وسیم فاروق وانی
ایک وقت ایسا تھا کہ ہمارے شہر میں کتوں کا شمار ہوا کرتا تھا ۔دفتر کے دفتر، مشینیں، کلرک، کمشنر اور چیئرمین سب مصروف۔ کوئی بتا رہا تھا کہ کتوں کی مردم شماری ہو رہی ہے، کوئی کہہ رہا تھا کہ ان کے لیے ’’آبادی کنٹرول‘‘ منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔فائلوں پر فائلیں بنتی رہیں، نوٹس جاری ہوتے رہے، تصویریں چھپتی رہیں اور شہر کی دیواروں پر ڈاگ سینسس کے اشتہاراور اخباروں میں اس حوالے سے خبریں چھاپی جاتی ۔ ’’ سرینگر میں کتوں کی تعدا دو لاکھ سے متجاوز‘‘ ایک دہائی قبل ایک اخبار کی یہ سرخی اب بھی میرے دماغ کے کسی حصے میں گردش کرتی رہتی ہے۔ ہمارے بارے میں کسی نے خوب ہی کہا ہے کہ ’’ہم وہ قوم ہے جو منصوبے کاغذ پر بناتے ہیں ، مگران پر عمل صرف اخبارات میں ہوتا ہے۔‘‘پھر وقت بدلا۔اب وہی حکومت جو کبھی کتوں کی گنتی کرتی تھی، آج انسانوں کی گنتی میں لگے ہیں، مگر وہ انسان جو کاٹے گئے ہیں۔جی ہاں، اب رپورٹیں بتاتی ہیں کہ گزشتہ تین برسوں میں دو لاکھ سے زیادہ شہری کتوں کے نشانے پر آ چکے ہیں۔یعنی اوسطاً روزانہ160 افراد۔گویا اب کتوں نے بھی کاٹنے کی مہم میں سرعت پیدا کردی ہے تاکہ خبروں کی زینت بنے رہیں!
کبھی بچپن میں محلے کا کتا محض ایک ’ضمنی‘کردار تھا، دروازے پر بھونکنے والا، دوپہر کے وقت چھاؤں میں سوتا ہوا۔اپنے دادا مرحوم کو کہتے سنا تھا کہ ڈر اگر ہوتا تو ملہ کھاہ کے کتوں کا ہوتا اور چند ائمہ نے تو ان کتوں کے شر سے نجات کی دعا کو پنجگانہ نماز کے بعد معمول بنا لیا تھا ۔۔۔۔۔’’ یا اللہ !!ملہ کھاہ کین ہو نین نش نجات‘‘ (اے اللہ! ملہ کھاہ کے کتوں سے نجات دلا)لیکن آج یہی خونخوار کتا پورے شہر کی سڑکوں پر’مرکزی‘کردار بنے پھرتا ہے، کسی سرکاری ذمہ داری کے بغیر، مگر پورے نظام پر قابض۔ اور انسان ان کی موجودگی اور گشت کو مدنظر رکھتے ہئے اپنے اوقات کار اور آمد و رفت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔سرکار کے ریکارڈ کے مطابق صرف ویکسین یا بانجھ کئے گئے کتوں کی تعداد تقریباً پچاس ہزار ہے۔اور کتوں کے کاٹے گئے انسان؟وہ تو دو لاکھ سے زیادہ۔یعنی جب چار انسانوں کو کاٹ لیا جاتا ہے تو بدلے میں سرکار ایک کتے کو ویکسین یا بانجھ کر کے مطمئن ہوجاتی ہے ۔یہی ہے حسابِ مساوات،ہمارے مخصوص انداز میں!
کتنے عجیب تضاد کی بات ہے کہ پہلے حکومت ’’ڈاگ سینسس‘‘ کراتی تھی، اب ’’ڈاگ بائٹ سینس‘‘ کر رہی ہے۔ایک وقت تھا جب محکمے یہ طے کر رہے تھے کہ کتوں کی آبادی کہاں زیادہ ہے، اب طے یہ ہو رہا ہے کہ متاثرین کہاں زیادہ ہیں۔کتوں کی مردم شماری سے انسانوں کی مردم شماری تک کا یہ سفر شاید ہماری ترقی کی سب سے’ دلچسپ ‘کہانی ہے۔کتوں کے مسئلے کو ہم نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ہمارے شہر میں جس تیزی سے کتوں کی افزائش ہوئی، اُسی تیزی سے انسانی حساسیت ختم ہوتی گئی۔کتوں کے لیے پالیسیاں، فنڈز، ورکشاپ اور این جی اوز تو بن گئے، مگر متاثرین کے لیے صرف اخباری بیانات۔شاید اسی لیے اب ہر دوسرا شہری اینٹی ریبیز ویکسین کے نام پر کسی لمبی قطار میں کھڑا نظر آتا ہے۔اسپتال کے باہر کا منظر ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی میلہ لگا ہو۔
دردکے مارے لوگ ، چہروں پر مایوسی اور یہاں بھی پاؤں کے پاس بھٹکتے وہی آوارہ کتے، جیسے مذاق اڑا رہے ہوں کہ ’’نکلے تھے ہمیں ٹیکے لگوانے اور اب خودٹیکوں کی قطار میں لگ گئے!‘‘حکومت کہتی ہے کہ’’ہم نے گزشتہ دو برسوں میں تقریباً پچاس ہزار کتوں کو نس بندی اور ویکسین دی ہے‘‘۔یہ عدد سن کر دل خوش ہوتا ہے، مگر عقل کہتی ہے کہ اگر یہی رفتار رہی تو شاید اگلی مردم شماری تک کتوں کے لیے بھی کوئی بلدیاتی انتخاب کرانا پڑے۔اور پھر کیا پتا، وارڈ نمبر ایک کا چیئرمین ’’اپنی گلی کا شیرو‘‘ بن جائے اور وارڈ نمبر دو کی نمائندگی ’’بھوری آنکھوں والا کالو‘‘ سنبھال لے۔آخر جمہوریت سب کے لیے ہے، ہے نا؟
طنز یہ ہے کہ انسان اب کتوں کے رحم و کرم پر ہیں، اور کتے سرکاری منصوبوں کے مرکز میں۔کوئی زمانہ تھا جب شہر کے بلیوں، پرندوں اور گلیوں پر انسان کی حکمرانی تھی۔
اب معاملہ اُلٹا ہو گیا ہے۔شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم نئی سرخی لکھیں:’’ شہر سرینگر پر کتوں کا اقتدار قائم !‘‘
اب ذرا اسپتالوں کی حالت دیکھئے۔ادھر کسی کو کاٹ لیا گیا، اُدھر دوا دستیاب نہیں۔ایک طرف ’’جانوروں کے حقوق‘‘ پر سیمینار ہو رہا ہے، دوسری طرف متاثرہ بچی اسپتال کے برآمدے میں ٹیکے کا انتظار کر رہی ہے۔یہ سب کچھ کسی فلمی مزاحیہ منظر کی طرح لگتا ہے، مگر یہ ہماری روزمرہ کی حقیقت ہے۔کتوں نے ہمیں کاٹا، اور ہم نے اپنی حساسیت کو۔
سوشل میڈیا پر ایک مزاحیہ میم چلتی ہے’’جموں و کشمیر میں دو مخلوقات کو کوئی خطرہ نہیں: کتے اور سیاستدان۔‘‘دونوں کے کاٹنے کا خطرہ برابر ہے، مگر سزا کسی کو نہیں ملتی۔
فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کا کاٹنا جسمانی زخم دیتا ہے، دوسرے کا نفسیاتی۔
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ سرکار کوئی نئی اتھارٹی بنادے۔ ’’ڈاگ بائیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘‘۔کم از کم اس معاملے میں بھی کوئی تو محکمہ منصوبے بنائے، بورڈ لگائے، یا افتتاحی فیتے کاٹے۔
آخر ہر مسئلے کے لیے کمیٹی بنانا ہی تو ہمارا قومی علاج ہے۔اگر کتوں کے لیے ’’سٹریٹ ڈاگ کنٹرول مشن‘‘ بن سکتا ہے تو متاثرین کے لیے بھی ’’ڈاگ بائٹ مشن‘‘ کیوں نہیں؟
لیکن مزاح ایک طرف، حقیقت یہ ہے کہ دو لاکھ سے زائد متاثرین کا مطلب دو لاکھ کہانیاں، دو لاکھ درد، دو لاکھ خوف ہیں۔یہ کوئی معمولی تعداد نہیں۔یہ ایک اجتماعی لاپرواہی کی کہانی ہے جس میں ہر بھونکنے کی آواز دراصل کسی آنے والے خطرے کا اعلان ہے۔اور جب پورا معاشرہ ان آوازوں کا عادی ہو جائے تو سمجھ لیجیے کہ خطرہ صرف سڑکوں پر نہیں، ضمیر میں بھی پیدا ہو چکا ہے۔آخر ش ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم کبھی کتوں کی گنتی کرتے تھے، تاکہ شہر محفوظ ہو۔اب ہم انسانوں کی گنتی کرتے ہیں، تاکہ حساب کتاب پیش کیا جا سکے۔بس یہی ہمارا فرق ہے، ہم نے مسئلہ نہیں بدلا، صرف فہرست بدل لی۔کتوں سے انسان تک یہ فاصلہ ہم نے خود طے کیا ہے، اپنے ہی بے حسی کے سہارے۔
اور شاید آنے والے دنوں میں اخبارات کی سرخی کچھ یوں ہو،’’ مزید دو ہزار افرادکتوں کا شکار،محکمہ سگاں کا اظہار اطمیناں!‘‘