درس و تدریس
محمد امین میر
آج کی سخت مسابقتی دنیا میں نیٹ، جے ای ای، یو پی ایس سی اور سی ایل اے ٹی جیسے قومی سطح کے امتحانات کی تیاری بارہویں جماعت سے نہیں بلکہ ابتدائی تعلیم کے مراحل سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ جب اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے دوڑ تیز ہو چکی ہے اور کامیابی کا معیار بلند تر ہوتا جا رہا ہے تو یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ بچوں کو شروع ہی سے علمی فہم، تجزیاتی صلاحیت اور بنیادی تصورات کی پختگی کی طرف راغب کیا جائے۔روایتی طور پر ہندوستانی تعلیمی نظام رٹے پر مبنی رہا ہے، جہاں ابتدائی سطح پر تنقیدی سوچ یا تجزیاتی فہم کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ لیکن یہ طریقہ کار اب وقت کی ضرورتوں سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ آج کے امتحانات صرف یادداشت کا نہیں بلکہ سمجھ بوجھ، منطق اور نئی صورتِ حال میں علم کے اطلاق کا امتحان لیتے ہیں۔اس لئے اب ایک جامع اور ہمہ جہت اصلاحی عمل کی ضرورت ہے، جس میں پالیسی ساز، اساتذہ اور والدین ابتدائی جماعتوں سے ہی بچوں کی ذہنی، جذباتی اور فکری نشوونما کے لیے مل کر کام کریں۔ مقصد یہ نہیں کہ اسکولوں کو کوچنگ مراکز میں تبدیل کیا جائے بلکہ ہر بچے کو سوچنے، سوال کرنے اور سیکھنے کا ماحول فراہم کیا جائے۔
حصہ اول، محکمہ تعلیم کا کردار:
(۱) نصاب میں اصلاحات اور انضمام:نصاب میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ میں تجزیاتی و منطقی سوچ پیدا ہو۔منطقی و تحلیلی سوچ کی مشقیں: کلاس اوّل سے ہی ذہنی پہیلیاں، کوڈنگ گیمز اور بصری مسائل شامل کیے جائیں۔اولمپیاڈ طرز کے سوالات:ریاضی، سائنس اور انگریزی میں پزلز اور کوئزز کے ذریعے تصوراتی وضاحت حاصل کی جائے۔بین المضامینی تدریس: ریاضی میں اشکال کی تدریس کو فن تعمیر یا ڈیزائن سے جوڑنا سیکھایا جائے۔(۲) اساتذہ کی تربیت :اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں، مقابلہ جاتی فریم ورک کی جانکاری، اور طلبہ پر دباؤ ڈالے بغیر تدریس کی مہارت دی جائے۔پیشہ ورانہ ورکشاپس،ریسورس شیئرنگ پلیٹ فارم،اولمپیاڈ سے آگاہی سیشنز،(۳) ٹیلنٹ کی شناخت کے لیے پروگرامز: کلاس 3 سے بُنیادی استعداد کے ٹیسٹ،ضلعی سطح پر ٹیلنٹ سیل،ترقی کا طویل مدتی ریکارڈ۔
(۴) ٹیکنالوجی کا استعمال: ریاستی تعلیمی ایپس اور ای۔لرننگ پلیٹ فارمز،اسمارٹ کلاس رومز اور گیمیفیکیشن،وی آر/اے آر ماڈیولز کے ذریعے سیکھنے کا نیا انداز۔(۵) مانیٹرنگ اور تشخیص کا نظام: سیکھنے کے نتائج کا آڈٹ،پیرنٹس اور اساتذہ کی رائے،پرفارمنس ڈیش بورڈز۔
حصہ دوم:
والدین کی ذمہ داریاں :ا۔ گھر میں سیکھنے کے لیے سازگار ماحول:مطالعہ کی عادت، سوالات کی حوصلہ افزائی،تعلیمی مواد پر مبنی کنٹرولڈ اسکرین ٹائم۔۲۔ باقاعدہ شمولیت :اسکول سرگرمیوں میں شرکت، مثبت رویّہ اور حوصلہ افزائی،سیکھنے کا نمونہ خود بننا۔۳۔ تعلیمی معاونت :اولمپیاڈ پلیٹ فارمز، بچوں کے میگزین، DIY کٹس،ہوم کوئز اور مباحثے۔۴۔ دباؤ سے پاک نقطہ نظر:خوشگوار سیکھنے کی ترغیب،جذباتی صحت کی دیکھ بھال،ذہنی سکون کے لیے مصوری، یوگا، جرنلنگ،
حصہ سوم: اساتذہ کی تدریسی حکمتِ عملی :
۱۔ انٹرایکٹو تدریس: عملی مشقیں، رول پلے، گروپ ورک،تعلیمی گیمز اور پروجیکٹس۔۲۔ روزانہ 10منٹ کی ذہنی ورزش،معمے، جی کے سوالات،اسٹوڈنٹ لیڈ کوئز،فرینڈلی لیڈر بورڈ۔۳۔ تحقیق اور تجسس کی حوصلہ افزائی: ‘کیوں۔کیسے؟ سیشنز،مِنی پریزنٹیشنز،ورچوئل یا فزیکل فیلڈ ٹرپ۔۴۔ متبادل تشخیص: کامیڈی اسٹریپ، جرنل، اور گیم بیسڈ اسسمنٹ،ہم عمر طلبہ کا فیڈ بیک،انفرادی پروگریس پورٹ فولیوز۔۵۔ بنیادی صلاحیتوں کی ترقی: زبان، ریاضی، اور شہری شعور کی مشقیں۔
حصہ چہارم:پالیسی تجاویز اور نتیجہ :مقامی سطح پر حوصلہ افزائی۔وظائف، ایوارڈز، رضاکار سرپرست نیٹ ورک۔ پبلک۔پرائیویٹ اشتراک۔ایڈ ٹیک پارٹنرشپ، سی ایس آر کے تحت ڈیجیٹل لیبز، مستقبل کے لیے تیاری۔مہارت پر مبنی نصاب، اوپن بُک اور مہارت پر مبنی امتحانات۔
نتیجہ :مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کو محض ثانوی مرحلہ نہ سمجھا جائے۔ اسے ایک تدریجی اور سوچا سمجھا سفر بنایا جائے جو پہلی جماعت سے ہی شروع ہو۔ مقصد بچوں پر بوجھ ڈالنا نہیں بلکہ انہیں خود اعتماد، سوال کرنے والے، اور ذمہ دار شہری بننے کے لیے تیار کرنا ہے۔ جب تک محکمہ تعلیم، اسکول، والدین، اور سماج ایک ساتھ ہم آہنگ نہ ہوں، تب تک ’فیوچر-ریڈی انڈیا‘ کا خواب ادھورا رہے گا۔
[email protected]