! ابتدائی سطح کا نظامِ تعلیم توجہ طلب

بلا شبہ انسانیت کی تاریخ تعلیم و تربیت اور سرگزشت فلسفہ و حکمت سے بھری پڑی ہے کہ کس طرح انسانوں کے مختلف طبقوں نے اپنے اساتذہ سے تعلیم و تربیت اورعلم و حکمت کے ہنر سیکھ کر اس روایت کو آگے بڑھایا، جس سے حیات ِانسانی کی راہِ گنجلک کے رازہائے سربستہ کھلتے گئے اور ان راہوں پر انسانیت کا سفر آسان ہوا۔ افلاطون کا سقراط سے اور ارسطو کا افلاطون سے علم حاصل کرنا اسی بات کی غمازی کرتا ہے کہ اُستاد بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے شاگرد میں حصولِ علم کی تڑپ اور لگن پیدا کرتا ہے، جس سے شاگرد علم کا ایک متلاشی بن کر علم کے بحر میں ڈبکی لگاکر موتی نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسانیت کی پیشانی موتیوں کے نور سےچمک اُٹھتی ہےاور پھردوسروں کواس نورسے فیض پہنچانے کے کام آتی ہے۔گویایہی انسان جو جسمانی یا مادی اعتبار سےفطرتاً ضعیف ہوتا ہے، بنیادی قویٰ سے اس طرح مالامال ہوتا ہے کہ وہ امکانات کی اپنی ایک دنیا کے ساتھ عالم شہود میں آکر انسانیت کی بقاء کے لئے راہیں ہموار کرتا رہتاہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ ہر والدین نہ صرف اپنے بچے کی مادی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اس کی نشوونما کا باعث بنتے ہیں بلکہ اس کی اخلاقی اور علمی تربیت کا بھی سامان مہیاکرتے رہتے ہیںاور انہیںآگے بڑھانے کے لئے تدریسی اداروں اور تعلیمی مراکز میںحصول ِتعلیم کے لئے داخل کراتے ہیں۔خصوصاً اس دورِ جدید میںتعلیم کا حصول انسان کے لئے کتنی افادیت رکھتا ہے شاید ہی کوئی فرد اس سے ناواقف ہوگاکہ اس کے بغیر اُس کی زندگی کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہ جاتی ہے،کیونکہ پائیدار ترقی، ٹیکنالوجی کا نفاذ اور تعمیری ،سیاسی و سماجی تبدیلی تعلیم کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔اس اعتبار سے اگر اپنی اس وادیٔ کشمیرکے درسی اداروں اور تعلیمی مراکز کا سرسری جائزہ لینے کی کوشش کی جائے توحسبِ روایت یہاں کے نظام تعلیم میں پائی جارہی خامیاں اور خرابیاںتواتر کے سا تھ جاری و ساری ہیں۔ نظام تعلیم کو سُدھارنےاور معیار ِ تعلیم کو بڑھانے کےلئے مجموعی طور پر حکامِ تعلیم کی پالیسیاں اور تدریسی عملے کی کارکردگیاںبہتر اور مثبت نہیںہیں۔نصاب میں تبدیلی اور مروجہ قواعد و ضوابط میں بھی یکسوئی نہیں لائی جارہی ہےاوراسکولی سطح پر قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کا منصوبہ بند طریقہ بھی مفقود نظر آرہا ہے۔جس کا تذکرہ ہم بار بار انہی کالموں میں کرتے چلے آرہے ہیں،تاکہ تعلیم کے اعلیٰ حکام قانون اور ضابطے کے تحت یہاں قائم سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں ،کالجوں اور یونیور سٹیوں کی کارکردگی اور طریقۂ تعلیم کی مانیٹرننگ کرنے میں سنجیدہ ہوجائیںاور درس و تدریس اور علم و حکمت کے تمام شعبوں کا نظام موجودہ زمانے تقاضوں کے مطابق بنائیں۔اب جبکہ گذشتہ روز جموں و کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کی صدارت میں ہائر ایجوکیشن کونسل کی منعقدہ میٹنگ میںاعلیٰ تعلیمی شعبے میں مستقبل کے لئے جامع تبدیلی پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔جس میں مسٹر سنہا نے جہاں تمام اسٹیک ہولڈرزپر زور دیا کہ وہ معاشرے کی خدمت میںانسانی صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنانے پر توجہ دیں ،وہیں انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے ہر کورس کی اقدار کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت پر زور دیاتاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ وہ طلباء اور آجروںکی توقعات پر پورا اتریںاور ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لائق بنیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اعلیٰ تعلیم کا ایک مقصد مستقبل کے لیڈروں کو بھی تیار کرنا ہے۔گورنر صاحب کے اس بیان کو وادی کے بیشتر عوامی حلقوںنے نہ صرف سراہا اور اطمینان کا اظہار کیا بلکہ اسے خوش آئند بھی قرار دیاہے نیز یہ بھی کہا ہے کہ اپنی اس وادی میں ابتدائی سطح پر دی جانے والی تعلیمی پالیسی اور نظام کا جائزہ لینے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ پرائمری اور مڈل سطح پر یہاں کا نظام تعلیم انتہائی نا گفتہ بہ ہے خصوصاً دیہات اور دور دراز کے بیشتر علاقوں میںاس دورِ جدید میں بھی انتہائی ناقص اور دقیانوسی ہے۔ انفراسٹرکچر ،نصابی کتب اور اساتذہ کی کمی کا سلسلہ عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہےاور مقامی سرکاری زبان کے تدریسی عمل میںکوئی بہتری اور موثر سرگرمی نہیں لائی جارہی ہے،جس سے حصول تعلیم کا بنیادی مقصد ہی فوت ہورہا ہےاور زیر تعلیم بچے زیورِعلم سےآراستہ نہیں ہوپارہے ہیں۔