آج ہم پورے تزک واحتشام اور روایتی جوش وخروش سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بار گاہ ِا لہٰیہ میں کامیابی وکامرانی کی خوشی میں عیدالاضحی منارہے ہیں ۔موقع کی مناسبت سے ہم ان دوعظیم ہسیتوں کی کامیابی کے سیاق وسباق کا تفصیلی مطالعہ کر تے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ ان کے عالی شان اسوؤں میں ہمارے لئے کیا درس پنہاں ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام تاریخ اسلامی میںجلیل القدر پیغمبر اور اابولانبیاء کہلاتے ہیں ۔ آپ ؑ انبیاء کرام ؑ کی صف میں وہ برگزیدہ شخصیت ہیں جنہیں تاریخ میں ایک عظیم ترمقام ومرتبہ حاصل ہے ۔آپ ؑ مسلمہ طور توحید کے عظیم المرتبت داعی ہیں ۔ ابراہیم خلیل ا للہ ؑ نے نوع ِانسانی کو للہٰیت یعنی اللہ کی راہ میں فنائیت ، خلوص اور ایثار کا لامثال نقش ِراہ عطا کیا ۔ اسی مناسبت سے آپؑ کی پوری حنیف زندگی لا مثال قربانیوں، جفاکشیوںاور داعیانہ عظمتوں کی آئینہ دار بنی رہی ۔ آپ ؑ زندگی کے ہر موڑ پر دعوت وتبلیغ میں فعال و متحرک ہوکر ملکوں کی خاک چھانتے رہے اور قوموں تک پیغامِ توحید پہنچاتے رہے ۔ اس پیغمبرانہ کام کی انجام دہی اور ایک اللہ کی خوشنودی میں آپ ؑ نے اپنے اہل وعیال کی فکریں چھوڑ تو دیں مگر افراد اور قوموں کو نغمۂ توحید سے سرشار کرنے میں ایک لمحہ بھی سستی گوارا نہ کر لی ۔ مخالفتیں آپ ؑ کی را ہ روک سکیں، نہ مسافتیں آپ ؑ کے عشق توحید میں رکاوٹ بن سکیں ۔ اسی عظمت ِکردار کے صلے میں اللہ نے خود آپ ؑ کوتاریخ انسانی میں ایک عظیم قائد ورہبر اور پیشوا ہونے کا مژدہ سنایا ۔ آپ ؑ نے حقیقی معنوں میں انبیائی قیادت کی حق ادائی سے اپنے مخاطبین ومتبعین کو توحید کی شاہ کلید عطاکی جس کی برکت سے وہ تمام شعبہ ہائے ز ندگی میں فیوض اورفوائد کے اُجالوں سے بہرہ ورہوئے۔ اس بے مثال براہیمی رہنمائی کے طفیل عالم ِانسانیت کا ٹوٹا ہوا رشتہ اللہ کے ساتھ از سر نو استوار ہوا ۔آپ ؑ وقت کے تمام انسانوںکے حقیقی بہی خواہ بن کر اُنہیں بت پرستی اور توہمات کی اندھیر نگری ، مذہب کے نام پر دوکانداری اور نمرود کی خدائی سے نجات دلانے میں ہمہ تن مصروف رہے ۔ زمانے کا پجاری طبقہ، پروہتوں کاطائفہ ، نمرودوں کا تخت وتاج آپ ؑ کے خلاف شعلہ زن تھا مگر آپ ؑ نے اپنے مشن کی روشنی پوری یکسوئی کے ساتھ پھیلائی ۔ زمانے کی برہمی سے آپ ؑ کے پائے ثبات میں کہیںکوئی لغزش نہ آئی کیونکہ آں جناب خالص سونا تھے کہ جسے جتنا آگ میں ڈالاجائے،اتنا ہی کندن بن کر نکلے ۔ یہ اسی انبیائی سیرت کا صلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آزمائشوں کی تمام بھٹیوں میں کھرا پانے کے بعد خلیل ا للہ ؑ کے سر موحدین کی قیادت وپیشوائی کی دستارِ فضیلت باندھ لی ۔
وقت کا ہر قائد کامیاب ہونا چاہے تو اُسے خلیل اللہ کی سیرت کا مقلد ہونا چاہیے ۔قرآن مجید نے انسانی دنیا کے لئے جس مطلوبہ قائد کا تصور پیش کیا ہے ، اس کی ایک اعلیٰ مثال حضرت ابراہیم ؑکی ذات ِاقدس میں موجود ہے ۔آپ ؑ نہ صرف ایک بے لوث و بے باک قائد بن کر جئے بلکہ اپنی قیادت کا نور اور قائدانہ صلاحیتوں کا محور کسی طبقہ،مسلک ، قوم یا علاقہ تک محدود نہ رکھا ۔ آپ ؑ انسانی دنیا کے لئے نہایت مخلص تھے ا ور آپؑ کی ذات میں اخلاص مندی کا وہ غیر مختتم خزانہ پوشیدہ تھا جس میں سے جتنا خرچ کیا جاتا ،اُتنا وہ اور بڑھ جاتا ۔ غرض حضرت ابراہیم ؑ کی سیت مبارکہ کا نچوڑ یہ ہے کہ آپ ؑ انتہائی باصلاحیت ، دور اندیش اور صاحب ِبصیرت امامِ ِزمانہ تھے ۔ کسی بھی حقیقی قائد میں ان تینوں صفات کا بدرجہ ٔ اتم موجودہونا انتہائی ضروری ہے :یعنی قائد کی ذات سے یگانوں اور بے گانوں کو خیر پہنچتا ہو، وہ قوم و ملت کے لئے نہایت مخلص ہواور اتنا صاحبِ بصیرت و زیرک ہوکہ زندگی کے ہردوراہے پر قوم کی بھلائی کے لئے حتی الامکان وہی راستہ اختیار کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہو جس پر قدم بڑھا کر اول قوم کی منزل آشنائی کا مقصد پوراہوتا ہو ، جس پر چل کرقوم کے حق میں فوائد زیادہ اور نقصانات کم ہوتے ہوں، جس کی آبلہ پائی سے قوم کے خلاف آزمائشوں یا عتابوں کو جانتے بوجھتے دعوت نہ ملتی ہو ۔ان صفات کی عدم موجودگی میں ایک قائد اپنی قوم کے لئے خیر خواہ ثابت ہونے کے بجائے فساد و بگاڑکاموجب ہی بن سکتا ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ ان تینوںایجابی صفات سے سرتا پا لیس تھے ۔ چنانچہ آپ ؑ کا ہر لمحہ بندگان ِ خدا کو شرک وکفر سے بچاکرخالص اللہ کی بندگی کی طرف بلانے میں صرف ہوا ۔قرآن مجید میں آپؑ کا تذکرہ ۲۵ سورتوں میں ۶۳ آیات میں آیا ہے اور ان کی چیدہ چیدہ قربانیوں کا تذکرہ سنہرے الفاظ میں ہوا ہے ۔ اللہ کی ذات وصفات کوکھوجنے کے لئے علم و تحقیق کی شمع فروزاں کر کے اللہ وحدہ لاشریک تک رسائی حاصل کر نا،اصنام پرست سماج میں بتوں کی پرستش کو عقل وفہم کی روشنی میں چلینج کر نا ، بت کدے میں جاکر دعوت ِ توحید کے مقصد سے بتوں کو توڑنا پھوڑنا، اپنے باپ اور قوم سے احقاقِ حق اور ابطال ِ باطل کے لئے مناظرہ آرائی کرنا ، اپنے عقیدہ ٔ توحید پر کاربند رہ کر آتشِ نمرود میں بے خطر کو دپڑنا ، وادی غیر ذی زرع ( مکہ معظمہ ) میں اللہ کے اذن سے اپنے اہل ِخانہ کو چھوڑ دینا ، اپنی پیرانہ سالی میں دعاؤں کے ثمرہ اپنے آنکھوں کے تارے ننھے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے ذبح کرنے کے لئے پیش قدمی کر نا ، یہ آپ ؑ کی سیرت مقدس کے سنگ ہائے میل اور نمونے کی چند مثالیں ہیں۔ عشق خداوندی میں طے شدہ ان مراحل میں سے اگر حضرت ابراہیم ؑ ایک ہی کام انجام دیتے تب بھی یہ آپ ؑ کے جلیل القدر پیغمبر ہونے کے لئے کافی تھالیکن قرآن کے مطابق آپ ؑ نے اللہ کی طرسے ہر آزمائش کو خندہ پیشانی سے بلا چوں وچرا لبیک کہہ کر گویا اپنی ذاتِ اقدس کو ہی ایک قربان گاہ بناڈالا ۔ کیوں نہ ہو، آپؑ انسانی دنیا کے لئے تسلیم و رضا کے عظیم پیکر اور یقین و عزم کی ارفع مثال (point of refrence ) بننے والے تھے ۔آپ ؑ کا ایمان و یقین اور ایثار وجذبہ ٔ خدمت غیر متزلزل اور حنیف ہونا لازم وملزوم تھا۔ اللہ کی راہ میں آپ ؑ نے کبھی بھی ضعف یا ذاتی منفعت کو اپنے قریب بھی پھٹکنے بھی نہ دیا ۔ حضرت ابراہیم ؑنے اپنے زمانے کی دنیا کو توحید کے قالب میں ڈھالنے ، شرک اور توہم سے نکال باہر کر نے اور امن وآشتی کا درس عام کر نے کا جو جو خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر آپ ؑنے اپنے یقین کامل، جذبہ ٔ ایثار ، اُمید فردا، تعمیر یت کے خاکے سے ڈھونڈ نکالی ۔ بقول اقبال ؒ ؎
یقین مثل خلیل ؑآتش نشینی
یقین اللہ مستی ، خود گزینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
حضرت ابراہیم ؑکے دعوت و تربیت کے چند نمایاں پہلویہ ہیں :
حنفیت (یکسوئی ):
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ: پیروی کروابراہیم ؑکے طریقے جو یکسو تھے ۔(نحل )حنفیت یعنی یکسوئی ایک صفت ہے جس کو بھی یہ صفت حاصل ہوجائے وہ اس کے لئے یہ خیر کثیر کے مساوی ہے ۔اللہ تعالی ٰ کو یہ صفت بہت پسند ہے اس صفت کا اس نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے حوالے سے تذکرہ کیا ۔ حضرت ابراہیم نے دنیا کے تمام بت کدوںاور پیشواؤں سے منہ موڑ کر صرف اور صرف اپنے رب کی طرف رخ اور رجوع کیا ۔ یہ وہ برگزیدہ شخصیت ہیں جس نے دنیا کے تمام معبودانِ باطل سے اعلان جنگ کیا ۔ اور نہ صرف اعلان جنگ بلکہ باطل کے ایوانوں میں جاکر دعوت توحید اور رب کا قانون عملاََ نافذ کرنے کی بھر پور اور انتھک جدوجہد کی جس کے لئے انھوں نے ہر قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا ۔اس حنفیت کا تقاضا یہ کہ ایک بندہ خدا اپنی خواہشیاتو قربان کر کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہوجائے اور اسی کا قانون اپنی زندگی میں نافذ کرے ۔
لااحب العافلین :
حضرت ابراہیم ؑ نے ہر زوال پذیر اور ڈوبنے والی چیز کو خیر باد کہہ کر یہ عالمگیر اعلان کیا کہ ’’لا احب العافلین ‘‘ کہ میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہوں ۔ جن افکار اور نظریات میں یا جن مذاہب اور پیشواؤ ں میں بھی زوال اور ڈوبنے کی ذرہ بھر بھی آمیزش موجود ہو ، وہ ایک انسان کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ثابت نہیں ہوسکتی ۔رہنمائی کی تو دور کی بات وہ الٹے پاؤں لوگوں کو گمراہی کے دہلیز پر پہنچاسکتے ہیں ۔جہاں سے انسان کو واپس لوٹنا بے حد مشکل ہے ۔ حضرت ابراہیم ؑنے کسی بھی ڈوبنے والی فکر و نظر اور معبود کو پسند نہیں کیا اور نہ کسی ڈوبنے والی چیز سے اپنے اپنے کو وابستہ کر رکھا ۔حضرت ابراہیم ؑ کی قوم باطل عقائد ،شرک و بدعات، خرافات ، مشرکانہ سوچ و نظریات میں لت پت تھی ۔ان کی قوم میں بت کدی ،بت گریاور بت پرستی عروج پر تھی اور حضرت ابراہیم ؑنے ان کو راہ حق سے روشناس کرانے کی بھر پور کوششیں کیں اور ہر ممکن طریقے سے بات سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان کی قوم نے اپنی تقدیر اور زندگی کے جملہ معاملات میں بت خانوں سے وابستہ کر رکھے تھے ۔ وہ صبح و شام بت خانوں میں پوجا کرنے کے لئے جاتے تھے اور ساتھ ہی مختلف قسم کی عبادات اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ اس قوم میں ستارہ پرستی بھی عروج پر تھی یعنی وہ سورج کو بڑا دیوتا تصور کرتے تھے اور اسی سورج دیوتا کو باقی تمام دیوتاؤوں کا سردار مانتے تھے ۔نمرود اسی سورج دیوتا کا اپنے آپ کو اوتار سمجھتا تھا ۔وہ حق پرست اور اور توحید کی آواز بلند کرنے والوں کو باغی ،غدار اور منکر قرار دیتا تھا ۔ نمرود اور اس کے پیروں کار توحید یا حقیقی خالق و مالک کے متعلق ایک بات بھی سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔حضرت ابراہیم ؑکی قوم نے ایک مزدور سے لے کر باد شاہ تک نے اپنے موت و حیات کو پجاریوں ، پرہتوں اور بتوں کے حوالہ کر رکھا تھا ، غرض کہ یہ پوری قوم بت کدہ تھی ۔ یہ وہ حالات تھے جن میں حضرت ابراہیم ؑنے دعوت توحید کا مؤثر اور مفید اعلان فر ما کر اپنے آپ کو سب سے بڑا بت شکن ثابت کیا ۔ آپ ؑ نے اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی کبریائی ہر موقع پر بیان کی ۔
دعوت کی ابتدا ء اپنے والد سے :
حضرت ابراہیم ؑنے دعوت کی ابتدا ء اپنے والد آذر سے کی کیوں کہ دنیا میں کوئی بھی انسان یہ نہیں چائیے گا کہ اس کے باپ کا انجام برا ہو۔ حضرت ابراہیم ؑنے بھی اپنے والد کو شرک وکفر کے انجام بدسے ڈرایا ، راہ حق سے روشناس کرانے کی بھر پور کوششیں کیں۔ آپ ؑ کے والد پجاری ہونے کے ساتھ ساتھ بت گر بھی تھا ۔ درخشندہ تقدیر والے فرزند نے اپنے باپ کے سامنے دلسوزی کے ساتھ بت پرستی کے خلاف زبردست دلائل پیش کئے اور اُسے معبود برحق اور مالک حقیقی کی طرف مائل کرنے کے لیے انتہائی کوشش کی ۔اس کا تذکرہ قرآن مجید میں آیا ہے : ’’ابا جان !آپ ان چیزوں کی عبادت کیو ں کرتے ہو جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور انہ آپ کا کوئی کام بناسکتی ہیں ، ابا جان میرے پاس ایک ایسا علم جو آپ کے پاس نہیں آیا ، آپ میرے پیچھے چلئے میں آ پ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا ۔‘‘ (سورہ مریم ۴۳۔۴۲)
قرآن نے اس کا تذکرہ دوسری جگہ اس طرح سے کیا ہے : ’’اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آذر سے فرمایا کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے بے شک میں تجھ کو اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں ۔‘‘آذر کے علاوہ حضرت ابراہیم ؑکا اہل خانہ پانچ افراد پر مشتمل تھا جن میں دوبیویاں ، دوبیٹے اور ایک بھتیجا تھے ،وہ سب کے سب حضرت ابراہیمؑ ؑکے ساتھ دعوتی مشن میں پورے انہماک کے ساتھ جڑ گئے ۔
قوم کو دعوت :
حضرت ابراہیم ؑنے پہلے اپنے والد ، گھر اور پھر اپنی قوم کے سامنے دعوت الی اللہ پیش کی ۔ انھوں نے دعوت صرف گھر تک محدود نہ رکھی بلکہ اپنے مشن اور ہدف کو آگے بڑھاتے ہوئے قوم سے مخاطب ہوکر فرمایا : ’’جب اس نے اپنے باپ اور قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ں کیا ہے؟ ان کی قوم ضد ، ہٹ دھرمی اور جہالت کی دنیا میں مگن ہوکر اس طرح سے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو انہیں کی عبادت کرتے ہوئے پایا ۔ پھر تم اور تمہارے باپ دادا بھی یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا رہے ۔ آج بھی شرک ،بدعت اور رسومات بد میں مبتلا مسلمانوں کو ان کاموں سے روکا اور منع کیا جاتا ہے تو وہ بھی من و عن یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کسی بھی طرح نہیں چھوڑ سکتے ، جب کہ ہمارے آباء و اجداد یہی کرتے رہے ہیں اور ہم بھی یہی کررہے ہیں ۔
حکمرانوں اور بادشاہوں کو دعوت :
اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑنے بادشاہوں اور حکمرانوں کی طرف مخاطب ہوکر اپنے رب کا تعارف عمدہ طریقے سے کرایا جس کی تفـصیل قرآن مجید میں یوں ہے ــ’’ اے پیغمبر کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے سلطنت پاکر حضرت ابراہیم ؑسے اس کے رب کے بارے میں اس وجہ سے جھگڑ رہا تھا کہ میرا تو وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے وہ کہنے لگا کہ میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں‘‘ ۔یہ حکمران نمرود تھا ۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اس حکمران نے دو آدمیوں کو لایا ۔اس نے ایک کو قتل کیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا میں بھی جلاتا ہوں اور مارتا ہوں ۔ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو دھوکہ اور فریب دینا چاہا کہ میں بھی موت و حیات کا مالک ہوں لیکن حضرت ابراہیم ؑ اس کے فریب اور مغالطے میں کہاں پھنس جاتے پھر حضرت ابراہیم ؑنے ایسا وار کیا کہ وہ کافر لاجواب ، بھونچکا اور مبہوت ہو کر رہ گیا ۔حضرت ابراہیم ؑ کا یہ جواب دلائل ، مشاہدہ اورعقلی نوعیت کا تھا ۔بقول حفظ الرحمٰن سیہاروی جب دو فریق کسی مسئلہ میں اختلاف کر بیٹھتے ہیں تو اِحقاقِ حق کے لئے مناظرانہ دلائل میں سے دلیل کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنے دعوے کے ثبوت میں صرف نظریوں اورتھیوریوںسے کام نہ لیا جائے بلکہ مشاہدہ اور معائنہ کی ایسی راہ اختیار کی جائے کہ مخالف اس کے دعوے کے مقابلے میں لاجواب ہوجائے اور اس کے دلیل کی رد کرنے کی تمام راہیں اس کے سامنے بند ہو جائیں ۔اب اگر اس کے دل میں قبول حق کی گنجائش ہے تو وہ اس کو قبول کر لیتا ہے، ورنہ بے دلیل لڑنے اور جھگڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، تب حقیقی بات نکھر کر صاف ہوجاتی ہے ۔‘‘قرآن نے حضرت ابراہیم ؑکے اس عظیم جواب کو اس طرح سے نوٹ کیا کہ: حضرت ابراہیم نے کہا کہ اللہ تعالی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب لے آاب وہ کافر مبہوت رہ گیا ۔
جب حضرت ابراہیم ؑکے لئے بادشاہوں اور حکمرانوں نے دعوت دین کے لیے زمین تنگ کردی تو آپ ؑنے اتمام حجت کے بعد وطن سے ہجرت کرڈالی ۔
دعوت اور تنظیم :
حضرت ابراہیم ؑکی دعوت نظم سے بھی پوری لیس تھی ، آپؑ نے عراق سے ہجرت کرکے ملکوں ملکوں کی خاک چھانی۔ اس میں عراق کے علاوہ شام ، اردن ، فلسطین ، مصر و سعودیہ عرب قابل ذکر ہیں ، آپ ؑنے دعوت دین پر سب کچھ نچھاور کرکے جوانی سے لے کر بوڑھاپے تک مذکورہ ممالک میں دعوت دین کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی کوشش کی ۔حضرت ابراہیمؑ نے قائدانہ و داعیانہ رول ادا کرتے ہوئے دعوت اسلامی کو وسعت دے کر تین اہم مراکز قائم کئے ۔ وہ تین مراکز یہ تھے : خانہ کعبہ ، بیت المقدس اور اردن ۔
۱۔ خانہ کعبہ کا امیر حضرت اسماعیلؑ کو بنایا۲۔بیت المقدس کا امیر حضرت اسحاق ؑکو مقرر کیا اور اردن اس وقت دعوت اسلامی کے لحاظ سے اہم مرکز تھا ،وہاں انہوں نے اپنے بھتیجے حضرت لوط ؑ کا ناظم منتخب کیا ۔ حضرت ابراہیمؑ ان دعوتی مراکز کا خود جائزہ لیتے تھے اور اپنے ان معاونین کو ہدایت بھی دیا کرتے تھے ۔ حضرت ابراہیم ؑکی منصوبہ بندی اور دعوت دین کی لگن بڑے ارفع درجے کی تھی ، آپؑ نے دعوتی کام اہداف ، طے شدہ منصوبے اور مراحل میں کیا ۔
مستقبل کی تعمیر :
ایک نئی اور خدا رخی تہذیب کو کن بنیادوں پر قائم کیا جائے ؟نوع انسانیت کو کس طرح اللہ کی وحدانیت کی طرف انتہائی خیر خواہی کے ساتھ دعوت دی جائے ؟سماج کی تعمیر و تطہیر کیسے کی جائے ؟قیادت و سیادت کے بنیادی اوصاف کیا ہو نے چائیے ؟نئی نسل کی تعلیم و تربیت کیسے کی جائے ؟ایک بہتر مستقبل کا خواب کیسے دیکھا جائے اور خواب کو کیسے عملی جامہ پہنایا جائے؟تہذیبوں کے تصادم کے اس پر فتن دور نئی راہیں راہیں کیسے تلاش کی جائیں ؟ان سبھی سولات کا جواب اسوہ ابراہیمی ؑمیں ہمیں مل جاتا ہے ۔حضرت ابراہیم ؑنے ایک موقع پر مستقبل کا خاکہ کچھ اس طرح سے کھینچا ’’ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمابردار بنالے ، ہمارے اولاد میں سے بھی ایک جماعت کواپنی اطاعت گذار رکھ ، ہمیں اپنی عبادتیں سیکھا اور ہماری توبہ قبول فرما تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والاہے ، اے ہمارے رب! انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھ کر سنائے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے ۔یقینا َتوزبردست اور اور حکمت والا ہے ۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑکے ان چند درخشاں اور ان نمایاں پہلوؤوں میں ہمارے لئے رہنماء اصول موجودہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان نقوشِ پا سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا کرے۔آمین ۔
فو ن نمبر7889506485