تم ہی سے قائم بجٹ کا خسارا
لہو پی لو غریبوں کا سارا
اے مطلب کے زندہ نشانو
سارے فنڈز تمہارے لئے ہیں
ملک کشمیر کے روح روانو!حرمت کشمیر کے پاسبانو!با ادب با ملاحظہ ہوشیار،تشریف لا رہے ہیں افرا سیاب ِدوران،ستم ہائے غریبان، آسیب خورد و کلان، بلا عزت و احترام دربار صاحب ،جو مو کر گئے ہیں بلکہ سالہا سال سے موو کرتے رہے ہیں اور غریب عوام کی چھاتی پر مونگ دَلنے ،ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر ،عیش و آرام کی پوٹلیاں باندھے، اختیار و اقتدار کی بلائیں سمیٹیں ،جھنڈوں اور ڈندوں سمیت، لال بتیوں کا جلوس اکٹھا کر کے ملک کشمیر پدھار رہے ہیں۔۔۔سردی کے خوف سے بانہال پار ڈیرہ جو ڈالا تھا اسے دوبارہ باندھ کر گرمی کی تپش برداشت نہ کرتے سہانی دھوپ اور حسین نظاروں کا لطف لینے واپس بانہال کے اس پار قوم کے غم میں ڈنر کا مزہ لینے وارد کشمیر ہو رہے ہیں۔اسی لئے ملک کشمیر کی سڑکوں پر رنگ و روغن چڑھ رہا ہے۔ مانا کہ اہل دربار کا دل صاف و پاک نہیں لیکن سڑکوں کے کناروں کو اس طرح صابن شیمپو مل کر گند ہٹائی جا رہی ہے کہ عوام الناس کی قمیض بھی اتنی صاف نہیں دُھلی ہوتی۔کھڑوں میں کنکر تارکول بچھ رہا ہے،تاکہ یہ جو اتنی دیر عوام الناس کے انجر پنجر ڈھیلے کئے جا رہے ہیں ان کا منہ بھی کالا ہو۔پلوں کے ریلنگ پر سفیدی ملی جا رہی ہے یا یوں کہیے کہ چونا لگا یا جا رہا ہے۔ سڑکوں کے بیچ کہیں کہیں لگے پیڑوں کی گرد جھاڑ جھاڑ کر اتاری جا رہی ہے حالانکہ اتنی دیر یہاں نرم و نازک کھلتے گلابوں کی بانس کے ڈنڈوں اور بندوق کے بٹوں سے دُھول جھاڑی گئی۔ سڑکوں کے درمیان آہنی گرلز کو شفاف کیا جارہا ہے ۔ بجلی کے قمقموں کو پیار سے ناپا تولا جاتا ہے، بڑی سی اونچی سی گاڑی لے کر صاف کیا جاتا ہے اور جو کنکشن کئی مہینوں سے کٹ گئے تھے انہیں دوبارہ جوڑا جاتا ہے تاکہ دربار کا کوئی کنکشن فُس نہ ہوجائے۔ در و دیوار روشن کئے جاتے ہیں کہ کہیں دربار صاحب کی آنکھیں کوئی برا خواب نہ دیکھیں جب کہ کھلتے پھولوں کی آنکھوں پر یلغار کرکے ان سے بینائی چھینی گئی۔ ارے بھائی ان کا خواب تو اپنا ہے وہ بھلا برا کیوں دیکھیں اس کے لئے عوام الناس موجود ہے۔اسی لئے تو دفتر دفتر افسر افسر انتظامات کو حتمی شکل دے رہا ہے کہ کہیں دربار صاحب کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔دربار صاحب کے لئے رہنے کی جگہ، گھومنے کی جگہ، دندناتے پھرنے کی جگہ پر نئی لیپا پوتی ہو تی ہے ، کہیں رنگ و روغن سے مزین کیا جاتا ہے کہیں خوش آمدید کے لئے بینر آویزان ہیں کہ کہیں شاہی دربار کے آئو بھگت میں کوئی کمی نہ رہے۔کمی رہ گئی تو ہم ذمہ دار نہیں۔دفتر دفتر افسر افسر کی کرسیاں اس بات پر ٹکی ہیں کہ دربار صاحب خوش و خرم ملک کشمیر میں پہنچے اور یہاں کوئی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اتنا ہی نہیں وہ جو ریڑھی بان ،چھاپڑی فروش سڑک کیا گلی کیا، فٹ پاتھ کیا، بیت الخلا کا پائدان کیا، دوکان کا تھرہ کیا، لال چوک کا اڈہ کیا ،کالج کا گیٹ کیا، عاشقوں کا ڈیٹ کیا ،غرض سانس کی نلی تک اپنے نام انتقال کروا بیٹھے تھے ان سے قبضہ ہٹایا گیا کہ اب کی بار مفتی سرکار میں یہ حرکتیں معاف نہیں ۔وہ تو ۲۰۱۶ء میں ہڑتالی مجمع کا توڑ کرنے کے لئے تم کو عارضی حقوق محفوظ کئے گئے تھے اور تب تو اپنے سیاسی مشٹنڈے نہ جانے کہاں کہاں منہ چھپائے بیٹھے تھے لیکن ابھی تو وہ دن میں رات میں، خاموشی میں بات میں،بولی میں گولی میں ہر جگہ دِکھیں گے، اس لئے راستہ کھلا ہونا چاہئے تاکہ وہ دندناتے پھر پائیں ؎
لوگو مجھے سلام کرو میں وزیر ہوں
گردن کے ساتھ تم بھی جھکو میں وزیر ہوں
تم ہاتھوں ہاتھ لو مجھے دورہ پہ جب
موٹر کے ساتھ ساتھ چلو میں وزیر ہوں
مانا کہ جمہوری تماشے میں عوام الناس سرداری کا حق رکھتا ہے لیکن کسے نہیں معلوم کہ عوام تو ویسے ہی ہانکنے کے لئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی سرداری دربار صاحب کے یہاں بلا عوض اُجرت تفویض کر رکھی ہے۔اس لئے میاں دربار جو چاہے سو آپ کرے ہم کو عبث بدنام کیا۔دربار کے ہاتھوں میں طاقت ہے، معیشت ہے، اقتدار ہے، اختیار ہے،روزگار ہے غرض جو کچھ ڈھونڈو وہ تو دربار کے چوکھٹ کی لونڈی ہے۔ اسی لئے اس کے استقبال کے لئے بینڈ ہے باجہ ہے کیونکہ یہی تو راج تاج کرنے والا راجا ہے۔دربار کے پاس اتنا سب کچھ ہے کہ وہ بانہال کے آرپار لانے لے جانے میں تین تین دن ٹریفک بند کرنا پڑتا ہے کہ بڑے بڑے ٹرنکوں کے اندر جو فائیلیں ہیں ۔فائل کیا ہے لائف ہے اور جنہیں سرینگر میں پیش کرو یا جموں میں پیش کرو کی گردان لکھی جاتی ہے تاکہ لوگ اُمید باندھے رکھیں کہ امید پر دنیا قائم ہے اور اگر عوام الناس کی امید ٹوٹی تو ان کی سانس رک جائے گی اور اگر عوام کی سانس رُکی تو حکومت کس پر چلائی جائے گی؟ظاہر ہے سینے کے اندر دھونکنی چلنی چاہئے دھک دھک ، جبھی تو دربار کے عیش عشرت قائم رہیں گے۔ویسے اس میں شکایت کس بات کی کہ راجہ اور پرجا میں یہی تو فرق ہوتا ہے۔اتنی دیر یہاں ملک کشمیر میں پرجا بستی تھی کہ انہیں عادت ہو گئی ہے۔گرد سے اَٹی سڑکوں، کھڈوں بھری راہداریوں، گند سے بھری نالیوں ، بلا روشنی کے قمقموں کے درمیان عبور و مرور ، اور اگر انہیں صاف راستوں پر چلایا جائے تو کوئی تعجب نہیں کہ انہیں زکام ہو جائے۔اسی لئے اب جو راجہ پدھارے ہیں تو صاف صفائی واجب بنتی ہے۔
دروغ بر گردن راوی، جس نے یہ افواہ پھیلائی کہ جمہوری تماشے میں جو کل تک ساتھ دیتے تھے وہی اچانک منہ پھیر لیتے ہیںاور چونکہ ہم ملک کشمیر کے باسی ہیں اس لئے افواہوں کو پسند بھی کرتے ہیں بلکہ انہی پر جیتے ہیں کہ افواہیں ہمیں بہت بھاتی ہیں ۔ہم چٹخارے لے لے کر افواہیں سنتے ہیں ، ہضم کرتے ہیں اور اس وقت ہمیں ہاضمولا کی بالکل ضرورت نہیں پڑتی یعنی جو منہ کی خوشبو سونگھ لیتے ہیں وہی بدبو کا الزام دیتے ہیں۔اصل بات تو قیمت کی ہوتی ہے کوئی ضمیر کے عوض بکتا ہے کوئی گھوڑے گدھے کے بھائو بکتا ہے ؎
جمہوریت اک طرز حکومت ہے جس میں
گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ
یہ اور بات ہے کہ دربار موو کے ساتھ اس بار سرکار کے سیاسی ایوانوں میں زلزلہ محسوس ہو رہا ہے۔کرسی جانے کا زلزلہ، حکومت ٹوٹ جانے کا زلزلہ،قطبین کے ملاپ منقطع ہونے کا زلزلہ، جمہوری تماشے میں نئی دھمال کا زلزلہ۔سنا ہے زلزلہ پیما پر اس کی شدت آر پار دراڑ بتائی جاتی ہے۔یعنی سنبھل جائو نہیں تو ہم قلم ایک طرف دوات دوسری طرف پھنکواوا دیں گے ۔یعنی نہ جائے رفتن ہے نہ جائے ماندن ۔آگے گیلانی ہے پیچھے رام مادھو کہ دونوں سے نپٹارا نا ممکن ہے۔وہ دن تو لد گئے جب کم تر مصیبت کے نام پر کچھ سال کرسی سنبھالے رہے۔اب کی بار مفتی سرکار اسی لپیٹے میں آگئی ہے جس میں وہی لوگ کنول کو دوات سے باہر کرنے اور ناطہ توڑنے کی بات کرتے ہیں جو پس پردہ نئی سرکار کا کام انجام دے رہے ہیں۔
میں نے سی ایم کو سلام لکھ بھیجا
وادی کا حال تمام لکھ بھیجا
میںنے پوچھا اعلیٰ وزیر کیسے بنے
اس نے مودی کا نام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا کام کچھ باقی ہے کیا
مرد مومن کاخواب خرام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا حکومت کون گرائے گا
اس نے مادھو رام لکھ بھیجا
اور اس بیچ بات چیت کو لے کر ٹھن گئی ہے کہ بندوق سے نہ گولی سے، بات بنے گی بولی سے مفتی آف بجبہاڑا کا پرانا فتویٰ ہے۔ ہڑتال والوں سے بولی بولنے کے لئے قلم تلوار کی کاٹ جتا رہا ہے لیکن دوات کے اندر کنول پوری طرح کھلا کھلا نظر آرہا ہے ،بلکہ دوات کی روشنائی چوس کر کنول اپنی شبیہ نکھار رہا ہے ۔ایسے میں کنول والے بادشاہ نے جموں و لداخ میں کنول کھلانے کی بات کی کہ ملک کشمیر کی آب و ہوا کنول کھلانے کے لئے موافق نہیں، حالانکہ اہل کشمیر سالہا سال سے کمل ککڑی(ندرو) کا مزہ لیتے آئے ہیں۔ باقی تو چپ سادھے ہیں لیکن لال چوک کا متوالابات بات پر مودی مہاراج کے چیلوں کو اپنی آنکھیں دکھا رہا ہے ۔وہ تو پرانا نعرہ مستانہ لگا نا چاہتا ہے کہ تو من شد ی من تو شدم کیونکہ اسے بھی معلوم ہے کہ دلی دربار اور ملک کشمیر کا گٹھ جوڑ اسی جگہ سلوایا گیا تھا اور اسے شک ہے کہ جب بھی کچھ نیا بنے گا ۔اس پر حق اسی کا ہے کیونکہ وہ لال چوک سے بس دو سو میٹر براجمان ہے یعنی ہمسائیگی کے سبب محبت کا پہلا لڈو اسی کے منہ میں ٹھونسا جا سکتا ہے ۔
ابھی قائد ثانی نے بازی مار لی ۔فقط سات فیصد میں سے چار فی صد چٹنی اندر کر کے کامیابی حاصل کی یعنی اس کی حیثیت میٹرک اور بارہویں کے بچوں سے بھی کم تر ہوگئی کہ انہوں نے ماضی کے قلم کار حال کے پروردگار عفت خان اور ستار وگے کی دریا دلی کے سبب پھر بھی پچاس فیصد کا امتحان دے ڈالا۔ادھر ینگ مفتی آف بیج بہاڑہ اور ہل و ہاتھ کا مشترکہ سالار بھی قسمت کا رونا رو رہا ہے کہ ان کی قسمت ہل والے قائد کے مقابلے دھوکہ دے گئی۔وہ تو ملک کشمیر کو اپنے حال پر چھوڑ کر دلی دربار دوڑنا چاہتے تھے لیکن الیکشن کمیشن کی لا ل پری آنکھ مار کر چلی گئی اور وہ دونوں ہاتھ ملتے رہ گئے۔یہ اور بات ہے کہ قائد ثانی نے سنگ بازوں کی تعریف میں قصیدے گائے۔ینگ مفتی نے عوام کی جان کو اپنی سیٹ سے بڑھ کر جتایا مگر یہ جو پبلک ہے سب جانتی ہے ۔وہ تو لیڈران قوم کی رگ رگ سے واقف ہے ،اسی لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
حج کرنے گیا تھا قوم کا لیڈر کوئی
سنگباری کے لئے شیطان پر جانا پڑا
ایک کنکر پھینکنے پر صدا آئی اسے
تم تو اپنے آدمی تھے تم کو آخر کیا ہوا
���
(رابط[email protected]/9419009169 )