میر حسین
اپنے جذبات ،احساسات و خیالات کو دوسروں تک منتقل کرنے کے صوتی اور لفظی وسیلے کو زبان کہتے ہیں ۔ زبان ایک زندہ حقیقت ہے ،جس میں زمانے کے تقاضے کے مطابق تبدیلی رونما ہوتی ہے ۔ زبان ہی ایک قوم ،ملک و ملت حتیٰ کہ ایک مذہب کی بقا کا ضامن ہیں ۔ زبان نہ صرف ایک قوم کی تہذیب و تمدن کی آواز ہے بلکہ ایک قوم و ملت کی پہچان کا ذریعہ بھی ہے۔ انسان کی زبان جس طرح کسی فرد کی انسانیت اور عقل کو متعارف کراتی ہے، اسی طرح زبانوں کے سیکھنے کا ہدف بھی یہ ہونا چاہیے کہ سیکھی گئی زبان کے طفیل اس زبان کے ہر شعبہ کی جڑ تک پہنچ جائیں ۔
دنیا میں بولی جانے والی ہزارہا زبانوں میں سے انگریزی زبان نہ صرف بیش بہا اہمیت کی حامل ہے، بلکہ لازم ہے کہ اسے سیکھا جائے تاکہ بزم انجم کے چمکتے مقابلے میں ہم بھی اپنی روشنی کو دنیا کے مقابلے میں لا کھڑا کریں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اس زبان کی اہمیت آئے روز بڑھتی جا رہی ہے، جو صاف اشارہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک زبان کو سیکھ کر انسان ،اس زبان کے موجدوں اور علمبرداروں کے تمدن ،تہذیب اور کلچر کو بھی سیکھ لیتا ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس زبان کو سیکھ کر اسکی شیرینی یا کڑواہٹ بھی منتقل ہوتی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہی چیز انگریزی زبان میں بھی پائی جاتی ہے ؟ گو کہ اس زبان کو مادری زبان کے بطور اپنانے والوں کے لئے اس میں کوئی مضایقہ نہیں، تاہم دیگر زبانوں کو مادری زبان استعمال کرنے والوں پر انگلش کو مسلط کرنا جہاں انکے لئے خاطر خواہ نتائج کا حامل نہیں ہو سکتا وہیںمستقبل شناس افراد کے نزدیک قوموں کے زوال کا ایک اہم سبب بھی ہے۔
اسکولوں میں انگریزی زبان کو مسلط کرنا گو کہ شاگردوں کی بہبودی کا سبب ہی ہے، تاہم اکثر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ خالص مادری زبان سے لوگ نہ صرف نہیں جانتے ہیں بلکہ بولنے میں ننگ و عار محسوس کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یہاں کی نسل نو اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن حتیٰ کہ مذہب کے قریب چیزوں تک سے پرہیز کرنے لگےہیں ۔ ہمیں اس بات سے بخوبی واقف رہنا چاہیے کہ انگلش صرف ایک زبان ہے،آپ کی زندگی نہیں ،آپکی بقا کا ضامن نہیں ، آپ کے مہذب ہونے یا نہ ہونے کا معیار نہیں ۔ دنیا میں بہت سارے ممالک ایسے ہیں جو انگریزی زبان کے بغیر ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں ۔چین میں ایک فی صد جبکہ روس میں دس فی صدی سے بھی کم لوگ یہ زبان بولتے ہیں ،اسکے باوجود یہ ملک پوری دنیا کی معیشت، اقتصادی نظام اور سیاسی انداز فکر میں پہل کئے ہوئے ہیں۔ایران کی مثال ہمارے سامنے ہیں ،اقتصادی پابندیوں کے باوجود یہ ملک انگلش کے بغیر آسمان چھو رہا ہے ۔
جہاں تک ریاست جموں و کشمیر کا تعلق ہے تو یہاں کے لوگ تاریخی لحاظ سے بر آمد ہ چیزوں کو فوراً لاگو کی لت میں مبتلا ہیں ۔ ہر سیاسی تغیر کے پیچھے، ہر تہذیبی و ثقافتی یلغار کو خود پر تجربہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح انگریزی زبان بولنے کی جدیدیت کو بھی بہت جلدی اپنے گھروں کی زینت بنانے میں کوشاں ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب کشمیر کی پاک سر زمین پر پاک اور مؤثر تاریخ کے آثار مغربی زبان اور تہذیب کے علل و اسباب سے زائل ہو جائیگی ۔ کسی زبان کو سیکھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے، البتہ اسی زبان کو اپنی اصلیت اور فطرت پر غلبہ پانے دینا اپنی ہی ٹانگوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہیں ۔ زندگی کو اصل سطح اور ڈگر پر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انگلش کو ذریعہ کے بطور استعمال کیا جائے نہ کہ ہدف تصور کریں۔ لاریب ہم انگریزی زبان کے ذریعے مختلف ادبی خزانوں کو کھول سکتے ہیں تاہم منفی افکار کی بھر مار سے بچنا آسان نہیں ہے ۔
میں اپنے ہم نشینوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اپنی زبانوں کو اہمیت دیں ،اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مادری زبان کو اہمیت دیں اور ہر شعبہ میں اپنی زبان کے اصطلاحات کا استعمال عمل میں لائیں تاکہ آئندہ نسل کے خوبصورت مستقبل کو محفوظ رکھا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بظاہر زمین کے ایک خطہ کے مکین ہو، لیکن باطنی لحاظ سے ہم نے خود کو دوسروں کے حوالے کیا ہو ۔ زبان کا تسلط بھی ایک قسم کا نرم جنگ ہے جو اسلحہ اور ہتھیار کے استعمال والے جنگ سے بہت خطرناک ہے۔ مغربی زبان کے تسلط سے کبھی کبھار ہمیں آزادی اور پر سکون ماحول کا احساس ضرور ہوگا۔ لیکن دوربین نگاہیں اسی آزادی یااطمینان کو زہر ہلاہل تصور کرتی ہیں۔ علامہ اقبال اسی تسلط کو اس شعر سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ؎
ملا کوجو ہند میں ہیں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
کسی مفکر کا ایک دلنشین قول ہے ’’مجھے یقین ہے کہ لوگ ایک روز سمجھیں گے کہ انگریزی محض ایک زبان ہے، عقل ماپنے کا پیمانہ نہیں اور سفید محض ایک رنگ ہے خوبصورتی ماپنے کا پیمانہ نہیں۔‘‘
[email protected]
آہ! یہ انگریزی بھوت
