گزشتہ اٹھائیس سال سے وادی ٔ کشمیر میں کشت و خون کا باز ار مسلسل گرم ہے ۔ اس عرصۂ دراز کے دوران شاید ہی کوئی دن گزر اہو جب یہ بہشت نما سرزمین ابن آدم کے خون سے ایک بہانے یا دوسرے بہانے سے لالہ زار نہ ہوئی ہو، یہاں کے طول وعرض میں انسانیت کی تذلیل نہ ہوئی ہو، بستیاں نہ اُجڑ گئی ہوں ، مظلومین کی آہ وبکا اور چیخ وپکار سے عرش وفرش نہ ہلے ہوں، کشمیریوں کو اپنے وطن اور بیرونِ وطن جان کے لالے نہ پڑے ہوں ۔ ذرا سوچئے کہ تقریباً تین دہائیوں سے یہاں نامساعد حالات کے چلتے اتنی بہاریں خزان رسیدہ ہوئیں کہ ان کا کوئی شمار نہیں ۔ اتنی معلوم ونامعلوم قبریں بنیں کہ اس کا کوئی حساب نہیں ۔ اتنے زندان اور عقوبت خانے آبا د ہوئے کہ اس کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر حق یہ ہے کہ اس سب کے باوجود مسئلہ کشمیر کا دردسر اپنی جگہ موجودہے ۔ غور طلب ہے کہ آخر اتنی تباہیوں ، بربادیوں اور زور زبردستیوں کے بعد بھی آج مسئلہ کشمیر وہیں پہ کیوں لٹکا ہو اہے جہاں یہ پہلے روز تھا ۔ بے شک انڈیا اورپاکستان نے کبھی اپنے انشیٹیو اور کبھی دوسروں کے دباؤ میں وقتاًفوقتاًمسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت کئے بغیر گفت وشنید کی میزیں سجائیں ، ٹریک ون ا ور ٹریک ٹو سطح پر سفارتی مراسم قائم کئے ، مختلف مواقع پر خوش نمااعلامیے جاری کئے ، اپنی’’دوستی اور مفاہمت‘‘ کو ناقابل تبدل تک جتلایا ، سارک فورم پر مصافحے ومعانقے بھی کئے، دلی لاہور بس سروس کا اجراء کیا ، بحالی ٔ اعتماد کے نام سے لائین آف کنٹرول پر آرپار بس سروس شروع کی، کرکٹ میچ کھیلے ،ثقافتی وفود کی آمدو رفت ہوئی، برتھ ڈے کیک کاٹے، نواز شریف اور مودی نے اظہار ِ محبت کے طور شال اور ساڑھی کا تبادلہ کیا ، اس کے بین بین دلی نے ایک بڑی جست لگاتے ہوئے داخلی طور کشمیر کی گرہیں سلجھانے کے لئے گول میز کانفرنسیں منعقد کیں ، آٹھ ورکنگ گروپ بنائے ، سہ رُکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ، انٹر لوکیٹر وںکی تقرریاں عمل میں لائیں ، مالی پیکجوں کے اعلانات کئے وغیرہ وغیرہ مگر یہ سب کچھ اَکارت جانا طے تھا، سو یہی ہو ا، کیونکہ کشمیر حل کے بنا اتنی ساری کدوکاوش کا حشر یہی ہوتا رہے گا۔ شیخ محمد عبداللہ کے ایکارڈ سے لے کر کرگل معرکہ تک کی کہانی اسی حقیقت پر مہر تصدیق کر تی ہے ۔ آج کی تاریخ میں ہند پاک سردمہری کا رُخ بہت ہی کڑاہے ۔ یہ اسی چیز کا برملامظاہرہ ہے کہ ایک جانب دلی حکومتی سطح پر اعلاناً اسلام آباد کو’’ کانٹے سے کانٹا نکالا جائے ‘‘جیسی دھمکیوں سے توپ و تلوار کی زبان میں بات کر تی ہے اور دوسری جانب کشمیر میں آوپریشن آل آوٹ کے عنوان سے روز نئی نئی خون آشامیوں کی الم ناک تاریخ مرتب کررہی ہے ۔ گاہے گاہے لائین آف کنٹرول پر بھی دوطرفہ جنگ کا دل دہلانے والا سماں بھی بند ھ جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے دشت ومیدان میں اور حد متارکہ کے آرپار حالات کس وقت کیا کروٹ لیں ، کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔ اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ایل او سی کے دونوں اطراف میں فوجیوں کی لاشیں ہی نہیں گرتیں بلکہ عام لوگوں کی جانیں بھی جاتی ہیں ، ان کے گھربار اور مال مویشی بھی پھونکے جاتے ہیں ۔ ایسے میں کس سیاسی جیوتشی کو حالات میں بہتری کے آثارنظر آئیںاور کس تجزیہ کار کو حالات میں سدھار کی کوئی کرن دکھائی دے ؟ یہ ستر سال طویل جنجال ہے ،اس پر حقیقت پسندانہ غور وفکرغور کیجئے تو یہی اخذ ہوگا کہ کشمیر مسئلے کاڈراؤنا سایہ ہمیشہ برصغیر کے امن وآشتی ، تعمیر وترقی اور نیک ہمسائیگی کے لئے نحوست آمیز رہا ہے اور یہ اُس وقت تک جوہری طاقت سے لیس ہندو پاک کے رشتوں میں دراڑیں پیدا کرتا رہے گا جب تک تینوں فریق کشمیر حل کا کوئی پُرامن اور پائیدار فارمولہ نفع نقصان اور ہارجیت سے اوپراُٹھ کر وضع نہیں کر تے ۔ اس کے بغیر معاملہ کہاوت کے پیرائے میں یہی ہوگا کہ کنوئیں سے سو بالٹیاں پانی تونکال تودیں لیکن کتے کو وہیں کا وہیں چھوڑ ا۔ عقل سلیم اس پر یہی فتویٰ دے گی کہ کتے کو نکلاے بغیر کنواں پاک نہیں ناپاک ہی ہے۔بہرصورت عقل وشعور کا تقاضا بلکہ برصغیر کے ان دو غریب ہمسایہ ممالک کا قومی مفاد اسی میں مضمر ہے کہ دونوں ملک عالمی طاقتوں کی خودغرضانہ وتاجرانہ سیاست کا مہرہ بنے بغیر مسئلہ کشمیر سے جتنی جلدی ممکن ہو گلوخلاصی حاصل کر نے کی سعیٔ بلیغ کر یں ۔ا لبتہ اس سلسلے میں اہل کشمیر کو اول تا آخر اعتماد میں لے کر ہی دلی اور اسلام آباد گفت وشنید کی میز پر آ ئیں تو بات بنے گی ، دونوں حکومتیںماضی کی دوطرفہ تلخیاں بھلاکر بقائے باہم کے جذبے سے زندہ رہنا سیکھیں ، تناؤاور کشیدگی کی فضا میں پروان چڑھیں دشمنیاں اور انتقام گیریاں بہت آزمائی جا چکی ہیں، اب خلوص دل سے جیو اور جینے دو کے جذبے سے دوستی اور سینہ صفائی کو موقع دیا جائے، کشمیر کے حوالے سے اپنے بے لچک ومتضاد مواقف کو ووٹ بنک سیاست سے جوڑ کر عوامی جذبات کا استحصال ترک کیا جائے، مسئلہ کا سیاسی تصفیہ کر نے کے لئے قومی تفاخر اور ہم ہستی سے کام لینے کے بجائے جمہوری انداز ِ فکر اپنایا جائے ، سب سے بڑھ کر وادی ٔ کشمیر میں امن و آشتی کی پروائیاں چلانے کے لئے فوری طور افسپا کے مضرات ونقصانات کے پیش نظر اسے مکمل طور واپس لیا جائے۔ اس ضمن میں امرواقع بھی گرہ میں باندھ لیا جائے کہ کشمیر کوجنگ وجدل کااکھاڑہ بنانے اور یہاں تخریب وتشدد کی آگ بھڑکانے سے وادی ٔ کشمیر بلا شبہ بھسم ہو تی رہے گی مگر مسئلہ جوں کا توں دلی اور اسلام آباد کے لئے دردسر بلکہ دردِ جگر بن کر رہے گا ۔ چنانچہ آج اٹھائیس سال گزرنے کے بعد جب ہم خون کے آنسو رُلادینے والی کشمیر کی اَن کہی سر گزشت پر تجزیاتی نظر ڈالتے ہیں تو یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ کشمیر کاز ہلاکت خیز اسلحہ کے انبار ، سات لاکھ فوج ، مظالم ومصائب کی گھٹاؤں اور انسانی حقوق کی پا مالیوں کے باوجود زندہ وجاوید حقیقت ہے جس کے منصفانہ حل سے برصغیر کی ہمہ گیر ترقی مشروط ہے۔