سبزار احمد بٹ
ابرار اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اُس کے والدین اُس سے بے حد محبت کرتے تھے اور اُس کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ابرار ہمیشہ اُن کے قریب رہے، اسی لئے انہوں نے اُسے اپنے ہی گاؤں کے اسکول میں داخل کروایا۔ ابرار بھی دل لگا کر پڑھتا تھا، جس کی وجہ سے وہ جلد ہی تمام اساتذہ کی نظروں میں آ گیا۔ وہ نہایت حسین، خوش اخلاق اور محنتی لڑکا تھا۔
لیکن ابرار میں ایک خامی تھی۔ چونکہ ابرار کا گاؤں جنگل کے دامن میں واقع تھا، وہ اکثر اسکول سے واپسی پر جنگل کی طرف نکل جاتا۔ وہاں سے ننھے پرندوں کے بچے اُٹھا کر لاتا، انہیں گھر میں پالتا، دانہ پانی دیتا اور ان کے ساتھ کھیلتا۔ کبھی ان کے پاؤں میں رسی باندھ دیتا، کبھی اُن کے پر باندھ دیتا تاکہ وہ اُڑ نہ سکیں۔ وہ پرندے پھڑپھڑاتے، تڑپتے لیکن ابرار کو اس میں مزہ آتا۔ اس کے والدین بھی اُسے خوش دیکھ کر خوش ہو جاتے لیکن اُنہیں کبھی احساس نہ ہوا کہ وہ ننھے پرندے کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔
چند دن بعد وہ بچے یا تو اُڑ جاتے یا مر جاتے۔ ابرار کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ اس کا یہ شوق، کسی اور کے لیے درد کا سبب بن رہا ہے۔
جب یہ بات ابرار کے اساتذہ کو معلوم ہوئی تو اُنہیں سخت افسوس ہوا۔ انہوں نے ابرار کو سمجھایا:
“ابرار! آزادی پرندوں کا حق ہے۔ تم اُن سے ان کا حق چھین کر اُنہیں ان کے ماں باپ سے جدا کر کے ظلم کر رہے ہو۔ یہ کھیل نہیں، ایک اذیت ہے۔”
لیکن ابرار اپنی عادت سے مجبور تھا۔ وہ شام دیر گئے تک جنگل میں گھونسلے تلاش کرتا۔ کبھی کسی درخت پر گھونسلہ دیکھ کر پتھر مارتا۔ کبھی انڈے گرتے، کبھی ننھے چوزے۔ اگر نشانہ ٹھیک لگتا تو خوشی سے جھوم اُٹھتا۔
اس کی یہ ایک خامی اس کی تمام خوبیوں پر بھاری پڑتی تھی۔
گائوں کے لوگوں کو بھی ابرار اب ان حرکتوں کی وجہ سے برا لگنے لگا، گاؤں کا ایک بزرگ، غلام چاچا، روز اُسے سمجھاتے تھے
“ابرار، یہ اچھا شوق نہیں۔ یہ ظلم ہے۔”
لیکن ابرار پر کوئی اثر نہ ہوتا۔
ایک دن اسکول سے نکلتے ہی ابرار حسبِ عادت جنگل کی طرف روانہ ہو گیا، لیکن رات کے نو بجے تک واپس نہیں آیا۔ گاؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ والدین پریشان، لوگ مضطرب ہو
جب ابرار آخرکار واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا جس میں سے چوں چوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ جیسے ہی گھر کے آنگن میں پہنچا، حیران رہ گیا۔ پورا گاؤں وہاں موجود تھا۔ آنگن میں جم غفیر تھا۔
ابرار کی ماں زمین پر بے ہوش پڑی تھی۔
ابرار کی چیخ نکل گئی۔ وہ پاگلوں کی طرح لوگوں سے پوچھنے لگا:
“میری ماں کو کیا ہوا؟”
غلام چاچا آگے بڑھے اور کہا:
“ابرار، کسی نے تمہاری ماں سے کہا کہ تمہیں کوئی اٹھا کر لے گیا ہے۔ وہ دیوانوں کی طرح تمہیں ڈھونڈتی رہی، گلی گلی، جنگل جنگل۔ جب تمہارا کچھ پتہ نہ چلا تو صدمے سے بے ہوش ہو گئی۔”
ابرار سکتے میں آ گیا۔
غلام چاچا نے آہستہ سے کہا:
“ابرار، یہی ہوتا ہے جب ماں سے اُس کا بچہ جدا ہو جائے۔”
پھر وہ ڈبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے:
“کیا تم نے کبھی سوچا کہ جن پرندوں کے بچے تم لے آتے ہو، ان کی ماؤں پر کیا گزرتی ہوگی؟ وہ بھی یوں ہی تڑپتی ہوں گی جیسے تمہاری ماں تڑپ رہی تھی۔ تم نے اُن کے آشیانے اجاڑے، اُن کے بچے چھین لیے۔ یہ کھیل نہیں، ایک ظلم ہے!”
نبی کریم ﷺ کا فرمان
غلام چاچا نے ایک واقعہ سنایا:
“ہمارے پیارے نبی ﷺ کو یہ عمل ناپسند تھا۔ ایک مرتبہ ایک صحابی کہیں سے گزر رہے تھے تو جھاڑیوں میں چوں چوں کی آواز سنی۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک چڑیا کے بچے ہیں۔ وہ بچے نبی ﷺ کی خدمت میں لے آئے، سوچا کہ نواسے خوش ہوں گے۔ لیکن نبی کریم ﷺ ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ ان بچوں کو فوراً واپس وہیں پہنچا دو۔ کیونکہ بچوں کو ان کی ماں سے جدا کرنا ظلم ہے۔”
ابرار کے دل پر چوٹ لگی۔ اُس نے سر جھکا لیا۔ شرمندگی سے نظریں زمین پر گئیں۔
پھر وہ اچانک اُٹھا، ڈبہ تھاما، اور جنگل کی طرف چل پڑا۔
غلام چاچا نے آواز دی:
“ابرار، کہاں جا رہے ہو؟”
ابرار نے سر جھکاتے ہوئے کہا:
“میں ان چوزوں کو وہیں چھوڑ آؤں گا، جہاں سے لایا ہوں۔ اب میں کبھی کسی ماں کو اُس کے بچے سے جدا نہیں کروں گا۔ آج مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی بڑی غلطی کر رہا تھا۔”
���
اویل، کولگام ،کشمیر