اتر پردیش اسمبلی انتخاب کے علان کے ساتھ ہی یہ قیاس لگایا جانے لگا تھا کہ اگر بی جے پی کی حکومت بنتی ہے تو وہ سارے ایجنڈے نافذ کے جائیں گے جن کے اعلانات آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں بر سر عام کرتی رہی ہیں .اب جب کہ ریاست میں بی جے پی کی حکومت قایم ہو چکی ہے تو وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان ہی ایجنڈوں کو عملی جامہ پہنا نے میں لگے ہیں ۔جہاں تک ذبح خانوں کو بند کرنے کا سوال ہے تو یوگی پہلے سے ہی اس طرح کا مطالبہ کرتے رہے ہیں ،اب چونکہ وہ کوئی بھی ایسا اوٹ پٹانگ فیصلہ لینے کو آزاد ہیں، اس لئے محض ایک ہفتے کے اندر ہی کئی متنازعہ فیصلے لئے ہیں جن میں سلاٹر ہاوسز پر پابندی بھی شامل ہے۔ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار یہی چاہتا ہے کہ نہ صرف اُتر پردیش بلکہ پورے ملک میں ہندتوا کی آندھی چلے تا کہ آنے والے دنوں میں وہ تمام خفیہ ایجنڈا پورا کیا جا سکے جن خطوط پر سنگھ پریوار برسوں سے کام کر رہا ہے ۔واضح ہو کہ آئندہ پارلیمنٹ انتخاب سے پہلے پورے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول قایم کر کے ہندتوا کی فضا بنانا چاہتے ہیں ۔اس لئے ایک طرف ذبح خانوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو دوسری طرف انٹی رومیوں اسکارڈ بنی ہے۔ یوپی حکومت کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صرف ان بو چر خانوں کو بند کیا جا رہا ہے جو غیر لائیسنس یافتہ ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ اسی آڑ میں سنگھی ریاست کے مسلمانوں کی مالی حالت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کو مسائل میں اُلجھائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ زیادہ تر ذبح خانے مسلمان ہی چلاتے ہیں ۔اُدھر یوگی جی یوپی کے لاکھوں مسلمانوں کو بے روزگار کر کے سڑکوں پر اُترنے کو مجبور کر رہے ہیں،اِدھر بی جے پی لیڈر سبرا منیم بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کی بات کر رہے ہیں ۔وہ بھی ان دنوں ملک کے مختلف شہروں میں گھوم گھوم کر اپنے ہم مذہبوںکو رام مندر بنانے کے لئے اُکسا رہے ہیں .وہ ایک بڑی گمراہی پھیلا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے مل جل کر اس تنازعے کو حل کرنے کی بات کہی ہے .واضح ہو کہ یہ تنازعہ کسی دو آدمی کے درمیان نہیں ہے بلکہ جس طرح ہمارے ہندو بھائی اس کو آستھا کا سوال کہتے ہیں ،اسی طرح ملک کے بیس کروڑمسلمان بھی بابری مسجد کو اپنے مذہبی جذبات کا جزو لاینفک قرار دیتے ہیں ،اور سب سے بڑا سوال تو ہمارے آئین کا ہے، اس لئے مسلمان عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی وکالت کر رہیں ہے ۔در اصل سنگھ پریوار اب کسی قانون کی پرواہ نہیں کرتا،اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کی بات کہتے ہیں لیکن ان کی کرنی اور کتھنی میں کیا فرق ہے وہ جگ ظاہرہے ۔
ہر کیف اتر پردیش میں ذبح خانوں کو بند کرنے کا فیصلہ ایک بڑی سازش دِکھتی ہے ،ورنہ گوا میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے ،وہاں اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے ۔بات بالکل واضح ہے کہ یہاں رام مندر کے لئے ماحول سازی کی جا رہی ہے۔ جہاں تک ذبح خانوں کو بند کرنے کی بات ہے تو یہ صرف مسلمانوں کا ہی مسلٔہ نہیں ہے بلکہ غیر مسلم تاجر بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں ،اس سے عام کسانوں کا بھی بڑا خسارہ ہوگا کہ پورے ملک میں سب سے زیادہ بھینس پروری اسی ریاست میں ہوتی ہے اور باہر ی دنیا میں گوشت سپلائی کرنے والے ملکوں میں ہندوستان ایک بڑا ملک شمار ہوتا ہے۔ اگر یہ کام بالفرض بند ہوتا ہے تو ملک کی معیشت کو بھی بڑادھچکہ لگے گا ۔اس لئے ملک کے مسلمانوں کو جذبات سے کھیلنے کے نتائج سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان خطوط پر بھی سوچ سمجھ سے کام لینا ہوگا ۔سب سے پہلے یہ ہونا چاہیے کہ تو وہ تمام لوگ جوذبح خانوں سے جڑے ہوئے ہیں انہیں چاہیے کہ قانون کا پورا پور اخیال رکھیںاورلازماً لائسنس حاصل کریں کہ ایسا کرنا لازمی ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی بلاجواز رخنہ ڈالا جاتا ہے تو کورٹ کا سہارا لیں کہ اب تو کورٹ ہی عدل انصاف کا واحدراستہ ہے ،ورنہ سیاست تو بہت ہوگی مگر انصاف ملنا محال ہوگا ۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ کورٹ میں ان غیر مسلم بھائیوں کو بھی ساتھ رکھاجائے جو اس تجارت سے وابستہ ہیں یا پھر ان لوگوں کو جو بیف کھاتے ہیںکیونکہ ہمارا آئین ہمیں کھانے اور پینے کی آزادی دیتا ہے ،اس لئے اس مسئلے پر جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے .بالخصوس ہمارے وکلاء حضرات اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔یہ بھی یاد رہے کہ ووٹ بنک سیاست کے سائے میں اس طرح کے بہترے ایجنڈے سامنے آنے کا خدشہ . ہے اور اس کے لئے ان تمام لوگوں اور طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے جو ملکی آئین کے پاسدار ہیں، جموہریت نواز ہیں ، گنگا جمنی تہذیب کے طرف دار ہیں، ہم اپنی لڑائی اب تنہا نہیں لڑ سکتے کیوںکہ اب ہماری ہر جائز ومعقول حرکت کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہوگی، اس لئے ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا ۔ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے قائدین بھی فرقوں اور خانوں میں تقسیم ہیں اور سب کی اپنی ڈفلی اپنا راگ ہے۔ کاش! اس نازک وقت میں بھی ہم سب تما تعصبات اور تنازعات سے پاک ہو کر ایک پلٹ فارم پر آتے اور اے کاش! کوئی ہمارا مشترکہ قائداور اجتماعی ایجنڈا بھی ہوتا ..!
9431414586