’’ ماں ۔۔۔ ماں کہاں گئی ۔‘‘ میں بے چینی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ پہلے لگا کہ شاید نماز پڑھنے اپنے کمرے میں گئی ہوگی لیکن ابھی نماز کا وقت نہیں ہوا تھا۔ جب وہ کافی دیر تک نہیں آئی تو بے چینی اوربڑھ گئی ۔ اس کا کمرہ چیک کیا۔ وہاں نہیں تھی۔ لابی دیکھی تو وہاں بھی نہیں تھی۔ بڑی بیٹھک میں دیکھا۔ لیکن ماں کہیں نہیں تھی۔
دراصل ہمارے پڑوسی رحمان بٹ کا سارا گھر کرونا کا شکار ہوچکا تھا۔وہ سبھی لوگ کمروں میں قید ہوچکے تھے۔ ہم ان کے پڑوسی ان سے زیادہ تشویش میں تھے۔ یہ تشویش ان کے مرنے یا زندہ بچ جانے کے لئے نہیں تھی بلکہ ہم سبھی پڑوسی یہ سوچ کر پریشان تھے کہ کہیں ان کی وجہ سے ہم بھی مصیبت میں نہ پھنس جائیں ۔ کچھ پڑوسی تو محلہ چھوڑ کر بھاگ بھی چکے تھے۔ لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی دوسری جگہ نہیں تھی جہاں ہم اس وبائی محلے ے بھاگ کر بیٹھ جائے۔ہاں ہم نے اتنا تو کر ہی لیا تھا کہ سارے گھر کو سینٹائز کر دیا اور خود گھر پر بھی ماسک کا استعمال کرنے لگے ۔ ضرویات کا سامان بھی لے آئے ۔ جس میں زیادہ تر ایمرجنسی میں کام آنے والی چیزیں تھیں۔ دوائیوں کے علاوہ آکسیجن کا ایک سلنڈر ، بھاپ دینے والی مشین، ماسکس ،ہینڈ گلاوز اور دو تین مہینے کے لئے کھانے کا سامان ، گوشت، مرغ اور سبزی سے دو فریج بھر کر رکھ دیئے۔ کھڑکیاں دردوازے سب بند کر دیئے ۔ خاص کر پڑوسیوں کی طرف سے لگی دیوار کو سنیٹائزر کا خاص چھڑکائو کیا تاکہ ان کے گھر سے وائرس ہمارے گھر پر حملہ آور نہ ہوجائے۔ ہم بار بار یہ بھی چیک کر رہے تھے کہ احتیاط کا کوئی پہلو چھوٹ تو نہیں گیا جس سے ہمیں کوئی خطرہ لاحق ہو گا۔ ساری احتیاطی تدابیر کرکے اب ہم قدرے مطمئن تھے۔ کھڑکیاں دروازے بند کردیئے اور آرام سے گھرکے اندر بیٹھ گئے ۔ بیٹھنا کیا تھا اب ہم آج رات کے کھانے کا انتظام کرنے لگے ۔ ویسے بھی ہمارے پاس وافر مقدار میں کھانے کا سٹاک موجود تھا۔ فریج سے گوشت کے دو چار بڑے بڑے ٹکڑے نکال کر ہم نے گھر میں ہی پیکنک بنانے کا پروگرام بنا دیا۔ گوشت سے رستے اور گوشتابہ بنانا تھوڑا سامشکل کام تھا کیوںکہ گوشت کو پتھر پر کوٹنا پڑتا لیکن گوشت کی یخنی توبنا ہی سکتے تھے۔ ساتھ میں قورمہ، آب گوش بنانے میں حرج بھی کیا تھا۔ سارا کچن برتنوںسے بھر گیا اور ہم سبھی لوگ وازوان ڈیشز بنانے میں مگن ہوگئے۔ کوئی گوشت کاٹ رہا ہے۔ کوئی دھنیا کے پتے صاف کر رہا تھا۔ کوئی دارچینی الاچی کوٹ رہا تھا تو کوئی گرم مصالحہ۔ شام تک تو پتہ بھی نہیں چلا کہ دن کیسے گزر گیا۔ نہ باہر کی کوئی خبر آئی نہ ہی آس پڑوس کی کوئی پریشانی ۔ شام کے کھانے میں ابھی بھی کافی وقت تھا تو زعفرانی قہوہ پینے کا موڑ بن گیا ۔ زعفران کے ساتھ ساتھ بادام ، کاجو ، دارچینی اور دوسرا سامان تیار تھا۔ قہوہ بنا تو پیتے پیتے اچانک خیال آیا کہ ماں تو یہاں ہے ہی نہیں۔ کہاں گئی ۔ ۔۔ کہاں کہا ں نہیں ڈھونڈا اُسے لیکن وہ نہیں مل رہی تھی۔ اب تو ہم سبھی پریشان ہوگئے۔ میری بیوی زیادہ غصہ کر رہی تھی کہ کہاں گئی ۔میرے بیٹے دادی کو آوازیں دینے لگے۔ہمیں فکر اور تردد میں مبتلا کرکے جانے کہاں گئی تھی۔ سبھی لوگ لابی میں کھڑے تھے تودیکھا دادی باہر سے آ رہی ہیں۔ ہم سب اس پر برس پڑے ۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ہم نے اسے منہ کھولنے کا موقعہ نہیں دیا۔ ہم سب اپنی ہی کہے جا رہے تھے اور وہ ہکا بکا ہوکر سن رہی تھی ۔ میرے بڑے بیٹے عارف نے اسے وہیں پر کھڑا رہنے کے لئے روک دیا ۔ خود سنیٹائزر کی بوتل لے کر آگیا۔ ماں کو پورا نہلادیا۔ ساتھ ساتھ ہم سبھی لوگ کچھ نہ کچھ کہتے بھی جا رہے تھے۔ آخر کار وہ خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ تو میںنے اسے روک کر پوچھا ۔
’’ ماں ۔۔۔ اب کہاں جا رہی ہو ۔ چلو کچن میں ۔۔۔ کھانا نہیں کھانا کیا۔‘‘
’’ نہیں مجھے نہیں کھانا ۔‘‘
’’ کیوں ؟ کیا ہوا۔؟ ‘‘
’’ یہاں میری کون سنتا ہے۔ سب اپنی ہی بولتے جا رہے ہیں۔‘‘
’’ او ہو ۔ آپ ہی تو باہر چلی گئی تھی۔ کیا ان حالات میں ایسا کرنا ٹھیک ہے۔ ‘‘
’’ نہیں ان حالات میں ایسا کرنا بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ ٹھیک کرنا بھی نہیں چاہئے کیوں کہ اب تو صرف بُرا کرنے کا وقت آیا ہے نا۔ اپنے گھر میں پورا واز وان بنائو۔ آرام وآسائش کی ساری چیزوں سے کچن اور فریج بھر کر رکھ دو۔ کھائو پیو۔ خود عیش کرو اور یہ نہ دیکھو کہ ہمسایہ کے گھر کا کیا حال ہے۔ وہ لوگ مر تو نہیں گئے ہیں‘‘
’’ کیسی باتیں کر رہی ہو ماں ۔ ان حالات میں پاس پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے بارے میں کون سوچتا ہے ۔ ماں یہ وباء ہے ۔ اس میں وہی بچ جائے گا جو خود کو بچا کر رکھے گا۔‘‘
نا بیٹا۔ ہم نے تو اپنی زندگی اس طرح سے نہیں گزاری ہے۔ بنا پاس پڑوسیوں کے ہم رہ نہ سکیں گے ۔ بیٹا میں دروازے تک گئی تھی۔ پڑوس کے گھر کے ساتھ کان لگایا تو وہاں کوئی پانی مانگ رہا تھا۔ کوئی درد سے چیخ رہا تھا۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوا ۔میں تو اندر بھی جاتی لیکن ان کا دروازہ بھی اندر سے بند ہے ۔ بیٹا یہ ہم کیسے پڑوسی ہیں جو ہم ان بیمار لوگوں کو اس طرح تنہا چھوڑ رہے ہیں ۔ یہ کیسا زمانہ آگیا ہے جو ہم اپنے دروازے کھڑکیا ں بند کرکے بیٹھے ہیں اور ہمارے پڑوسی تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ ہمارے زمانے میں تو پورا محلہ کھڑا رہتا تھا جب کوئی پڑوسی بیمار ہوجاتا تھا۔ رات بھر ان کی تیمارداری کرتے تھے۔ نہیں بیٹا نہیں مجھ سے یہ دیکھا نہیں جاتا۔‘‘
’’ ماں ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ کوئی بھی ان کے گھر میں نہیں جا سکتا۔ کون جان بوجھ کر موت کے کنویں میں چھلانگ لگائے گا۔ ہم مجبور ہیں ماں ۔ ہم مجبور ہیں ۔ ‘‘ میں ماں کو سمجھا رہا تھا جو بڑی حیرانی کے ساتھ میرا منہ تک رہی تھی ۔ لیکن جانے اس دوران میرے دونوں بیٹے کہاں گئے تھے۔ شاید وہ دادی کی باتوں کو بکواس سمجھ کر کچن میں چلے گئے تھے ۔ ابھی میں ماں کو سمجھا ہی رہا تھا کہ میرے دونوں بیٹے PPE KIT لگا کر میرے سامنے کھڑے ہوگئے ۔ ان کے ہاتھ میں دوائیاں تھیں۔ ساتھ میں آکسیجن سلنڈر اور Nebulizer بھی تھا۔
’’ کہاں ؟ ‘‘ میں نے حیران ہوکر ان سے پوچھا۔
’’ رحمان کاکا کے گھر ۔‘‘ رحمان بٹ ہمارا پڑوسی جو کرونا کے شکار تھے۔
’’ عارف ۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو‘‘ میری بیوی بڑے بیٹے پر زور سے چلائی ۔
’’ نہیں ماں ۔ ہم اس طرح آنکھیں بند نہیں کر سکتے ۔ دادی نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں ۔ ہم کیسے انسان ہیں جو اپنے پڑوسیوں کو اس طرح مرتے دیکھ سکتے ہیں ۔ ماں ہمارے پاس زندگی بچانے کا سارا سامان رکھا ہوا ہے ۔ لیکن یہ ہمارے کس کام کا ۔ ہم بیمار تو نہیں ہیں ۔ یہ سارا سامان ہمارے پڑوسیوں کے کام آجائے تو ان کی زندگی بچ سکتی ہے ۔‘‘ میرا بیٹا اپنی ماں کو سمجھا رہا تھا اور میری ماں کی بوڑھی آنکھوں میں امید کی کرن جاگ رہی تھی اور میں خوش ہو رہا تھا کہ ہماری نوجوان نسل انسانیت سے دور نہیں جا رہی ہے ۔ ہمارا مستقبل تابناک ہے۔
’’ بیٹے ذرا احتیاط سے جانا ۔‘‘
میرے دونوں بیٹے پورے انتظامات اور احتیاط کے ساتھ انسانیت کو بچانے کے لئے گھر سے باہر جا رہے تھے اور اندر سے میرے خون میں اُبال آرہا تھا، جو جوش اور مسرت کا ملا جلا ردعمل تھا۔
���
اننت ناگ ، فون نمبر9419734234