سہیل سالمؔ
بقول پروفیسر قدوس جاوید:’’سلطان الحق شہیدیؔ کے تازہ ترین مجموعہ’’تیشہ گل‘‘ کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ سلطان الحق شہیدی
ایسے غزل گو شاعر ہیں جنہوں نے لسانی،فنی ،جمالیاتی تقاضوں کو برتتے ہوئے ،موضوعاتی اور اسلوبیاتی اعتبار سے غزل کے امکانات کو وسیع سے وسیع تر کرنے میں اہم کردارادا کیا ہے‘‘(تیشہ گل۔۔ص۔۔15 )
مسکراتا حسین چہرا،لبوں پر رنگ گہرا، سر پر چھوٹے چھوٹے بال ،ادیب بے مثال۔دماغ تخلیقات کا کارخانہ،دل محبت کا انمول خزانہ۔زبان پرمیٹھے میٹھے بول،حسن و اخلاق میں انمول۔تربیت یافتہ ادیب ،وادی بے نظیر میں تہذیب و ثقافت کا نقیب ۔ زبان و ادب کی ایک رمق،یہ ہے ’’نکشاف ‘‘ کا شاعر محمد سلطان الحق ۔ اصلی نام محمد سلطان الحق ہے اور ؔ سلطان الحق شہیدی کے قلمی نام سے جانے جاتے ہیں۔27 جنوری1933 میںسرینگر کے ایک اہم زرخیز علاقے شہید گنج میں تولد ہوئے۔1955 میں محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد1992 میں سبکدوش ہوئے۔ شہیدی صاحب کا ابتدائی کلام ’’شیرازہ‘‘‘ میں شائع ہوا۔اس کے بعد ان کی شاعری کشمیرکے مختلف جرائد و اخبارات میں چھپنے لگیں جن میں آزاد، تعمیر،ہمارا ادب،،آلو،گاش،نیرپوش ، ،آش ،کشمیر عظمیٰ، نگینہ اور سنگر مال قابل ذکر ہیں۔شہیدی دبستان کشمیر کے عظیم اور معروف شاعرکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔شہیدیؔ صاحب کی اب تک دو درجن کے قریب تصانیف منصہ شہود پر آگئی ہیں ۔جن کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں: تیشہ گل 1973، برگ برگ1996،انکشاف1995 ،رد بدعت،گلدستہ نثر،فن پیپر ماشی اور مختلف کشمیری شعراء کے کلام کا منظرم ترجمہ وغیرہ ہیں
کشمیر کے کوہساروں،مرغزاروں،آبشاروں ،لالہ زاروں اور برف زاروں کی آب و تاب کو سلطان الحق شہیدی نے انپے شعری مجموعہ’’تیشہ گل‘‘میں بڑی خوبصورتی سے جمالیاتی دنیامیں معتارف کروایا کیونکہ شاعر کا تعلق بھی اسی وادی بے نظیر سے ہے۔ ’’تیشہ گل ؔ سلطان الحق شہیدی کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔جس میں انھوں نے اپنے فہم و ادراک سے مر غزاروں، ،لالہ زاروں اور برف زاروں کی کشش میں حرارت پیدا کر نے کی کامیاب سعی کی ہے تاکہ ان کے پاس میں رہنے والے چرند و پرند اور حیاتات و نباتات کی رگوں میں پھر سے زندگی کا جو ش پنپ سکے۔ سلطان الحق شہیدی کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے کئی باتوں کا شدت سے احساس ہوا۔ایک یہ کہ شاعر گلستان کشمیر کی جمالیاتی تصویرکو منظر عام پر لانے میں کامیا ب ہوئے ہیں۔دوسری بات یہ کہ شہیدی ؔاپنی شاعری میں اخلاقیات کے اسرار و رموز پر لب کشائی کرتے ہوئے اخلاقیات کا درس اپنے مخصوص لب و لہجے میں دینے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔وہ شہری زندگی کے اسراف،انسانی قدروں کی خستہ حالی اور اپنے تہذیب و ثقافت کی پامالی جیسے موضوعات سے اپنے کلام کو سنوارتے ہیں ،جس سے ان کی شاعری میں ایک نیا رنگ وآہنگ پیدا ہوتا ہے۔ان کے کلام کی خصوصیات کو مدد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ شہیدیؔ نے اپنے آس پاس کے ماحول میں بدلتے ہوئے رجحانات کا غو ر سے مطالعہ کیا اور اسی کا اثر قبول کرتے ہوئے اپنی شاعر ی کا مزاج و منہاج اور اسلوب بدلا ۔شہیدیؔ معاصرشعرا کی طرح غم اور خوشی ،درد وکرب ،ہجر ووصال اور امید و نا امیدی کا ماتم نہیںکرتے ہیں بلکہ زندگی کے جنگ میں جیت جانے کا سلیقہ سکھاتے ہیں جو کہ ایک قابل قدر بات ہے۔شہیدی لکھتے ہیں ؎
مشکلوں سے واسطہ ہر گام ہے
کیا محبت کا یہی انعام ہے
بے کسی میں جس سے بھی فریاد کی
وہ یہ کہتا ہے کہ مجھ کو کام ہے
طویل ہوگیا جب انتظار کا موسم
سمجھ میں آگیا دل کے غبار کا موسم
چلے چلو ملے سب کو اپنی داد
اسی کو کہتے ہیں روز شمار کا موسم
شہیدیؔ اپنے ماحول پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں اور اپنے ہی ماحول سے موضوعات کا مواد حاصل کرتے ہوئے ایک فطری شاعر ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔ فطری شاعر ہونے کے ناطے وہ اپنی کلام میں انہیں فطری عناصر کو منصہ شہود پر لانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے شعری کینوس پر غزل کی شکل وصورت میں نمودا ہوتے ہیں۔جب ایک فرد غم روز گار کے ساتھ ساتھ غم عشق میں مبتلا ہو تو اس کی صورت حال کیا ہوسکتی ہے۔اس درد و کرب کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے ؎
اب وہ ہم سے ملا نہیں کرتے
ہم بھی ان سے گلہ نہیں کرتے
غم گساری بجا ہے لیکن دوست
زخم دل کے سِلا نہیں کرتے
چند غنچے تھے آرزئوں کے
جو ابھی تک کِھلا نہیں کرتے
اس میں کوئی شک نہیں کہ آبشاروںکے حسن میں لوگوں کے دکھ اور درد کا مداوا پنہاں تھا لیکن کئی عرصے سے کہساروں کے ساتھ اپنوں اور غیروں نے جو تلخ رویہ اختیار کر رکھا ہے اس رویے نے گلستانوں کے روح کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔شہیدیؔ نے اس المناک صورت حال کو اور کوہساروںکی حفاظت کی خاطر بہت سے اشعارمیں اپنے احساسات کا اظہار کیا ہے ؎
تیری جفا نے جس کو بیابان بنا دیا
خونِ وفا نے میرے گلستان بنا دیا
بے چین دل کو کشمکشِ زیست ہے حیات
کیوں تُو نے میرے دردر کا درماں بنا دیا
رشتوں کا کرب اور ہجرت پر بھی اس دور کے شعراء نے خاص توجہ دی ہے۔انسان کی انسانیت سے دوری یہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔اسی دوری نے انسان کے وجودمیں ہمدردی ،اخوت اور محبت کو تار تار کیا۔پھر چاہیے ایک گائوں سے دوسرے شہر ہجرت کرنے کا مسئلہ ہو یا اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں زندگی بسر کرنے کا خواب ہو،ایسے میںقدروں کا جنازہ کس طرح نکلتا ہے۔شہیدیؔ کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں؎
پئے ہم نے تھے جتنے جامِ محبت
مگر پھر بھی ہیںتشنہ کامِ محبت
چلی جو چلی دل پہ گزری جو گرزی
بیاں کیا کریں انتقام محبت
نہ کہتے محبت بُری ہے اگر وہ
کبھی دیکھتے صبح و شام محبت
شہیدی ؔکے شعری مجموعہ ’’تیشہ گل‘‘کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شاعر اپنے مخصوص اظہار سے شعری کائنات کی تخلیق کررہا ہے اور شعری دنیا کا سفر بھی کر رہا ہے۔وہ اپنی تخلیقی قوت سے خو د اپنی پہچان بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔خوابوں اور خیالوں کی سرحدیں توڑ کر حقیقت کی تلاش میں مصروف نظر آتے ہیں۔شہیدی ؔنے اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی اپنے کلام میں ایک انفرادی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔بیرونی معاملات سے لے کرہمارے معاصر سماجی،سیاسی،اقتصادی،مذہبی اورتعلیمی حالات کا عکس ان کے کلام
میں دیکھنے کو ملے گا۔اس زاویے سے دیکھیں تو ’’تیشہ گل‘‘ میں شامل غزلیات میں نئے دور کی تر جمانی بھی ہے۔ان کے موضوعات میں شگفتگی ،رنگارنگی اور تنوع بھی ہے جس کے سب ان کی شعری کائنات کا کینوس بہت گہرا ہے۔بقول شہیدی ؎
اہلِ چمن کی مانگ کیا ہے کچھ خبر نہیں
یہ بات عام ہے کوئی دیدور نہیں
جو عازمِ سفر ہیں نظام عمل کے ساتھ
ان کو کبھی بھی فکرِ شکست و ظفر نہیں
تیشۂ گل کے باغبان سلطان الحق شہیدیؔدور حاضر کے ایسے شاعر ہیں جو نئی نسل کے مابین تضاد اور کشمکش کو بخوبی محسوس کرتے ہیں۔ان کی شاعری نا آسودہ زندگی اورانسان کی ذاتی الجھنوںکا المیہ پیش کرتی ہے اور ساتھ ہی زندگی کے غم اور تہذیبی پسماندگی کی سچی تصویر بھی ظاہر کرتی ہے۔الغرض ’’برگ برگ ’’پر شعر لکھنے والاشاعر،استاد ،زبان شناس اورمترجم سلطان الحق شہیدی ؔزندگی کی خار دار راہوں کا سفر طے کر ایک اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے بعد 16دسمبر 2023 کو اصلی سفر پر روانہ ہوئے جس کی طرف انھوں نے خوداشارہ کیا ہے ؎
دوست کی دشمنی سے واقف ہوں
آپ کی بے رخی سے واقف ہوں
لمحہ بھر کِھل کے خاک میں ملانا
پھول کی تازگی سے واقف ہوں
���
رعناواری سرینگر۔9103654553