام الناس کو حقائق سمجھا کر دینی ودنیوی قیادت کے فرائض کا حق ادا کر سکتا ہے۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ٹی وی چنلوں پر ایسے لوگ ’’عالم‘‘ بنے پیش ہوتے ہیں جن کی معلومات حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے صفر کے برابر ہوتی ہیں، اس لئے یہ لوگ عصری مسائل سے بے خبر ہوکر اسلام کی غلط ترجمانی کا گناہ بھی دھڑلے سے کر جاتے ہیں۔ ہر مسئلہ کو ’’مذہب مخالف ‘‘کہہ کر شور مچانے کے بجائے انہیں چاہیے کہ وہ براہ کرم سنجیدگی سے سوچیں کہ ان کی بے جا گفتنی سے ہمارے ملّی مستقبل پر کیا کیا برے اثرات مر تب ہوسکتے ہیں ۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کو شر وفساد میں مبتلا دیکھنے والے فسادی عناصر اسی تاک میں رہتے ہیں کہ ’’عالم صاحب ‘‘ بے تکی باتیں کر یں ، بے اصل مسئلوں میں اُلجھے رہیں اور بات استدلال کی زبان سے نہیں بلکہ شور شرابے سے کریں تا کہ مسلمانوںکی شبیہ مسخ ہو ، جس کا انہیںیہ فائدہ ملے کہ عام خام لوگوں کو وہ مسلم بیزار اورشرپسند بنانے میں کامیاب ہوتے رہیں ۔ مثال کے طور پر بابری مسجد کو لے کر ہمارا اجتماعی موقف ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگاہمیں منظور ہوگا ،چاہے وہ ہمارے حق میں آئے یا نہ آئے ،یہ کافی اچھا اور مثبت موقف ہے کہ عدالت اپنا کام حق وانصاف سے کرے گی ۔ یہ پالیسی ہر اعتبار سے ٹھیک ہے۔ اب ہم ابھی سے’’ جیت‘‘ کا جشن منائیں یا ابھی سے ’’ہار ‘‘پر بے تکی باتیں کر یں تو یہ کوئی دانشمندانہ قدم نہیں ہوگا کیونکہ اس کے ردعمل میں فریق مخالف بھی خاموش تونہیں رہے گا ، وہ اپنے’’ اجتماعی ضمیر کی تشفی‘‘ کے لئے کچھ نہ کچھ گل کھلائے گا، طالع آزماسیاست دان بھی اپنی روٹیاں سینکیں گے۔حاصل بحث یہ ہے کہ ہمار ا رویہ اندرونی سطح پر بھی مثبت اور کارآمد اور خارجی سطح پر صلح جویانہ اور محتاط ہونا چاہیے ۔ نیز ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صبر ہماری پالیسی نہیں بلکہ ایمان کا لازمی جز ہے ۔ مصابرت اور برداشت سے کام لے کر ہی ہم ہر دنیوی خسران ا ور اُخروی ناکامی سے بچنے کی اُمید کر سکتے ہیں ع
شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات
رابطہ :کرگل ، جموں و کشمیر 9469734681