نصیب والی ہے وہ بیٹی جس کے سر پر والدین کا سایہ تادیر قائم رہے اور خوش قسمت ہے وہ بیٹی جو اپنے والدین کے جذبات و محبت کی قدردان ہو۔یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا کوئی بدل ہی نہیں۔ اگر میرے محبوبﷺ اور آپؐ کی لخت جگر فاطمۃ الزہراءؓ کی محبت کو یاد کیا جائے تو دنیا کے ہر باپ بیٹی کے رشتے کی محبت ماند پڑ جائے گی۔ ان لطیف ترین جذبات اور نرم و نازک قلبی تعلقات کا کوئی ثانی دنیا میں نہیں ہوسکتا ۔ بہر صورت باپ بیٹی کے انمول رشتے کا تقدس اور اس کے اندر حلاوت اور معنویت کی کون سی کائنات بسی ہوئی ہوتی ہے اس عاجزہ نے یہ حقیت پانچ سال قبل اپنے والد ماجد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دارِ آخرت کی طرف روانہ ہوتے ہوئے سمجھ لیا ۔۲۹؍ اپریل ۲۰۱۳ء ہماری اور ان کی ملاقات کی آخری صبح تھی۔ ۱۸۲۶ ؍یوم گزر گئے لیکن ایسا محسوس یوں ہوتا ہے کہ ابھی کل کی ہی تو بات ہے جب ہم سب ساتھ مل کر بیٹھا کرتے ۔ جو بھی لمحہ جو ان کے ساتھ گزرا اس میں تربیت کی بصیرت اور نصیحت کی روشنی کے علاوہ محبت کے خزانے بھرے ہوئے ہوتے۔ کہتے ہیں نا کہ مقدر کے علاوہ اور وقت سے پہلے کبھی کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا،واقعی ہمارے مقدر میں یہ محبت بھرا ساتھ کافی قلیل مدت تک لکھا ہوا تھا ، مانا ابھی بظاہر ان کی اُلفتوں اور رہنمائیوں کی ہمیں بے حد احتیاج تھی جب ہمیں کم سنی میں ہی ان کی یادوں کے سہارے جینا پڑا ۔نہ جانے مجھ جیسی کتنی اور بچے بچیوں کو اپنے والد کی جدائی کا غم صغر سنی میں برداشت کر نا پرا ہو ۔
سچ ہے کہ اپنی ذات کے لئے زندگی جینا آسان ہے مگراللہ کی مخلوق کے لئے زندگی جینا مشکل مگر باکمال بات ہے۔میرے والد گرامی طبعاًکچھ اس قسم کے تھے کہ دوسروں کی تکلیف او رنج و غم دور کرنے کے لئے خود اپنی زندگی نچھاور کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتے۔ کسی گھر گرہستی والے انسان کے لئے اپنے اہل و عیال کے ساتھ وابستگی کس قدر گہری اور اَتھاہ ہوتی ہے مگر ابو تمام لوگوں کو اپنے ہی عیال کا حصہ مان کر اُن کا دُکھ سکھ بانٹنے میں کوشی محسوس کر تے۔ ان کی یہ نیک سیرتی یاد کر کے آج بھی میری پلکوں سے اشک اسی طرح بہہ رہے ہیں جیسے پانچ سال قبل بہتے تھے۔ قلب کچھ یوں ملول ہے کہ کچھ لکھنا گراں گزر رہا ہے مگر کیا کروں ابو کی شخصیت ایسی دلنواز تھی کہ نہ لکھے بنا نہیں رہا جاتا۔اس انمول موتی کا ہم سے یوں بچھڑ جانا ہمارے زندگی کے بہاروں کوخزان آلودہ کر گئی ۔ سال ۲۰۱۷ء میں(چھ ماہ قبل)میری رخصتی کا وقت تھا اور وہ لمحہ جس میں ایک بیٹی اپنے گھر کو الوداع کہتی ہے اور اپنے والد سے لپٹ لپٹ کر روتی ہے ،ان آنسوؤں کی گرمی سے میں محروم ہوئی ۔ اس موقع پررونا شایداس لئے ہوتا ہے کہ اب وہ پیار و محبت ،وہ شفقت، وہ الفت،وہ لاڑ پیار کہیں نہ کہیں رخصت ہونے والی بیٹی کو بھلا کر زندگی کا ایک نیا قدم اٹھا کر زندگی کی نئی شروعات کرنی ہوتی ہے جہاں فطری طور اُتار چڑھاؤ کی کئی منزلیں طے کرکے آگے گزز نا ہوتا ہے۔ آنسوؤں کی گرمی کے ساتھ میکہ سے جاتے جاتے دلہن کو یہ راحت وسکون ملتا ہے کہ کوئی بات نہیں، میں سسرال جا تو رہی ہوں مگر میرے پاپا یا ڈیڈی ابو ہمیشہ میرے ساتھ ہیں مگر افسوس عاجزہ کا یہ خواب خواب ہی رہ گیا۔ شکر ہے سسرال جانے کے بعد مجھے والد کی شکل میں ایک اور نعمت ملی جو رب العزت کی مجھ پر کرم فرمائی ہے۔ یہ نعمت میرے واسطے ابو کا ہی نعم ا لبدل ہے ۔ فالحمد للہ
میرے والد ماجد نے زندگی کی وہ بہاریں نہ دیکھیں جو اب بھی ان کا انتظار کر رہی ہیں۔ہر باپ کی آرزو ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی بہار دیکھے، ان کا پُر رونق مستقبل دیکھے، گھر آنگن میں ننھی کلیاں مسکراتے دیکھے،بچوں کے ساتھ بچہ بنے۔ ابو کے بارے میں اللہ کی مرضی کچھ اور تھی کہ جہاں ہر بندہ سرخم تسلیم ہوتا ہے ۔پیاری بہنو! یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جس طرح میں ہر وقت، ہر لمحہ، ہر سانس اور ہرقدم اپنے والد کی کمی محسوس کرتی ہوں ،کہیں آپ اس انمول نعمت کی قدر دانی سے ناواقف نہ رہیں۔یہ عاجزہ آپ سے التماس کرتی ہے کہ اپنے والدین کی عزت واکرام کریں،ان کی ہر بات کو حکم سمجھ کر کریں، اُن کی آن بان شان کا ہر وقت لحاظ رکھیں۔ ماں باپ کی دعائیں لیتی رہیں ، اُن کی خدمت جتنی ہو سکے کر گزریں۔ کشمیری زبان میں ایک محاورہ ہے’:’مول تہ موج گیہ سلامِہ روستی غلام‘‘، یعنی والدین بچوں کے لئے بغیر سلام کے غلام ہوتے ہیں ۔ یہ بات بہت خوب ہے اور زندگی کا ٹھوس سچ ہے۔ میری زندگی کا خاص تجربہ ہے کہ اس دنیا میں اگر امانت یا بھروسہ کے قابل کوئی ذات ہے تو وہ صرف ہمارے والدین ہیں۔ اس لئے ان کی قدر دانی کریں ، اللہ نہ کرے کہیںیہ نعمت ِعظمیٰ چھن جانے کے بعد پھر آپ کے ہاتھ سوائے پچھتاوا کچھ نہ رہے!بہت خوش قسمت ہے وہ بیٹی جو اپنے والدین کی آغوشِ محبت و تربیت میں ہنسی خوشی اپنا دن نکالتی ہے ، پوری رات جس کے لئے یہ دل سے دعاگو رہتے ہیں ، ہر صبح فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اس کی دینا و آخرت سنور جائے اور ہر شام اس کے لئے حسین خواب دیکھتے ہیں ۔ یہ دست بدعا ہوتے ہیں کہ جب زندگی دینے والا ہمیں واپس بلالے تو بیٹی پراپرجائی دیکھ کر خوشی خوشی آنکھیں بند کے فانی زندگی سے رخصت لیں۔ والدین کے لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو سنہرے اصولِ حیات سکھائیں،دین و دنیا کی تعلیم سے آگاہ کرائیں تاکہ ان کے بعد اولاد اُن کے واسطے توشہ ٔ آخرت بنیں، دنیا میںاُن کے فاتحہ خوان بنیں ناکہ والدین کی بخشش ہوجائے۔چونکہ اولادکی تعلیم وتربیت کا پورا ذمہ والدین کے سر ہوتا ہے، اس لئے اس ذمہ داری سے کوتاہی برتنا والدین کے ساتھ ساتھ اولاوں کے لئے خسارے کا سود ا ثابت ہو سکتاہے ۔ موجودہ دور میں والدین کی بڑی فاش غلطی ہے بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت میں عدم دلچسپی اور اپنے عزیز بچوں سے دوری بنانا ۔اس سے بچے خود بخود ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ ہمارے مرحوم ابو کی ماننداپنے بچوں سے دوستانہ تعلق قائم کریں تاکہ وہ ان کی محبت و فرمان برداری میںفخر محسوس کریں اور زمانے کی فضولیات کی طرف آنکھ بھی اٹھاکر نہ دیکھیں۔ ان حوالوں سے میں اپنے مرحوم والد ماجد کی کن کن خوبیوں کا ذکر کروں۔ ہمارے بے لوث مربی ہونے کے علاوہ آپ ایک شفیق والد، فرمانبردار فرزند، عظیم شریکِ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قلم کار بھی تھے، ان کے اکثر و بیشتر موضوعات اصلاح معاشرہ، صنف نازک کی صحیح تربیت، اخلاقِ حسنہ کی ترویج،حرمین شریفین کے دلکش و روح پرور مناظر کی عکاسی ہوا کرتے ۔ابو میں دینی رجحان اس قدر غالب تھا کہ شرک و بدعات اور غلط رسومات سے آپ کے خمیر میں ہی نفرت واجنبیت رچی بسی تھی۔آپ عقیدہ ٔتوحید کے مر کب تھے اور یہی تعلیم اپنے اہل خانہ کو بھی دینی کی کوشش کیا کرتے ۔ سلام ہو ابو کی خوش نصیبی پر کہ اللہ نے ان کی اس سعی و عمل کو دنیا میں ہی قبول کر لیا کہ آخری وقت حالتِ مراقبہ میں اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
عزیز بہنو! اپنے ابو کی یہ داستان کہنے سے مقصد یہ ہے کہ شاید سماج کی کوئی بیٹی اپنے ابو سے ایک نئے پیار و محبت اور فرمان برداری کی کا ئنات دریافت کر سکے۔ چونکہ ہم نے اپنے ابو کی محبت بہت کم مدت کے لئے پائی، ابھی ہم نے ان کی دی ہوئی خوشیوں کا صلہ پانا شروع ہی کیا تھا کہ اچانک طوفان ہمارے آشیانے پر ٹوٹ پڑا ، یہ ایک ایسا طوفان تھا کہ جس نے ہماری زندگی کو بے کیف کردیا اور ایسا خالی پن ہمیں ملا یہ خلاکبھی کوئی پورا نہیں ہوسکتا۔دنیا میں انسان کو چاہے کتنی بھی محبتیںملیںمگر والد کی محبت کا انداز ہی کچھ الگ ہوتا ہے۔ والد والدہی نہیں دوست اور زندگی بھر کا بلا معاوضہ رہبر ہوتا ہے۔ دعا کریں کہ ہر بہن بھائی کی زندگی میں والدین کا سایہ تادیر قائم رہے اوران کے ننھے کندھوں پر سرپرستی کا بوجھ بچپن میں ہی نہ پڑ ے۔اُمید ہے آپ اس بہن، بیٹی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا کچھ مان رکھ لیں گے اور اپنے والدین کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں گے ۔ ہم سب اس عظیم نعمت کا بھر پور خیال رکھنے کے علاوہ ان کی عزت وتکریم کا خاص خیال ر کھیں۔ دعا ہے اللہ پاک آپ سب کے والدین کو عمر درازی سے سرفراز کرے ، آپ کو نیک صالح اولاد بننے کی توفیق عطا فرمائے اور جن جن کے والدین سرائے فانی سے رخصت ہو چکے ہیں اولاد کو ان کی مغفرت اور حصول جنت کا ذریعہ بنائے۔ اللہ رب العزت میرے مرحوم والد ماجد کو بھی جنت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات نصیب فرمائے اور ہمیں اُن کے لئے توشہ آخرت بنائے ۔ آمین