Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: May 21, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
13 Min Read
SHARE
 وہ دن بھر بے فکر ہو کر گلی کو چوں میںپھرتا رہتا۔خود سے بڑ بڑاتااور راستے میں پڑی ہر چیز کو ٹھوکریں مارتاخواہ پتھر ہو،لکڑی ہو،جو بھی ٹھوس چیز ملتی اُس کوٹھڈے مار مار کرہٹا دیتا۔کہیں پالتھین کا لفافہ مل جاتا  تو اُس پر جھپٹ پڑتا،پھر اُس میں ہوا بھر کر پھوڑ دیتااور خوب تماشا کرتا رہتا۔کب صبح ہوئی‘ کب شام ہوئی۔وقت کی اُسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔وہ اکثر ننگے پائوں چلتا، اس لئے  اُس کےپیروں میں جگہ جگہ زخم اور شگاف پڑے تھے جن سے ہر وقت پیپ اورخون رستا رہتا اور کھر درے پن کے سبب پائوں پر گرد کی کئی پرتیں جمع ہو گئی تھیںکہ دیکھنے والے کو دور سے لگتا کہ اُس نے بھورے رنگ کا موزہ پہن رکھاہے۔وہ دبلا پتلا تھا ‘وزن بھی کچھ زیادہ نہیںتھا،البتہ وزن کے برابر ہی اُس کے جسم پر میل کی جمی ہوئی پرتیں رہا کرتیںجس سے اُس کے تند رست ہو نے کا گمان ہو جاتا۔اور تو اور کنگھی بھی نہیں کرتاتھا۔اس لئے بالوں میں اتنی میل جمع ہو گئی تھی کہ بال نہیں تیک کسی جھاڑی پر اُگے کانٹے نظر آتے تھے۔تن ڈھانپنے کے لئے اُس کے پاس قمیض اور شلوار کے پھٹے پرانے دو جوڑے تھے جو بہن کی شادی پر اُس کے لئے بنوادئیے گئے تھے ۔ان پر بھی اتنی میل جمی رہتی کہ ہوا کے جھونکے سے لگ بھگ دو گز  کے دائر ے میں ان کی بد بو پھیل جاتی اور موجود لوگوں کے دم گھٹنے کی نوبت آجاتی۔وہ ہفتوں بلکہ مہینوںنہیں نہاتا تھا حا لانکہ اس بُری عادت پر اُسے بابا سے بار بار ڈانٹ کھانی پڑتی تھی۔ حالانکہ نین نقش اُسکے اچھے تھے۔ ہمیشہ دیر سے کھانا کھانے آجاتا اور کسی کی پروا  بھی نہیں کرتا۔ٹھیک اسی طرح گھر والے بھی اُس سے سلوک کرتے‘سوائے ماں کے‘جو اُس کے لئے ہمیشہ پریشان رہتی تھی۔اُس کے حلق سے ایک نوالہ بھی نہیں اُترتا جب تک نہ وہ آجاتا۔ ماں تمل سے اسکاانتظار کرتی اور پھر دونوں اکٹھے کھانا کھاتے۔وہ کھا نے کے وقت باپ کی موجودگی ہر گز پسندنہیں کرتا اور کھانا کھا کر پلک جھلک میںہ ی وہاں سے چلا جاتا ورنہ  اُس کوہمیشہ بابا  کے طعنے سننے پڑتے تھے۔’’کام کا نہ کاج کادشمن اناج کا‘‘وہ بھی دیوار پر ٹنگی کسی بے جان تصویر کی طرح چپ چاپ سن لیتا۔ایک بار اُس کی کسی ناشائستہ حرکت پراُس کی ماں کو بہت غصہ آیااور غصے میں اُسے درویش پکارا۔بس پھر کیا تھااُس کے ہم عمر لڑکوں نے اُسے  شوکت درویش کہنا شروع کردیا۔پہلے پہل سن کر وہ بہت چڑ جاتاپھر آہستہ آہستہ ان سنی کرنے لگا۔اُس کا دماغی توازن بھی کچھ کچھ بگڑ گیا تھا۔ گھر والے اُس کو کئی بارڈاکٹر کو دکھا چکے تھے جس نے معائنہ کرنے کے بعد کہاتھاکہ اس کے دماغ کی ایک نس بے حس و حرکت سی ہو چکی ہے ۔ اسی لئے  بار بار اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا رہے گا، لہٰذا اس کا خاص خیال رکھان پڑیگا۔ پھر اُس نے نسخہ لکھ کر دوائی کی ترتیب سمجھائی۔ شوکت درویش عجیب عجیب حرکتیں کرتا رہتا۔وہ بڑی گلی کے نکڑ پر‘جہاں وقفے وقفے سے کاریں گزرتی‘اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا رہتا اور جب زیادہ تھک ہار جاتا توگلی کے بیچوں بیچ پہروں لیٹ جاتااور کروٹیں بدل بدل کردائیں بائیں کھسکتا رہتا۔پھر کنکر اُٹھا کر اپنے دوستوں کی جانب قدم بڑھاتا اور انھیں ڈراتا رہتا۔ وہاں سے گزرنے والی کاریں لامحالہ رک جاتیں اور کاروں میں بیٹھے لوگ اس کی اوٹ پٹا نگ حرکتوں کاخوب مزہ لے لیتے۔  اس پر اس کے دوست بھی کھلکھلا کرہنس دیئے کیا گھر والےکیامحلے والے ‘سب اُس کو نکما ‘ناکارہ اور فالتو کہتے تھے ۔یوں بھی وہ کوئی کام کاج تو کرتا نہیں تھا۔کیونکہ وہ جسمانی طور پر کمزور تھالیکن جب کبھی وہ کسی اُڑتے پرندے پر نشانہ سادھتا تو کبھی نہیں چونکتا۔وہ کنکروں سے پرندوں کو اُڑتا رہتاجس پر اُس کی ماں اُسے خوب کھری کھوٹی سناتی۔لیکن وہ شیر کی طرح دھاڑ کر اُسے جواب دے دیتا۔’’ ماں‘  تمہاری عقل ماری گئی ہے کیا؟یہ پرندے ہمیں کتنا نقصان پہنچاتے ہیں۔سال بھر بابا کھیتوں میں کام کرتا رہتاہے اور یہ پرندے دانہ چُگتے رہتے ہیں۔میں ایک ایک پرندے کو ماروں گا۔‘‘ماں پیار‘ممتا کی مورت‘اُسے پیار سے سمجھاتی۔’’بیٹے یہ پر ندے ہمارے ماحول کا حصہ ہیںاگر ہم انھیں ماریں تو ماحول کا توازن بگڑ جائے گااور بیٹے یوں ہی کسی جاندار شئے کو مارنا گناہ ہے۔ آئیندہ خیال رہے‘‘یہ سن کر وہ بھڑک اُٹھااور غصہ بھرے لہجے میںبولا’’ماں۔چُپ ہو جائو۔نہیں تو سر پر اتنی زور سے کنکرماروں گا کہ دم بھر میں سانسوں کا سلسلہ ٹوٹ جائے گا۔تم جانتی ہو میرا نشانہ کبھی نہیں چونکتا ہے۔‘‘اُس کی ماں اُس کے سر پر ہاتھ پھیر تے ہوئے کہتی ہے’’بیٹے تم مجھے مارو گے تو تمہارا خیال کون رکھے گا‘‘ پھر اُس کے دونوں کان پکڑ کر زور سے کھینچتی ہے‘‘وہ اُونچی آواز میں چلاتا ہے۔’’چھوڑو ماں۔میرے کان چھوڑو۔مجھے درد ہورہا ہے‘‘پھرکہتا ہے’’ہاں ماں۔تم ٹھیک کہتی ہو تم ممتا کی دیوی ہو۔ایک تم ہی تو میرا خیال رکھتی ہو۔لیکن ماں۔۔سب مجھے نکما ‘ ناکارہ کیوں کہتے ہیں؟کیا میں اس زمین پر فالتو ہوں‘‘اور جسم کو کھینچتے ہوئے اُوپر آسمان کی طرف دیکھتاہے۔اور سرد آہ بھرتے ہوئے بات آگے بڑھاتا ہے’’دیکھنا ماں۔ میں ایسا کچھ کر گزر جائوں گاکہ تم مرتے دم تک مجھ پرناز کروگی‘‘’’بیٹے۔ کاش!تم ایسا کر سکو۔تب تو میرا سر واقعی فخر سے اُونچا ہوجائے گا۔اللہ تمہیں سدھ بدھ دے اور پھر میں سینہ تان کرچلتے ہوئے ہر ایک سے کہوں گی’’کہ میرا بیٹانکما نہیں ہے‘‘  شوکت درویش اپنی ہی دنیا میں مست رہتا۔ کبھی گلی کوچوں میں تو کبھی کھیتوں پر جاکر پرندوں کو کنکر مار مار کر اُڑاتا رہتا۔  اُسے اپنی کھیتوں سے بے پناہ لگائو تھاکیونکہ وہ جانتا تھا کہ انہی کھیتوں سے اناج ملتا ہے وہ جب کبھی گھر میں ہوتا تو مکان کی چھت میں بنے گھونسلوںکو دیکھ کر سوچنے لگتا۔’یہ گھونسلے کب سے ویران پڑے ہیںوہ ابابیلیں کہاں گئیں۔شوخ کالی ابابیلیں۔جب اس کی ماں ان گھونسلوں کو ڈھانے لگتی تو وہ اُس کے ہاتھ سے جھاڑو چھین لیتا کہتا۔ماں مجھے ابابیلیں اچھی لگتی ہیں صرف ابابیلیں۔  نہ جانے کب آئیںگی۔ شوکت درویش کے اسی بے فکری کے عالم میں انجان سمتوںسے ایک قبیلہ انکے علاقے میںگھُس آیا اور اُن جگہوں پر اپنے خیمے گاڑھ دئیے جن پر ان کے بود و باش کا انحصا ر تھا۔ اورجہاںپر یہ اناج اُگاتے تھے‘ان  قبیلے والوں کو دیکھ کر لوگ حیران وپریشان ہوئے کیونکہ ان کی زبان‘کلچر اورتہذیب‘سب کچھ مختلف تھا ،جس کو اپنانے  کے لئے یہ لوگوں پر بے تحاشہ ظلم کرتے رہے۔ان کے ظلم وجبر کے خلاف لوگوں کا غصہ بڑھ رہا تھاوہ انھیں نکال باہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر  یہ پورے سازو سامان کے ساتھ وارد ہوئے تھے انھیں یہ جگہ بہت بھا گئی تھی اس لئے ہمیشہ کے لئے یہیں سکونت پذیر ہونا چاہتے تھے ۔لوگ پریشانی کے عالم میں ہاتھ پائوں مار تے رہے۔ ایک پہ ایک ہتھ کنڈا آزماتے رہے مگر سب بے سود۔وہ کرتے بھی کیا؟۔وہ جو نہتے تھے۔وہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مر رہے تھے۔ اُن کے کھیت کھلیان تہس نہس کر دئیے گئے اور وہ دانے دانے کے محتاج ہوگئے اُنھیں طر ح طرح کی منشیات کا عادی بنا دیا گیا۔  اور اُن کی سدھ بدھ جاتی رہی۔وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش بیٹھے رہتے، جیسے اُن کے ہاتھ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں۔ اُنھوں نے سبزی اناج اُگانا بھی چھوڑ دیا۔ انھیں کچھ سوجھائی نہیں دیتاتھا اسی تذبذب میں کئی سال گزر گئے  ا وروہ طرح طرح کی سازشوں کا شکار ہوگئے۔ شوکت درویش اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے ہمیشہ ہی اپنی ماں کو تنگ کرتا رہتا تھا۔ایک دن اس نے آتے ہی ماں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔بیٹے نے پوچھا۔’ماں۔تم روتی کیوں ہو۔‘ بیٹے کیا بتائوں ہم برباد ہوگئے۔ہماری ملہ کھاہ والی زمین پرکسی قبیلے نے قبضہ کر لیا ہے کچھ سوجھائی نہیں دیتا ہے اُنھیں نکال باہر کیسے کریں‘؟’ماں یہ کون لوگ ہیں۔‘بیٹے میں نہیںجانتی  البتہ سنا ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک قسم کے لوگ ہیں ۔ان کے پاس بندوقیں بھی ہیں‘ ۔ماں فکر مت کرو ابابیلیں لوٹ آئیںگی۔ اس نے ٹھا ٹھاکر کے ہنسنا شروع کر دیااور کچھ ہی پلوں میں ماں کی نظروں سے ہٹ گیا۔ماں حیران پریشان اس کو دیکھتی رہی۔ پھر ایک دن بستی سے گزرتے رہے انکے کاروان پر کسی نقاب پوش نے اچانک اندھا دھندکنکرپھینکنے شروع کر دئیے اور کاروان میں شامل لوگوںکو لہو لہان کر دیا۔ہلہ اتنا شدید تھا کہ اُنھیں سنبھلنے کا بالکل موقعہ بھی نہ ملا۔وہ فقط چیختے چلاتے رہے۔بمشکل تمام وہ اپنی سواریاں نکالنے میں کامیاب ہوئے۔وہی نوجوان‘ منہ پر کالی پٹی باندھے‘ہاتھ میں کنکر لئے اُن کے تعاقب میںتیز تیزدوڑتا ہوازور زور سے چلاتارہاواپس جائو۔۔واپس جائو—جہاں سے آئے ہو۔اُس کے جوش اورجذبے نے لوگوں کے بکھرے حواس کو مجتمع کیا اور انکے جذبے کوایک نئی جلا بخشی۔لوگ گھروں سے باہر آگئے اور دیر تک اُس نوجوان کی آواز سے آواز ملا کر نعرے بلند کرتے رہے۔ایسا لگ رہا تھا کہ لوگ اس قبیلے کے خلاف متحد ہو رہے ہیں اور ایک آخری لڑائی لڑنے پر آمادہ ہیں۔ اب اس قبیلے کی گاڈیاں خال خال ہی نظر آتی تھیں جب کبھی بھی بستی سے گزرتیںتو نقاب پوش نوجوان سینہ تان کر ان کے سامنے کھڑا ہو جاتاپھر ان پر کنکروں کی بارش ہوجاتی اور وہ پسپا ہوکر واپس چلے جاتے ۔اس نوجوان نے ان کا جینا دوبھر کر دیا تھا ۔ پھر اچانک اس قبیلے کے لوگ چھپتے چھپاتے اُ س گلی میں گھس آ ئے اور نقاب پوش نوجوان پر ٹوٹ پڑے۔ بالے برچھے لے کر ، جو جس کےہاتھ میں آیا تھا۔ اسکا انگ انگ لہو لہان کر دیاوہ گرتے ہوئے بھی اُن پرکنکر پھینکتا رہااور تھر تھراتے ہوئے کہتا رہا ’ اُنھیںواپس کھد پڑنےکا صرف ایک ہی ہتھ کنڈاہے ‘ کنکر۔ ایک ہی ہتھ کنڈا ۔ پھر ہاتھ میں کس کر کنکر لئے اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔پلک جھپکتے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس نوجوان کے ارد گرد جمع ہوگئے اور جب اس کے چہرے سے نقاب اُتر ا تو لوگ ہکا بکا ہوکر رہ گئے ’’  شوکت درویش ‘۔۔کسی نے آواز دی۔  جونہی اُس کی ماں کے کانوں میں آواز پڑی تو وہ سینہ کوبی کرتے ہوئے بولی’’بیٹے ۔۔ اس ہتھ کنڈے سے ایک نئی اُمید بندھ گئی  ہے ۔ تم نے ان  لوگوںکو نکال باہر کر نے کاایک راستہ دکھا دیا ہے ۔  تم نکمے نہیں ہو‘لوگوں نے اُس کی آواز میں آواز ملا کر زور زور سے پکارا ’’ہاں۔۔ہاں ۔نکما نہیں ہے۔‘انھوں نے ہوا میں کنکر پھینک پھینک کر آخری آرام گاہ کی طرف اسکو نم دیدہ رخصت کیا۔پھرہاتھوںمیںکنکراُٹھائے اُس قبیلے کی اور نکل پڑے ۔جیسے ابابیلیںلوٹ آئیںہوں ۔ 
رابطہ :صدر مرکز شعرو ادب دلنہ کشمیر
موبائل نمبر:-9906484847
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

قانون اور آئین کی تشریح حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے، : چیف جسٹس آف انڈیا
برصغیر
پُلوں-سرنگوں والے قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں 50 فیصد تک کی کمی، ٹول فیس حساب کرنے کا نیا فارمولہ نافذ
برصغیر
امر ناتھ یاترا: لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے افسران کو حفاظتی اقدامات مزید مؤثر بنانے کی ہدایت دی
تازہ ترین
بجبہاڑا میں آوارہ کتوں کے تازہ حملے میں دوسی آر پی ایف اہلکاروں سمیت سات افراد زخمی
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?