مرکزی حکومت نے2021میں آن لائن نیوز پورٹلوں ،آن لائن صوتی وبصری مواد ،خبروں اور حالات حاضرہ کے آن لائن مواد کو بالآخر وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر نگین لایاتھا ۔اس سلسلہ میں باضابطہ طور ایک صدارتی آر ڈی نینس کے ذریعے مروجہ قانون میں ترمیم کو منظوری دی گئی تھی اور یوں آن لائن میڈیا کو منظم بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔پھر اس سلسلے میں مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پہلے ہی ایک مسودہ قانون اس سال پارلیمنٹ کے مونسون سیشن کے دوران متعار ف کیاجاچکا ہے جس کے تحت پریس اینڈ رجسٹریشن آف بُکس ایکٹ1867کو تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے جس کے دائرے میں اب تک صرف اخبارات اور چھاپ خانے ہی آتے تھے تاہم نئے مسودہ قانون کے تحت ڈیجیٹل نیوز پورٹل بھی آئیں گے اور انہیں بھی باضابطہ طور اپنے آپ کو پریس رجسٹرار جنرل کے دفتر میں رجسٹر کرنا ہوگا جن کا عہدہ رجسٹرارآف نیوز پیپرس کے مساوی ہوگااور سبھی نیوز پورٹلز وزارت اطلاعات و نشریات کے تابع رہیں گے۔
تاہم ابھی تک یہ مسودہ قانون زیر بحث نہیں آسکا اور اب یہ کہاجارہا ہے کہ آنے والے پارلیمانی سیشن کے دوران اس مسودہ قانون کو منظور کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ ویسے اگر دیکھاجائے تو عرصہ دراز سے یہ شکایت کی جارہی تھی کہ آن لائن میڈیاایک طرح سے ایک ایسا بے لگام گھوڑا ہے جس کاکوئی مالک نہیں ہے اور نہ ہی کہیں جواب طلبی ہے ۔جہاں تک خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے آن لائن مواد کا تعلق ہے تو بلاشبہ آن لائن میڈیا اس حوالے سے بہت اچھا کام کررہا ہے تاہم اس بات سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ جوابدہی کے فقدان کی وجہ سے آن لائن میڈیا ناسور بھی بن چکاہے اور لوگوںکی پگڑیاں اچھالنے کا کام زوروں پرہے۔علاوہ ازیں خبروں اور حالات حاضرہ کی پیشکش کے دوران صحافتی اصولوں کی مٹی بھی پلید کی جارہی ہے۔ہر نیوز پورٹل شروع کرنے والا اپنے آپ کو صحافی سمجھنے لگاہے اور یوں ہر گلی ،ہرمحلہ اور ہر نکڑ پر صحافی پیدا ہورہے ہیں جو نیوز پورٹلوں کی نامہ نگاری کے نام پرمائک ہاتھوںمیں لئے اپنے آپ کو ماورائے قانون سمجھنے لگے ہیں اور انہوںنے صحافت کے اپنے ہی اصول بنائے ہیں جن کا حقیقی صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اب تو عام تقریبات میں بھی عامل صحافیوں سے زیادہ انہی پورٹلوںکے ’نامہ نگار‘دیکھے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں عملی طور حقیقی صحافی گھٹن کا شکار ہو چکے ہیں ۔مباحثے اور انٹرویو بھی بے ڈھنگ ہوتے ہیں اور تمام حدود کو پھلانگنا عام بن چکا ہے۔یہی صورتحال صوتی و بصری مواد کی بھی ہے ۔آن لائن میڈیم کے ذریعے فلموں اور ویب سیریز کی جس طرح آن لائن سکریننگ کی جارہی ہے ،وہ بھی قابل اعتراض ہی ہے ۔چونکہ آن لائن ویڈیو وآڈیو مواد کو کوئی دیکھنے والا نہیں ہے،اس لئے موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تڑکا لگانے کی خاطر خاص کر ویب سیریزمیں ایسے فحش مناظر دکھائے جارہے ہیںجن کا عمومی فلموں کی دنیا میں تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے۔اسی طرح گالم گلوچ ،بدکلامی اور ناشائستہ حرکات اب آن لائن میڈیا کی ویڈیو سیریز کا جزو لاینفک بن چکی ہیں۔طنز و مزاح کے نام پر دستار اچھالنا عام بن چکا ہے ۔تفریحی پروگراموں کے نام پر ذہنی پراگندگی کا سامان مہیا کیا جارہا ہے۔معلوماتی ویڈیوز کے نا م پر ایک ایسی دوڑ لگی ہے جہاں ہر ایک کو زیادہ سے زیادہ ویوز حاصل کرنے کی جلدی ہے تاکہ آن لائن اشتہارات حاصل کرسکے لیکن کمائی کے اس آسان عمل میں صحافتی اصولوں کو پائوں تلے روندا جارہا ہے۔اب اگر سرکار نے آن لائن میڈیا کو منضبط کرنے کا فیصلہ لیا ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی کی جارہی ہے تو ا سکا خیر مقدم کیاجانا چاہئے کیونکہ اب اس طرح کی ترمیم کے نتیجہ میں ایسے آن لائن پلیٹ فارموں کی رجسٹریشن ناگزیر بن جائے گی اور وہ یقینی طور پر ایک مجاز اتھارٹی کے سامنے جوابدہ بھی ہونگے جس سے آن لائن میڈیا پر جاری ہونے والے صوتی و بصری اور ٹیکسٹ مواد کا معیار بہتر ہوسکتا ہے اور یوں یہ میڈیا معاشرہ کی تعمیر میں بہتر کردار ادا کرسکتا ہے ۔چونکہ آج کا دور ہی آن لائن میڈیا کا ہے تو یہ ترامیم ناگزیر تھیں اور آن لائن میڈیا کو جوابدہ بنا کر اصل میں دور ِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی گئی ہے ۔یقینی طور پر اب آن لائن پورٹلوں کو ویب سیریز اور فلمیں اپنے پلیٹ فارموں پر جاری کرنے سے قبل انہیں متعلقہ حکام سے سنسر کرانا ہوگاجس کے نتیجہ میں آن لائن ناچاکی کا کافی حد تک ازالہ ممکن ہوسکتا ہے تاہم آن لائن میڈیا کو منضبط کرنے کے اس عمل میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کہیں یہ عمل روایتی میڈیاکی طرح ہی آن لائن میڈیا کی بھی غیر اعلانیہ سنسر شپ کا ذریعہ نہ بنے۔عام شکایت ہے کہ ملک بھر میں روایتی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کوبلا اعلان محدود کیاگیا ہے اور اب حکومت کی مخالفت کو ملک دشمنی کے زمرے میں رکھاجارہا ہے جو جمہوری نظام کیلئے کوئی اچھا شگون نہیںہے۔اب اگر آن لائن میڈیاکی جوابدہی یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جوابدہی کا عنصر پیدا کرتے کرتے جدید دور کے اس نئے اور متبادل میڈیاپلیٹ فارم کو بھی رام نہ کیاجائے ۔ جوابدہ بنائیں لیکن گلہ نہ گھونٹیں۔آن لائن مواد کی بہتری کیلئے کام کریں لیکن ایسا کرتے کرتے اس مواد کو بے جان ہی نہ بنایا جائے اور یوں آن لائن میڈیا کو بھی حکومت ِ وقت کی قصیدہ خوانی تک محدود نہ کیاجائے۔امید کی جاسکتی ہے کہ سرکار کے اس نئے مسودہ قانون کے پیچھے اچھی نیت ہوگی اور اچھی نیت کے ساتھ ہی عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا کیا جائیگا اور آن لائن میڈیا کو صرف جوابدہ بناکر اُنہیں کام کرنے کی مکمل آزادی دی جائے گی تاکہ وہ متحرک اور توانا و جوابدہ جمہوری نظام کو یقینی بنانے میں اپنا رول ادا کرسکیں۔